ایک روپے کا سوال ہے بابا! (پاکستانی عوام کے نام کھلا خط)

ذیشان الحسن عثمانی  ہفتہ 9 دسمبر 2017
پیغام ہم نے پہنچادیا، اسے قبول کرنا یا نظرانداز کرتے ہوئے گزرجانا آپ پر منحصر ہے۔ (فوٹو: فائل)

پیغام ہم نے پہنچادیا، اسے قبول کرنا یا نظرانداز کرتے ہوئے گزرجانا آپ پر منحصر ہے۔ (فوٹو: فائل)

علم، شعور، حکمت، عمل، محبت، سلیقہ، اِخلاق، وفاداری، جذبہ، لگن، کفایت شعاری، احسان، ایمانداری، امانت، عبدیت، بزرگی، ملوکیت، بندگی اور ان جیسی سینکڑوں خوبیوں اور کردار کے اوصاف سے روز بہ روز بے بہرہ اور ناآشنا ہوتی قوم کے نام پر، ہاتھ جوڑ کر آنے والی نسلوں کا واسطہ دے کر ایک روپے کا سوال ہے بابا!

جنرل ضیاءالحق کے دور میں داڑھیوں پر لگنے والے نرخ اور افغان جہاد کے نام پر ایمان فروشی کے کاروبار کے نقطہ آغاز سے، دہشت گردی، خودغرضی، کرپشن اور اقربا پروری کی آگ آج 2017 میں تین نسلیں نِگل جانے کے بعد اس مذہب کے نام پر، سڑک کے بیچوں بیچ بیٹھی ہے جو دو جہاں کےلیے سلامتی بن کر آیا۔

ہم نے پڑھنا چھوڑ دیا، ہم نے لکھنا چھوڑ دیا، ہم نے سُننا چھوڑ دیا، ہم نے سیکھنا چھوڑ دیا۔ ہم نماز تو نماز، دعا مانگنا تک بھول گئے۔ ہم نے دین کو دنیا سے الگ کرنے کے بعد اسے خُدا سے بھی الگ کردیا۔ ہم نے اپنے نفس کو خُدا، جہالت کو امام اور بدتمیزی کو زندگی گزارنے کا سلیقہ بنالیا۔

ہم بہت دور نکل آئے اسلام سے، عشقِ محمد ﷺ سے، اپنی تہذیب و روایات سے، انسانیت سے اور بندگی سے۔

بیچ سڑک پر دست و گریباں پاکستانی، مرتے ہوئے شخص کی ایمبولینس کو راستہ نہ دینے والا بھی پاکستانی، عشقِ رسول ﷺ کے نام پر فحش گانوں کی دھن پر ناچنے والا بھی پاکستانی۔

کس کا گریباں پکڑوں، کہاں جا کر رونا روؤں، کس کو دُہائی دوں، کہاں سِیاپا کروں، کہاں جا کر جا مروں؟

ملک سے باہر رہ رہ کر ذلیل ہونے کی قوت ختم ہوتی جا رہی ہے۔ ہم تو سچ بھی اس لئے کہتے ہیں کہ اگلے کی تذلیل ہو اور ہماری اَنا کو تسکین پہنچے۔

بہت دیر ہو گئی۔ جاہلوں کی پوری کھیپ تیار ہے۔ سوائے ان کے مرنے کی دعاؤں کے اور کچھ نہیں کرسکتے۔

مگر کیا ہم اپنی آنے والی نسلوں کو وہی پاکستان دینا چاہیں گے جِس میں ہم زندہ ہیں؟ دل پر ہاتھ رکھ کر کہیے کہ کیا آپ چاہیں گے کہ آپ کا بیٹا یا بیٹی جوان ہو کر وہی سب کچھ دیکھے اور سُنے جس کا ہمیں سامنا ہے؟ اگر جواب ’’نہیں‘‘ ہے تو آئیے ہمارا ساتھ دیجیے۔

ہم سرپھرے لوگوں کی ایک مختصر سی جماعت ہیں۔ ایک نامکمل داستان، ادھوری کاوش اور نادانیوں میں گھری زندگی۔ نہ کوئی تقدس کا دعویٰ، نہ ہی علم کا ڈھنڈورا، نہ کوئی وژن کی آسمانی داستان، نہ ہی کوئی دردمندی کا زمینی بہانہ۔ بس آپ جیسے ہی لوگ ہیں۔

ہم چاہتے ہیں کہ پاکستان میں ایک ایسی درسگاہ کا قیام عمل میں آئے جہاں اِنسان بنیں، انسانیت پروان چڑھے۔ علم و اخلاق خُدا کے ساتھ آئیں اور ہم سے بہتر نسل ہم اس ملک کو دے کر جائیں۔

اس لنک پر ہم نے ایک وڈیو بنائی ہے اور ساری کتھا لکھ دی ہے:

بچوں، بوڑھوں، کمزوروں، معذور و اپاہج، قوتِ گویائی و بینائی سے محروم افراد کو نکال کر ملک میں کوئی 15 کروڑ عوام بستی ہے۔

یہی ہماری لاگت آنی ہے یونیورسٹی کی زمین پر۔

آپ سے التجا ہے کہ صرف ایک روپیہ اپنی آئندہ نسلوں کے نام پر یہاں صدقہ کر دیجیے۔ ہم پوری کوشش کریں گے کہ اِس ایک روپے کو آپ کی زندگی کا قابلِ فخر روپیہ بناسکیں۔ آپ لنک پر موجود بینک اکاونٹ پر بھی ٹرانسفر کرسکتے ہیں۔ کوئی زیادہ دینا چاہے تو اللہ اسے اور اجر دے۔

آپ چاہیں تو ضمیر کی آواز پر ایک روپیہ عنایت کر دیجیے، چاہیں تو کوئی اعتراض لگا کر آگے بڑھ جائیے اور چاہیں تو گالیاں لکھ بھیج دیجیے۔ ہم سب جمع کر رہے ہیں۔

اللہ گواہ ہے کہ ہم نے حجّت تمام کردی۔ جو ہم سے ہوسکا، وہ کیا۔ جہاں رُک گئے وہاں آپ کے سامنے مسئلہ من وعن بیان کر دیا۔

ایک روپے کا سوال ہے بابا! مجھے نہیں اپنی اولادوں کو دے دیجیے۔

آئیے! شکایتیں، رنجشیں اور منافقتیں بھلا کر ملک بناتے ہیں۔ ایک ایک اینٹ، ایک ایک قلم، ایک ایک کتاب۔

آپ کی توجّہ کے منتظر!

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لئے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

ڈاکٹر ذیشان الحسن عثمانی

ذیشان الحسن عثمانی

ڈاکٹر ذیشان الحسن عثمانی فل برائٹ فیلو اور آئزن ہاور فیلو ہیں۔ ان کی تصانیف http://gufhtugu.com/authors/zeeshan-ul-hassan-usmani/ سے حاصل کی جاسکتی ہیں۔ وہ کمپیوٹر سائنس، مصنوعی ذہانت، ڈیٹا سائنس اور معاشرتی موضوعات پر باقاعدگی سے لکھتے ہیں۔ آج کل برکلے کیلی فورنیا، امریکہ میں ایک فرم میں چیف ٹیکنالوجی آفیسر ہیں۔ آپ ان سے [email protected] پر رابطہ کر سکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔