اقتدار کے کھیل

نصرت جاوید  جمعرات 14 مارچ 2013
nusrat.javeed@gmail.com

[email protected]

سیاستدانوں اور ان کی چالاکیوں کو میں 1985ء سے بہت قریب سے دیکھ رہا ہوں ۔مجھے ان کا دھندا اچھا نہیں لگتا اور میں ہرگز اس پیشے میں نہیں جانا چاہتا۔ مجھے انتخاب لڑنا تو کیا ووٹ ڈالنے کا بھی قطعی کوئی شوق نہیں ہے ۔1977ء میں ووٹ ڈالنے کے اہل ہوگیا تھا۔

اس وقت سے آج تک پاکستان میں جتنے بھی انتخابات ہوئے میں نے ایک مرتبہ بھی اپنے ووٹ کا استعمال کیا اور نہ اب کی بار کوئی ایسا ارادہ ہے ۔برسوں کی مشقت کے بعد 2004ء کے اختتام پر میری آمدنی اس قابل ہوئی کہ اس پرٹیکس لاگو ہوسکے ۔مگر مجھے اپنے گوشواروں میں اس آمدنی کے ذکر کا موقعہ دیے بغیر وہ ادارے جن کے لیے میں کام کرتا ہوں یا کرتا رہا میری تنخواہ کا چیک کاٹنے سے پہلے ہی اس میں سے حکومت کو واجب الادا ٹیکس منہاکرلیا کرتے ہیں ۔

میں اپنے اسکول اور کالج کے زمانے میں پڑھاکو سمجھاجاتا تھا ۔میری ماں کو تو پورا یقین تھا کہ ہر وقت کتابوں میں مصروف رہنے کی وجہ سے میری نظرکم عمری میں کمزورہوگئی اور مجھے موٹے شیشوں کی عینک لگانا پڑی۔یہ عینک بچپن کی لڑائیوں میں دشمنوں کا پہلا نشانہ بنتی۔پھر بھی مارسے بچ جاتا تو گھر سے ایک اور عینک تڑوانے کی وجہ سے دنوں تک بُرا بھلاسنتا رہتا ۔بخدا میری تعلیمی اسناد بھی جعلی نہیں ہیں ۔

مگر ان میں سے کوئی ایک سند بھی آج تک مجھے کوئی نوکری دلوانے میں کامیاب نہ ہوسکی۔میرا دھندہ ایسا ہے کہ اس میں صحافتی اداروں کے مالکان اور مدیر یہ جاننا چاہتے ہیں کہ آپ کو خبر نکالنا آتا ہے یا نہیں ۔خبر مل جائے تو اسے کیسے لکھتے یا ٹیلی وژن پر ’’بریک‘‘ کرتے ہیں۔  اسی حوالے سے آپ کی صلاحیتوں کا جائزہ لے کر آپ کا مول لگایا جاتا ہے اور میرا شمار ہمیشہ سے نسبتاً زیادہ معاوضہ لینے والے صحافیوں میں ہوتا رہا ہے ۔

یہ ساری تمہید باندھنے کے بعد مجھے عرض صرف یہ کرنا ہے کہ جمہوریت چلانی ہے توسیاستدانوں کی ضرورت ہوگی اور آپ سب کی طرح میری بھی شدید خواہش ہے کہ پاکستان کو ایماندار سیاستدان نصیب ہوں ’’چور،ڈاکو اور جعلی ڈگریوں والے‘‘ نہیں ۔اپنی اس خواہش کو دہراتے ہوئے میں یہ بات بھی کہنے پر مجبور ہوں کہ ہمارے ملک میں اصل اقتدار ابھی بھی سیاستدانوں کے ہاتھ نہیں آیا ہے ۔کم از کم میری باقی زندگی میں ایسا ہوتا ممکن بھی نظر نہیں آرہا۔

اتنی بات ضرور ہے کہ 2008ء کے بعد سے سست رفتارسہی مگر ایک تدریجی عمل ضرور شروع ہوا ہے جس کی راہ میں خلل نہ ڈالا جائے تو ایک دن  اقتدار اصل منتخب سیاستدانوں کو منتقل ہوجائے گا ۔اس انتقال تک پہنچنے سے پہلے ہمیں بڑے صبر اور ہوشیاری سے اپنی اپنی حیثیت میں اس لمبے سفر میں اپنا اپنا حصہ ادا کرنا ہوگا ۔بطور ایک پیشہ ور صحافی کے میں یہ کہنے پر مجبور ہوں کہ میرے شعبے کی اکثریت اس ضمن میں اپنا کردار احسن طریقے سے ادا نہیں کررہی ہے۔

نئے انتخابات کی آمد کے ساتھ ہی ہماری پوری توجہ آئین کے آرٹیکل 62اور 63کی جانب مبذول ہوگئی ہے ۔میں ذاتی طورپر جنرل ضیاء کے متعارف کروائے ان قوانین کا اتنا مداح نہیں ہوں۔بلکہ بہت سارے ٹھوس تجربات سے پوری طرح جانتا ہوں کہ ان قوانین نے ہمارے ملک میں منافقت اور جھوٹ کی روایات کو پروان چڑھایا ہے ۔وقت ملا تو ان میں سے کچھ تجربات کا اس کالم میں ذکر کرتا رہوں گا ۔فی الحال صرف اتنا غور کرلیتے ہیں کہ ’’جعلی ڈگریوں‘‘ کا شوروغوغا کیسے شروع ہوا ۔

جنرل ضیاء کے بعد جو روشن خیال آمر ہمارا مقدر بنے انھوں نے اپنے ایک مہربان جنرل نقوی کو پاکستان کا افلاطون بناکر ان سے اس ملک کو ’’جڑوں تک مضبوط ‘‘اصل اور وڈی جمہوریت والی REPUBLICAمیں تبدیل کرنے پر لگادیا۔موصوف جب اپنی حکمت کے ذریعے پاکستان میں اصلی جمہوریت کی بنیادیں ڈال رہے تھے تو میری ان سے چند ملاقاتیں ہوئیں ۔میں ان سے اپنی پہلی ملاقات کبھی نہیں بھول سکتا ۔چونکہ موصوف ایک جرنیل تھے اس لیے میں نے فرض کیا کہ وقت کے بڑے پابند ہوں گے ۔انھوں نے ملاقات کا جو وقت دیا تھا اس سے بھی پانچ منٹ پہلے ان کے دفتر پہنچا۔

ان کے پی۔اے نے انتظار کرنے کو کہا۔آدھا گھنٹہ گزرگیا۔ بالآخر میں نے پوچھ لیا کہ آیا کوئی اہم آدمی ان سے ملنے آیا ہوا ہے تو پی اے نے انکار میں سرجھکاکر ان کے کمرے کے باہر جلتے سرخ بلب کی طرف انگلی سے اشارہ کیا ۔میں نہ سمجھا تو انھوں نے انکشاف کیا کہ جنرل نقوی جب اپنے دفتر میں اکیلے بیٹھے کسی گہری سوچ میں ڈوب جائیں تو یہ سرخ بلب جلادیتے ہیں ۔اس کا مطلب ہوتا ہے کہ کوئی ان کے مراقبے میں مخل نہ ہو۔رپورٹر ہوں طنز کیے بغیر نہیں رہ سکتا ۔احتیاطاً  پوچھ لیا کہ ایسے میں اگر جنرل مشرف کا فون آجائے تو کیا ہوگا تو بڑی ڈھٹائی سے جواب ملا کہ وہ تو ایک الگ معاملہ ہے جسے روزمرہ معمول نہیں سمجھاجاسکتا۔

بہرحال اپنے کمرے کے دروازے پر سرخ بلب جلاکر تنہائی میں غوروفکر کرنے والے نقوی صاحب نے فیصلہ کیا کہ قومی اسمبلی کا رکن بننے کے خواہاں شخص کو کم از کم بی اے ضرور ہونا چاہیے ۔ایسا کرتے ہوئے انھیں ہرگز یاد نہ رہا کہ کم از کم اس خطے کے دو کافی کامیاب حکمران۔جلال الدین اکبر اور رنجیت سنگھ تو چٹے اَن پڑھ تھے ۔حکمِ حاکم لیکن مرگ مفاجات ہوتا ہے ۔2002ء کے انتخابات ہوئے تو جتوئی صاحب جیسے جہاندیدہ مگر انتہائی نفیس سیاستدانوں نے ان میں حصہ ہی نہ لیا ۔اپنے اپنے گریجویٹ بیٹے ،بیٹیاں یا بہووئیں آگے کردیے ۔

اقتدار کے ایوانوں میں پہنچنے کے خواہاں مگر بہت سارے ’’نئے چہرے‘‘ بھی تھے۔ ان میں سے اکثر نے غیر ملکوں میں رہ کر یا اپنے ہی ملک میں قبضے گروپ بناکر کروڑوں بنائے تھے ۔’’بی ۔اے ‘‘ کی ڈگریاں خریدلینا ان کا مسئلہ ہی نہ تھا ۔انھوں نے یہ ڈگریاں کسی نہ کسی طرح خریدیں اور 2002ء سے 2008ء تک ہماری اسمبلیوں میں براجمان رہے۔ان میں سے اکثر کا آج تک کہیں ذکر نہیں ہوتا۔رات گئی بات گئی والا معاملہ ہوگیا ہے۔ برق گری ہے تو صرف ان پر جو کسی نہ کسی طرح 2008ء کی پارلیمان میں بھی آگئے تھے ۔

ہمارے الیکشن کمیشن نے بڑے دھوم دھڑاک سے جو نئے کاغذات نامزدگی متعارف کروائے ہیں اس کا نتیجہ بھی کوئی زیادہ مختلف نہ ہوگا۔بس ذرا انتظار کرلیجئے آپ کو چند چسکے دار ٹوٹے اس ضمن میں ضرور پیش کروں گا ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔