دامن کو ذرا دیکھ

مقتدا منصور  بدھ 13 مارچ 2013
muqtidakhan@hotmail.com

[email protected]

مجھے اس وقت یاس یگانہ چنگیزی یاد آرہے ہیں،جنہوں نے کیاخوب کہا تھا کہ

سب ترے سوا کافر،آخر اس کا مطلب کیا ہے

سر پھرا دے انسان کا،ایساخبطِ مذہب کیا ہے

حکمرانوں،منصوبہ سازوںاور سیاسی جماعتوں کی کوتاہ بینی،مصلحت کوشی اور قومی مسائل سے بے اعتنائی کے سبب پاکستان اس شعر کی عملی تفسیر بن چکا ہے۔ جہاں ایک طرف مسلمان مسلمانوں کوبم دھماکوں ،خود کش حملوں اور ٹارگٹ کلنگ کے ذریعے قتل کررہے ہیں۔وہیںدوسری طرف کچھ  مسلمان اسلام کی محبت میں سرشارمذہبی اقلیتوں پر عرصہ حیات تنگ کرنے میں مصروف ہیں۔

اس میں شک نہیں کہ ہمارے ملک میں مذہبی معاملات پر گفتگو انتہائی حساس اور نازک معاملہ ہے۔ لیکن جس انداز میں گزشتہ تین دہائیوں کے دوران شدت پسندانہ رجحانات میں اضافہ ہواہے، وہ ایک سنجیدہ بحث کے بہر حال متقاضی ہیں۔ کیونکہ ان رجحانات کے ہر پہلو پر جب تک کھل کر گفتگو اور بحث نہیں ہوتی، کسی صائب اور قابل عمل حل تک پہنچنا ممکن نہیں ہے۔

پاکستان میں بڑھتی ہوئی مذہبی شدت پسندی اور متشدد فرقہ واریت کوئی نیا مظہر نہیں ہے۔اس کی جڑیںاس تہذیبی نرگسیت میں پوشیدہ ہیں،جس کی آبیاری حکمران اور ریاستی منصوبہ ساز قیام پاکستان کے وقت سے کرتے چلے آرہے ہیں۔اس روش کے نتیجے میں  بلوے اور ہنگامہ آرائی کا سلسلہ1953ء سے کسی نہ کسی شکل میں جاری ہے،جن میں گزشتہ تین دہائیوںکے دوران شدت آئی ہے۔

حکمرانوں اور سیاسی قیادتوں کے غیر ذمے دارانہ رویوں اور غیر سنجیدہ طرزعمل کی وجہ سے صورتحال اب قابو سے باہر ہوچکی ہے اور عقیدے کے نام پر پرتشدد واقعات روز کا معمول بن چکے ہیں۔یہی سبب ہے کہ ہر واقعہ پاکستان کے دامن پر ایک نیا دھبہ لگادیتا ہے اوراب تک اتنے دھبے لگ چکے ہیں کہ پورا دامن سیاہ ہوچکا ہے۔اس وقت صورتحال یہ ہے کہ بڑھتی ہوئی متشدد سرگرمیوں کے باعث عالمی سطح پر پاکستان کو مذہبی شدت پسندی پوری دنیا میںایکسپورٹ کرنے کا ذمے دارسمجھا اور ہر پاکستانی کو شک کی نظر سے دیکھا جا رہا ہے۔

اس وقت پاکستان میں شدت پسندی کے تین رجحانات پائے جاتے ہیں۔اول ،اہم سیاسی وسرکاری شخصیات اور ریاستی تنصیبات کو نشانہ بنانا، دفاتر، بازار اور عوامی مقامات پر بلاامتیاز بم دھماکے اور خود کش حملے۔دوئم،فرقہ واریت کی بنیاد پر ایک مخصوص کمیونٹی کی بستیوں پر بم حملے،ٹارگٹ کلنگ اور بسوں سے اتار نے کے بعد شناخت کرکے قتل۔سوئم،توہین مذہب کو بنیاد بناکر غیر مسلموں کی بستیوں پر حملے،ان کی حمایت کرنے والے مسلمان شہریوں کی ٹارگٹ کلنگ۔پہلی قسم کے واقعات میں وہ شدت پسند اور جنگجوعناصر ملوث ہیں، جنھیں 1980ء کے عشرے میں  ریاست نے پروان چڑھنے کا موقع فراہم کیا تھا۔

یہ عناصر 9/11کے بعد پاکستان کے رویوں میں آنے والی تبدیلی کے ردعمل میںحکومت پاکستان کو زچ کرنے کے لیے متشددکارروائیوں میں ملوث ہیں۔دوسری قسم ان عناصر کی ہے، جوجنرل ضیاء کے دور میں کی جانے والی سطحی نوعیت کی اسلامائزیشن کے نتیجے میں پیدا ہوئے۔ ریاستی ایجنسیاں بھی اپنے مخصوص مفادات کے حصول کی خاطر ان کی سرگرمیوں سے صرف نظر کرتی ہیں۔تیسری قسم ان عمومی روئیوں کی ہے، جو تمام مسلمانوں بالخصوص اس خطے کے مسلمانوں کی سرشت رہی ہے  یعنی مسلمانوں میں اپنے مذہب کے بارے میں گستاخی برداشت نہ کرنے کی روایت رہی ہے۔مگر اس رویے میں تشددکا پہلو اول الذکر دو رجحانات میں شدت کی وجہ سے آیا ہے۔

برٹش انڈیا میں ہندواور مسلمانوں کے درمیان بڑھتی ہوئی آویزش کے پیش نظر انگریز حکومت نے انڈین پینل کوڈ(IPC)میں ایک شق295کا اضافہ کیا۔یہ شق عبادت گاہوں کی توہین اور انھیں نقصان پہنچانے سے متعلق تھی۔بعد میں ایک ذیلی شق295Aشامل کی گئی، جس میںمذہبی جذبات مجروح کیے جانے کو قابل تعزیر جرم قراردیاگیا۔قیام پاکستان کے بعداس میںذیلی شق’B’کا اضافہ کیاگیا،جس میںقرآن مجید کی توہین کوقابل سزاجرم قراردیاگیا۔جنرل ضیاء کے دور میں ایک اور ذیلی شق’C’شامل کی گئی،جو توہینِ رسالت کے بارے میں ہے ۔اسی طرح کرمنل پروسیجر کوڈ(Cr.P.C) کی شق 298اوراس کی دو ذیلی شقوں کے ذریعے PPCمیں طے کردہ قابل تعزیر جرائم کی سزائیں مقرر کی گئیں۔

یہاں یہ بات قابل ِغور ہے کہ 1929ء سے 1979ء کے دوران 50برس کے عرصے میںاس قانون کے تحت درجن بھر کے قریب مقدمات درج ہوئے۔ جب کہ 1986ء میںذیلی شق’C’شامل کیے جانے کے بعد سے2007ء تک توہین مذہب کے647 مقدمات درج ہوئے،جن میں سے 335غیر مسلموں کے خلاف تھے۔لیکن 2007ء سے2012ء  کے دوران ان واقعات میں اچانک اضافہ ہوجاتا ہے اورمحض پانچ برسوں کے دوران رجسٹرڈکیسوں کی تعداد ڈیڑھ ہزار تک جاپہنچتی ہے۔ دوسرا قابل ذکر پہلو یہ ہے کہ ملک کے دیگر حصوں میں توہین مذہب کے واقعات صرف4فیصد کے قریب ہیں،جب کہ 96فیصد واقعات صرف وسطی پنجاب میں ہوئے ہیں۔تیسرا پہلویہ ہے کہ توہین مذہب کے جتنے بھی واقعات سامنے آئے ہیں،ان میںصرف مسیحی عقائد سے تعلق رکھنے والے افراد نامزد کیے گئے ہیں۔جب کہ دیگر مذاہب سے تعلق رکھنے والے افراد پر اس قسم کے مقدمات سامنے نہیں آئے ہیں۔

یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا مسیحی کمیونٹی یہ جانتے ہوئے کہ پاکستان میں وہ ایک چھوٹی اقلیت ہیں،ملک میں توہین مذہب کے قوانین خاصے سخت ہیںاوراکثریتی مذہب سے تعلق رکھنے والے عوام خاصے جذباتی ہیں،باربار ایک ہی عمل دہرا رہے ہیں؟اس سلسلے میں تیسرا پہلو یہ ہے کہ ہر واقعہ میں ملزم کی گرفتاری کے باوجود مشتعل ہجوم پوری بستی کو تاراج کردیتا ہے۔معاملہ سانگلہ ہل کا ہو، یا سیالکوٹ کا،گوجرخان کا ہویا گوجرانوالہ کا یا اب بادامی باغ کی جوزف بستی کا،تقریباً ایک جیسے واقعات سامنے آئے ہیں۔اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ توہین مذہب کی آڑمیں اصل مقاصدکچھ اورہی ہوتے ہیں۔جیساکہ جوزف بستی کی آتش زنی کے پس پشت کہانیوں میں بعض با اثر کارخانہ داروں کا نام آرہاہے، جو غریبوںکی اس بستی کو خالی کراکے وہاں گودام قائم کرنے کے خواہشمند ہیں۔

ایک بار پھر عرض ہے کہ توہین مذہب کے قوانین پر رائے زنی ایک حساس اور نازک مسئلہ ہے۔خاص طور پرجب ایک مخصوص حلقہ اسے جذباتی رنگ دے کر نزاعی شکل دینے کی کوششیں کررہاہو۔ساتھ ہی ان تمام لوگوں پر بھی حلقہ حیات تنگ کیاجارہاہو،جو ان قوانین کے بارے میں مختلف رائے یا توہین مذہب کے کسی ملزم سے ہمدردی کا اظہار کرتے ہیں۔اس سلسلے میںہمارے سامنے سابق گورنر پنجاب سلمان تاثیر کی مثال موجود ہے ۔ بعض سیاسی جماعتیں اور وکلاء تنظیمیں قاتل کی سزا معاف کرانے کے لیے سرگرم ہیں اور اس مقصد کے لیے ایک بار پھر مذہبی جذبات بھڑکائے جارہے ہیں۔لہٰذا ایسی صورتحال میں بادامی باغ کی جوزف کالونی جیسے واقعات کی روک تھام مشکل نظر آتی ہے اور آنے والے کسی بھی وقت ایسے کسی بھیانک واقعے کے رونما ہونے کے امکان کو رد نہیں کیاجاسکتا۔

متوشش شہریوں کاموقف ہے کہ اگر1953ء کے بھیانک فسادات کے بعد قائم ہونے والے جسٹس منیرکمیشن کی سفارشات پر سنجیدگی کے ساتھ عمل کرلیا جاتا تو اس قسم کے واقعات سے بچنے کی سبیل ہوسکتی تھی۔مگر مخصوص مفادات کی خاطر ان سفارشات کو نظر انداز کیا گیا۔اس کے برعکس مذہبیت (Religiosity)کے تصور کو اس طرح ابھارا گیاکہ اس کے نتیجے میں عدم برداشت اورمتشدد فرقہ واریت میںتیزی سے اضافہ ہوا۔لیکن سیاسی جماعتوں میں اس سیاسی عزم کی کمی ہے جو اس قسم کے واقعات کی روک تھام کے لیے ضروری ہے۔

سول سوسائٹی کی جانب سے مسلسل احتجاج کے باوجود1988ء سے1999ء کے دوران قائم ہونے والی سیاسی حکومتوں نے اس مسئلے کوسرد خانے میں ڈالے رکھااور اس پرکوئی صائب لائحہ عمل ترتیب دینے پرہچکچاہٹ کا شکار رہیں۔اسی طرح موجودہ حکومت نے بھی اپنے ایک گورنر اور ایک وفاقی وزیر کے اس بنیاد پر قتل ہوجانے کے بعداس مسئلے کوحل کرنے کے لیے کوئی راست قدم اٹھانے سے گریز کیا۔یہی سبب ہے کہ مستقبل قریب میں اس مسئلے کے کسی صائب حل کی کوئی امید نظر نہیں آرہی،جوکہ ایک تشویشناک بات ہے۔کیونکہ ان واقعات کی وجہ سے عالمی سطح پرپاکستان کاتشخص بری طرح مجروح ہورہا ہے اور اس الزام پر مہر ثبت ہورہی ہے کہ ہم اقلیتوں کو تحفظ دینے میں مکمل ناکام ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔