شہر تو میرا لہو لہو ہے

رئیس فاطمہ  بدھ 13 مارچ 2013

انگلینڈ میں جب لوگ ایک دوسرے سے ملتے ہیں تو زیادہ تر بات موسم کے حوالے سے ہوتی ہے کیونکہ وہاں کا موسم بڑا بے اعتبار ہے۔ اوراب کراچی کے لوگ کہیں بھی جاتے ہیں تو پہلی بات یہاں کے تشویشناک حالات پر ہوتی ہے۔

پچھلے دنوں جب ہم اسلام آباد میں تھے تو جہاں جہاں بھی گئے، یا جن لوگوں سے بھی ملاقات ہوئی، سب ہی کراچی میں دن بدن بڑھتی ہوئی تشویشناک صورت حال پر افسردہ تھے، اسی دوران سانحہ عباس ٹاؤن نے ایک بار پھر شہر کو لہو لہوکردیا، میرے پاس اس حوالے سے کئی نظمیں اور اشعار موبائل فون پر آئے، سب میں ہی کراچی کا مرثیہ تھا، ایک نظم کے چند اشعار ذرا دیکھیے جو کسی گمنام شخص نے بھیجے ہیں۔

اجاڑ رستے، عجیب منظر

ویران گلیاں، بازار بند ہیں

کہاں کی خوشیاں

کہاں کی محفل

شہر تو میرا لہو لہو ہے

وہ روتی مائیں، بے ہوش بہنیں

لپٹ کے لاشوں سے کہہ رہی ہیں

اے پیارے بیٹے

گئے تھے گھر سے

سفید کرتا، سرخ کیوں ہے؟

کیا کریں، کس سے کہیں؟ کوئی اس بدنصیب شہر کا والی وارث نہیں ہے، کسی کو اس کی فکر نہیں ہے، اس شہر پر موت کا آسیب گزشتہ کئی برسوں سے مسلط ہے، وہ جو حکومتیں بناتے ہیں، وہ جو نیلامی میں زندہ اور بے ضمیر انسانوں کے اصطبل کے اصطبل خرید لیتے ہیں، جو اس شہر کے والی وارث بنے ہیں، لینڈ مافیا اور ہیروئن فروشوں کے کارندوں نے اسلحے کی خریدوفروخت سے اپنے گودام بھر لیے اور شہر کو مقتل بنادیا ہے، وہ جو ووٹ مانگنے کے لیے اچانک اس شہر کے ہمدرد بن جاتے ہیں، وہ جو الیکشن میں کامیابی کے بعدکے سنہرے خواب لوگوں کو دکھاتے ہیں،  کراچی کو پیرس بنانے کی ناقابل یقین باتیں کرنے والے اور دہشت گردوں کو کیفرکردار تک پہنچانے کی جھوٹی باتیں کرنے والے، سب موسمی پرندوں کی طرح اس شہر پر یلغار کرتے ہیں اور اپنی اپنی مرضی کا دانہ چگ کر اڑ جاتے ہیں، لوگوں کو بے یارومددگار چھوڑ کر،کسی نئی سازگار موسم کے لیے توانائی جمع کرنے کے لیے ، تاکہ الیکشن سے پہلے پھر ایک خوفناک فضاء پیدا کرکے من چاہے مقاصد حاصل کرسکیں۔

آخر ایسا کیوں ہے، موت کے فرشتے نے کراچی میں مستقل بسیرا کیوں کرلیا ہے؟ کہتے ہیں کہ موجودہ حکومت نے پورے پانچ سال مکمل کرکے تاریخ رقم کی ہے، ضرور کی ہوگی، لیکن اس تاریخ میں بلوچستان کی ناگفتہ بہ صورت حال کے ساتھ کراچی میں ہر سطح پر بدامنی، دہشت گردی، لوٹ مار اور ٹارگٹ کلنگ کا عالمی ریکارڈ بھی شامل ہے اور سب خاموش تماشائی بنے بیٹھے ہیں، کوئی نوکری پکی کرکے بیٹھ گیا، کسی  نے اقتدار کی ٹوپی آنکھوں پر رکھ لی تاکہ بدامنی اور لاقانونیت کی دھوپ نیند میں خلل نہ ڈالے۔

بلوچستان سے کراچی تک ہر طرف احتجاج ہے چیخ پکار ہے، لوگ با اختیار قوتوں کو آواز دے رہے ہیں، کہ خدارا! مدد کو آؤ، لیکن طالع آزما ’’جمہوریت پر شب خون نہیں مارنے دیں گے‘‘ کے نعرے لگوا کر یہ باور کروا رہے ہیں کہ موت کا پہیہ گھومتا رہے، کراچی کے لوگ مرتے رہیں، بلوچستان سلگتا رہے، خاندانی وراثت کی دیگوں میں حلوہ پکانے والے، مزے لے  لے کر خود بھی حلوے کھاتے رہیں اور مزید حصے دار بھی پیدا کرتے رہیں تاکہ زبان، مذہب، مسلک اور تعصب کے گملوں میں اقتدار کی پنیریاں لگائی جاسکیں، مقتدر قوتوں کو ایک خاص پیغام دے کر شہر کے لوگوں کی مدد سے دور رکھا جاسکے۔

کیا ایسی سفاک صورت حال میں لوگوں کا یہ سمجھنا غلط تو نہیں کہ اسٹیبلشمنٹ نے آخر کیوں کراچی کی طرف سے آنکھیں بند کرلی ہیں، کیا انھیں اپنے وطن کے لوگوں کو اس طرح دہشت گردوں کے ہاتھوں میں چھوڑ دینا چاہیے؟ اپنی مدد اور ملک کی بقاء کے لیے اپنی ہی مقتدر قوتوں کو آواز دینا کوئی جرم تو نہیں اور نہ ہی اس کا یہ مطلب ہے کہ فوج اگر شہریوں کی مدد کو آئے گی تو اقتدار پر قابض ہوجائے گی، سول حکومت آئین کے مطابق آرٹیکل 245 کے تحت فوج کو مدد کے لیے بلاسکتی ہے، لیکن وہ ایسا نہیں کرے گی کیونکہ وہ اپنے اقتدار کے لیے اسے خطرناک سمجھتی ہے۔

وہ بے حس عناصر جنھیں مختلف حیثیتوں میں جمہوریت کا راگ الاپنے کی ذمے داری دی گئی ہے۔ کاش! انھیں کوئی یہ بھی یاد دلائے کہ آخر لوگ فوج کو کیوں یاد کر رہے ہیں؟ عام آدمی کو صرف امن اور روٹی چاہیے۔ ایوب خان، ضیاء الحق اور پرویز مشرف تک سب کے کردار روز روشن کی طرح عیاں ہیں، سب کچھ سامنے ہے، روزمرہ کی اشیائے صرف کی گرانی سے لے کر ڈالر کی بڑھتی ہوئی قیمت تک، جو یقینا آیندہ آنے والی حکومت میں دوگنی ہوجائے گی، کیونکہ یہ سب پلاننگ کا حصہ ہے، پھر بھی عوام دونوں کا موازنہ کرتے ہیں تو کچھ بھی مختلف نہیں۔

وہی رفتار بے ڈھنگی جو پہلے تھی سو اب بھی ہے

تو پھر کوئی بھی اقتدار میں آئے خواہ کالا چور ہی کیوں نہ ہو، عام آدمی کو تو صرف روٹی چاہیے، لیکن اسے دھچکا لگا جب یہ معلوم ہوا کہ روٹی،کپڑا اور مکان تو پہلے بھی اہل ہوس کا تھا اور آج بھی ہے۔ فرق بس اتنا پڑا ہے کہ پہلے روکھی سوکھی مل جاتی تھی، اب ملک کی آدھی سے زیادہ آبادی ایک وقت کا کھانا بھی مشکل سے کھاتی ہے، کوڑے کے ڈھیرے پر سے گلے سڑے پھل اور پیزا اور برگر اٹھاکر کھانے والوں کی تعداد بہت بڑھ گئی ہے اور اسی حساب سے رزق ضایع کرنے والوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہورہا ہے، اس گمبھیر سچویشن میں اگر عام آدمی فوج کو پکار رہا ہے تو یہ ایک اچھی علامت ہے کہ ضیاء الحق کی غلط پالیسیوں کے باوجود کہ اسلحہ، ہیروئن اور افغانی ان کا تحفہ ہیں، پھر بھی لوگ اگر فوج کو آواز دے رہے ہیں تو یقیناً افواج پاکستان نے اپنا تاثر درست کیا ہے، انھوں نے اپنی غلطیوں سے بہت کچھ سیکھا ہے، جب کہ سویلین حکومت نے صرف اپنے بینک بیلنس بھرنے اور خاندانی سیاست پر زور دیا ہے، یہی وجہ ہے کہ کراچی بے آسرا ہے۔

کراچی…میرا شہر کراچی جو کبھی امن کا گہوارہ تھا، آج لہو لہان ہے، یہاں نہ مہاجر کا جھگڑا ہے نہ پٹھان کا، نہ پنجابی کا نہ سندھی کا۔ اگر جھگڑا ہے تو اقتدار کا، کچھ لوگوں کا ایجنڈا صرف یہ ہے کہ نفرت اور تعصب کی سیاست کرو، ہڑتالیں کرواؤ، دکانیں اور کاروبار بند کرواؤ، قبضے کی جنگ جاری رکھو، مذہب کے نام پر اپنی سیاست چمکاؤ ، جو سچ لکھے اس کا حقہ پانی بند کردو، اسے دھمکیاں دو اور اس کا قلم توڑدینے کی دھمکی دو، میرا شہر بہت بدنصیب ہے کہ اسے کوئی لیڈر ایسا نہیں ملا جو اس شہر کے امن وامان کی ذمے داری لے، میرا شہر کراچی جو پورے ملک کی معیشت میںریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے، اس کی طرف کسی کی توجہ نہیں، ریڑھ کی ہڈی پورے انسانی جسم میں سب سے زیادہ اہمیت رکھتی ہے، لیکن جب اس کے مہروں پر مسلسل ضرب پڑتی رہے تو جسم مفلوج ہوجاتا ہے، ایسا لگتا ہے جیسے میرے شہر کو کچھ نادیدہ طاقتیں مفلوج کرکے اپنے ناپاک عزائم پورے کرنا چاہتی ہیں، اسی لیے بم دھماکے اور ٹارگٹ کلنگ روزمرہ کا معمول بن گئے ہیں۔

میرا شہر اتنا بدصورت کبھی نہیں تھا جیسا کہ آج کل ہے۔ مذہبی و لسانی منافرت اور فرقہ وارانہ تبرے بازی بھی کسی ایجنڈے کا ہی حصہ ہیں۔ آخر میوزیکل چیئر کا یہ کھیل کتنے شہر اجاڑے گا،کتنے سہاگ لوٹے گا، کتنے بچوں کو یتیم بنائے گا، کتنی ماؤں کی گود اجاڑے گا، موت کا آسیب کتنی بستیاں ہضم کرے گا؟ کوئی نہیں، کوئی بھی نہیں جو اس روشنیوں کے شہر کو تاریکیوں میں ڈوبنے سے بچائے، انسانی بستیوں کو قبرستانوں میں تبدیل ہونے سے بچائے؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔