سوری رانگ نمبر

جاوید چوہدری  بدھ 13 مارچ 2013
www.facebook.com/javed.chaudhry

www.facebook.com/javed.chaudhry

یہ فلسفہ ہریانہ کے ایک رئیس سکھ نے ایجاد کیا اور آپ اگر ذرا سی توجہ دیں تو آپ کو یہ فلسفہ اپنے اردگرد چلتا پھرتا دکھائی دے گا‘ یہ رئیس سکھ کاروبار کے سلسلے میں لندن گیا‘ وہاں سے اس نے اپنے گھر فون کیا‘ فون اس کے نوکر نے اٹھایا‘ سکھ نے پوچھا’’ بیگم صاحبہ کہاں ہیں‘‘ نوکر نے جواب دیا وہ صاحب کے ساتھ بیڈ روم میں ہیں‘ سکھ کو آگ لگ گئی اور اس نے نوکر سے کہا ’’ صاحب تو میں ہوں اور میں اس وقت لندن میں ہوں‘‘ نوکر نے جواب دیا ’’ جناب مجھے نہیں پتہ کیونکہ یہ میری جاب کا پہلا دن ہے اور بیگم صاحبہ نے مجھے جس کے بارے میں بتایا میں اسے ہی صاحب سمجھتا ہوں‘‘ سکھ کا غصہ تیز ہو گیا‘ اس نے نوکر سے کہا ’’ تم فوراً ٹیبل کی دراز کھولو‘‘ نوکر نے کھول لی۔

اس نے اس سے کہا ’’کیا اس میں ریوالور ہے‘‘ نوکر نے جواب دیا ’’سر دراز میں کاربین پڑی ہے‘‘ سکھ نے نوکر کو حکم دیا ’’ تم یہ کاربین اٹھائو‘ بیڈ روم کا دروازہ کھلوائو اور جعلی صاحب کو گولی مار دو‘‘ نوکر نے گھبرا کر جواب دیا ’’ جناب یوں تو میں پھنس جائوں گا‘‘ سکھ نے مضبوط لہجے میں کہا ’’تم اس کی فکر نہ کرو‘ تمہیں بچانا میری ذمے داری ہے‘ میں تمہیں کام مکمل ہونے کے بعد بیس لاکھ روپے بھی دوںگا‘‘ نوکر نے فون ہولڈ کروایا‘ کاربین لوڈ کی‘ بیگم صاحبہ کا دروازہ کھٹکھٹایا‘ دروازہ کھلا اور نوکر نے صاحب کو گولی مار دی۔

سکھ نے فون پر گولی چلنے اور بیوی کے چلانے کی آواز سنی اور خوش ہو گیا‘ نوکر واپس آیا‘ اس نے فون اٹھایا اور سکھ سے کہا ’’ جناب آپ کا کام ہو گیا‘‘ سکھ نے نوکر کو حکم دیا ’’ تم اب جعلی صاحب کی نعش اٹھائو اور اسے سوئمنگ پول میں پھینک دو‘‘ نوکر نے چند لمحے سوچا اور اس کے بعد عرض کیا ’’ لیکن جناب گھر میں تو کوئی سوئمنگ پول نہیں؟‘‘ سکھ نے حیران ہو کر پوچھا ’’ کھوتے تم کیا کہہ رہے ہو‘ کیا گھر کے پیچھے سوئمنگ پول نہیں‘‘ نوکر نے کہا ’’ جناب پورے گھر میں کوئی سوئمنگ پول نہیں‘‘ سکھ نے چند لمحے سوچ کر فون نمبر دہرایا اور پوچھا ’’ کیا تمہارا فون نمبر یہ ہے‘‘ نوکر نے جواب دیا’’ جی نہیں سر‘ ہمارے فون کا نمبر دوسرا ہے‘‘ سکھ نے ایک لمبا سانس لیا اور معذرت خواہانہ لہجے میں بولا ’’ بھا جی سوری‘میرا خیال ہے میں نے رانگ نمبر ڈائل کر دیا ہے‘‘۔

یہ صرف لطیفہ نہیں‘ یہ گہرا فلسفہ بھی ہے اور ہمارے حکمران اس فلسفے پر روز عمل کرتے ہیں‘ یہ روز کسی نہ کسی کی لاش سوئمنگ پول میں پھینکنے کا حکم دیتے ہیں اور آخر میں یہ جان کر کہ گھر میں کوئی سوئمنگ پول نہیں ’’ سوری رانگ نمبر‘‘ کہتے ہیں اور فون بند کر دیتے ہیں‘ ہماری پوری تاریخ اس سوری رانگ نمبر سے بھری پڑی ہے‘ آپ کس کس کی مثال لیں گے‘ خان لیاقت علی خان نے امریکا کو رام کرنے کے لیے روس کو پاکستان کا دشمن بنا دیا‘ سوری رانگ نمبر‘ ایوب خان نے اقتدار کے لیے جعلی الیکشن کروایا اور محترمہ فاطمہ جناح کو ہروا دیا‘ 1965ء کی جنگ چھیڑ دی اورتاشقند معاہدے کے ذریعے پوری قوم کو ڈی مورلائز کر دیا۔

سوری رانگ نمبر‘ یحییٰ خان نے پاکستان توڑ دیا‘ سوری رانگ نمبر‘ ذوالفقار علی بھٹو نے پرائیویٹ اداروں کو قومیا کر ملک کی معیشت کا بیڑا غرق کر دیا سوری رانگ نمبر‘ جنرل ضیاء الحق نے اپنے اقتدار کے لیے قوم کو روس افغان جنگ میں دھکیل دیا اور تحفے میں دہشت گردی‘ ہیروئن اور کلاشنکوف پائی سوری رانگ نمبر‘ بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف اقتدار کی جنگ میں اخلاقیات‘ جمہوریت اور سیاست کا بیڑا غرق کرتے رہے‘ سوری رانگ نمبر‘ جنرل پرویز مشرف نے پاکستان کو دہشت گردی کی جنگ میں جھونک دیا‘ نواب اکبر بگٹی کو قتل کر دیا‘ لال مسجد پر فوج چڑھا دی اور چیف جسٹس کو معزول کر دیا‘ سوری رانگ نمبر اور صدر آصف علی زرداری‘ یوسف رضا گیلانی اور راجہ پرویز اشرف نے بیڈ گورننس کے تمام ریکارڈ توڑ دیے۔

انھوں نے  کرپشن کو سیاسی مفاہمت کا حصہ بنا دیا‘ یہ کراچی کو نو ہزار لاشوں کا تحفہ دے گئے‘ ملک میں دہشت گردی کی وجہ سے 40 ہزار لوگ مارے گئے‘ ملکی معیشت کو 70 ارب ڈالر کا نقصان ہوا‘ این آئی سی ایل‘ حج کرپشن‘ ایفی ڈرین اور رینٹل پاور جیسے کرپشن کے بڑے اسکینڈل سامنے آئے‘ ملک کے تمام بڑے ادارے خواجہ عدنان اور توقیر صادق جیسے کرپٹ لوگوں کے حوالے کر دیے گئے اور یہ اربوں روپے لوٹ کر لے گئے‘ غیر ملکی سرمایہ کاری پست ترین سطح پر آ گئی‘ بجلی اور گیس بحران ناقابل حل ہو گیا‘ بے روزگاری‘ کساد بازاری‘ مہنگائی اور لاقانونیت انتہا کو چھونے لگے اور ریلوے‘ اسٹیل مل اور پی آئی اے سفید ہاتھی بن گئے مگر یہ بھی اب سوری رانگ نمبر کہہ کر الیکشن میں بیٹھ رہے ہیں اور انھیں توقع ہے عوام انھیں ایک بار پھر منتخب کر لیں گے۔

کیا اقتدار کے بھرپور پانچ برسوں کے بعد سوری رانگ نمبر کا اعلان کافی ہو گا؟ کیا حکومت میں رہنے والے وزیروں‘مشیروں اور ان کے مشیروں سے ان کے غلط منصوبوں کا حساب نہیں لینا چاہیے؟ آپ کے دور میں پی آئی اے کا خسارہ 34 ارب سے 154 ارب روپے ہوگیا‘ ریلوے کا خسارہ 16 ارب سے 34 ارب ہو  گیا اور528 میں سے388 انجن بند ہو گئے اورسو سے زائد ٹرینیں معطل ہو گئیں‘ اسٹیل مل ڈھائی ارب روپے منافع میں تھی‘ یہ آج 130ارب  خسارے میں ہے‘ ملکی معاشی نمو 6.81 فیصد تھی‘ یہ اب2.39 فیصد ہے‘ غیر ملکی سرمایہ کاری 5ارب ڈالر  تھی‘یہ اب 50 کروڑ ڈالر پر آچکی  ہے‘ ڈالر 60 روپے تھا آج سو روپے کا ہے‘ پاکستان کے قرضے چھ ہزارارب روپے تھے۔

یہ آج 13ہزار ارب روپے ہو چکے ہیں‘ آٹا 16 روپے کلو  تھا‘ آج 38 روپے ہے اور مہنگائی میں ڈیڑھ سو سے تین سو فیصد تک اضافہ ہوگیا‘ کیا کوئی ان سے اس کا حساب نہیں مانگ سکتا ‘ کیا سندھ کی حکومت سے کراچی کی ساڑھے آٹھ ہزار ہلاکتوں کا حساب نہیں لیا جا سکتا؟ کیا بلوچستان حکومت سے ساڑھے آٹھ سو ارب روپے کا حساب نہیں مانگا جا سکتا؟ کیا خیبر پختونخواہ کی حکومت کا دہشت گردی کے خلاف جنگ پر احتساب نہیں کیا جا سکتا اور کیا پنجاب حکومت سے یہ نہیں پوچھا جا سکتا آپ نے جوزف کالونی کے متاثرین کو 56 کروڑ روپے امداد دی‘ آپ اگر یہ رقم لاہور کی پولیس پر خرچ کرتے‘ آپ اگر ایسی پروٹیکشن پولیس بنا دیتے جو عوام کو اس قسم کے سانحوں سے بچاتی‘ کیا یہ بہتر نہیں تھا۔

کیا پنجاب حکومت سے تنور‘ سستے مکانات اور اجالا جیسے ناکام منصوبوں کا حساب نہیں مانگا جا سکتا؟ ہم لوگ اپنے ڈرائیور کا ایک ایکسیڈنٹ معاف نہیں کرتے‘ اسے دوبارہ گاڑی چلانے کا موقع نہیں دیتے لیکن ہمارے سیاسی نظام میں ناکام منصوبے چلانے اور ان میں قوم کے اربوں کھربوں روپے ضایع کرنے والے لوگ نہ صرف دوسری اور تیسری مرتبہ الیکشن لڑتے ہیں بلکہ یہ اگلی حکومت میں زیادہ بہتر عہدہ حاصل کر لیتے ہیں‘ حفیظ شیخ جنرل پرویز مشرف کی حکومت میں وزیر خزانہ رہے‘ یہ ناکام ہو ئے‘ انھیں فارغ کر دیا گیا مگر یہ اس حکومت میں وزیر خزانہ بھی بنے اور یہ اب نگران وزیراعظم بننے کی تیاری کر رہے ہیں‘ حنا ربانی کھر شوکت عزیز کی حکومت میں خزانے کی ناکام وزیر مملکت تھیں‘ یہ موجودہ دور میں وزیر خارجہ بن گئیں‘ آپ اس طرح سید قائم علی شاہ اور نواب اسلم رئیسانی کا ٹریک ریکارڈ دیکھ لیں۔

حاجی غلام احمد بلور کے دور میں ریلوے اور سید نوید قمر اور احمد مختار کے دور میں پی آئی اے کا کیا حشر ہوا ؟اور راجہ پرویز اشرف نے وزارت کے دور میں واپڈا کا کتنا حلیہ بگاڑ دیا؟ پرفارمنس کے تمام شاہکار زندہ ہیں مگر یہ لوگ 2013ء کے الیکشن بھی لڑیں گے اور شاید اگلی حکومت کا حصہ بھی ہوں‘ اگر نہ ہوئے تو بھی یہ قومی اسمبلی یا سینیٹ کے معزز ممبر ہوں گے‘ کیا بیڈ گورننس کی ریکارڈ توڑ کارکردگی کے بعد ان کی طرف سے صرف ’’ سوری رانگ نمبر‘‘ کہہ دینا کافی ہو گا‘ ہم لوگ انھیں جعلی ڈگری‘ ٹیکس گوشوارے جمع نہ کروانے‘ غیر ملکی دوروں اور دوہری شہریت پر آسانی سے پکڑ لیتے ہیں مگر ان کی اس بیڈ گورننس کا کوئی حساب نہیں لیتے جس کے ذریعے یہ خزانے کو اربوں کھربوں روپے کا نقصان پہنچا دیتے ہیں۔

شاید ہم سرکاری خزانے کو ادھار کی سائیکل سمجھتے ہیں ‘یہ اگر چوری ہو جائے توہمارے لیے ایک سوری کافی ہوتی ہے‘ ہم سے تو چین کے وہ قدیم باشندے اچھے تھے جو طبیب کو اس وقت تک فیس ادا نہیں کرتے تھے جب تک مریض صحت یاب نہیں ہو جاتا تھا اور اگر مریض کی حالت مزید بگڑ جاتی تھی تو ڈاکٹر مریض کے علاج کا سارا خرچ اٹھاتا تھا‘ چین کے لوگ ڈاکٹر تک کو ’’ سوری رانگ نمبر‘‘ کہنے کی اجازت نہیں دیتے تھے مگر ہم لوگ نہ صرف رینٹل کے راجائوں کو معاف کر دیتے ہیں بلکہ ہم انھیں سواری کے لیے دوسری‘ تیسری اور چوتھی بار اپنی کمر پیش کر دیتے ہیں اور یہ لوگ جب تک تھکتے نہیں یا پھر خاندان سے کوئی نیا راجہ تیار نہیں کر لیتے یہ ہم پر سوار رہتے ہیں‘ ہمیں اپنے صبر پر اپنے آپ کو مبارک باد پیش کرنی چاہیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔