پچاس سالہ ریاضت کا ضیاع

اقبال خورشید  پير 11 دسمبر 2017

صاحبو، سنتے ہو، پیپلزپارٹی پچاس برس کی ہوگئی۔

ڈھول پیٹو، جشن مناؤ، جوشیلے گیت گاؤ۔ ایک عظیم واقعہ رونما ہوا ہے۔ 67 میں جس پارٹی کی بنیاد ذوالفقار علی بھٹو نے رکھی تھی، اس کا 50 واں یوم تاسیس دسمبر 2017 میں آصف علی زرداری نے اسلام آباد میں منایا۔ کیسی کامیابی ہے۔ ایسے چند بزرگ، جو بھٹو کی پارٹی کا حصہ بنے تھے، ابھی زندہ ہیں۔ انھوں نے اپنے جیون میں یہ یوم تاسیس دیکھ لیا۔ ضرور جیون شانت ہوگیا ہوگا۔

اچھا، پیپلزپارٹی کی عمر پاکستانی جمہوریت سے زیادہ ہے۔ یہ جمہوریت کی ’’بڑی‘‘ ہے، اور اس سے زیادہ سخت جان ہے۔ تین بار پی پی کی حکومت کی بساط لپیٹی گئی، مگر اس نے مایوس ہونے کے بجائے اسی جمہوریت کو اپنا انتقام بنا لیا، اور اسی انتقام کے ذریعے مخالفین کی اینٹ سے اینٹ بجادی (تالیاں)۔ جو تین تین سال کے لیتے آتے ہیں، وہ آئے، آکر چلے گئے،  پیپلزپارٹی جمی رہی۔ یہاں تک کہ گیارہ برس تک اقتدار میں رہنے والے ضیا الحق، سوویت یونین کو نیست و نابود کرنے کا اہم ترین کارنامہ انجام دینے کے باوجود تاریخ کے پنوں پر پیپلزپارٹی سے شکست کھا گئے۔

یہ وہ پارٹی ہے، جو مخالفین کی شدید خواہش کے باوجود ’’اوور‘‘ نہیں ہورہی۔ یہ الگ بات ہے کہ جب یہ جمہوریت کو انتقام کا ذریعہ بناتی ہے، توکبھی کبھار شاید حادثاتی طور پر اس کے دائرے میں بے چارے عوام بھی آجاتے ہیں۔ مگر اس معاملے میں درگزر سے کام لیجیے، پچاس برس میں تھوڑی بہت غلطیاں تو ہو ہی جاتی ہیں۔ اور پھر عوام کا کیا ہے صاحب۔

پی پی پی نے ابتدا روٹی، کپڑا اور مکان کے نعرے سے کی تھی۔ نعرہ یہ اب بھی برقرار۔ ناقدین پوچھتے ہیں، چار بار اقتدار میں آنے کے باوجود بھی جو پارٹی یہ وعدہ پورا نہیں کرسکی، وہ پانچویں بار کیا تیر مار لے گی؟ یہ سوال ناقدین کے لیے لاکھ اہم ہوگا، جیالوں کے لیے بے معنی ہے۔ انھیں خبر ہے، آبادی مسلسل بڑھ رہی ہے، روٹی، کپڑا اور مکان کے ضرورت مندوں میں اضافہ ہورہا ہے، ادھر لاکھوں مسکین چینی بھی پاکستان آرہے ہیں، ان سب کے لیے یہ نعرہ ضروری۔

خیر، یہ تو جملہ معترضہ تھا، عرض یہ ہے کہ آصف زرداری نے اسلام آباد میں جو تقریر کی، وہ آب زر سے لکھنے کے قابل نہ بھی ہو، تب بھی سننے سے ضرور تعلق رکھتی تھی۔ فرمایا: ہم نے دو بار نواز شریف کی جمہوریت بچائی، اب نہیں بچائیں گے، بلکہ ان کے خلاف لڑیں گے، اور اپنی جمہوریت لائیں گے۔ زرداری کی اس اپنی جمہوریت سے سندھ اس وقت خوب مستفید ہورہا ہے۔ برائے مہربانی دودھ اور شہد کی نہریں تلاش کرنے کی کوشش نہ کریں، یہ صرف داستانوں میں ملتی ہیں۔

البتہ گزشتہ دس برس میں ادھرکوئی نہ کوئی انقلابی اقدام توضرور ہوا ہوگا۔ دس برس بڑا عرصہ ہوتا ہے حضور۔ اگر عام سندھی اس سے لاعلم ہے، تو یہ قابل فہم ہے کہ علم عام نہیں ہوا کرتا، وہ خواص تک محدود رہتا ہے۔ اسی مانند حقیقی ترقی بھی ننگی آنکھ سے دکھائی نہیں دیتی۔ لاڑکانہ، خیرپور، کراچی میں جو ’’ترقیاں‘‘ ہوئیں، انھیں دیکھنے کے لیے بصیرت درکار، اور اکثر پی پی مخالفین بصارت ہی سے محروم ہیں۔

زرداری نے خان کے ساتھ پرویز مشرف کو بھی آڑے ہاتھوں لیا۔ عمران خان تو خیر خود جواب دے سکتے ہیں، جلسہ سجا کر، شاہ محمود قریشی اور جہانگیر ترین کو دائیں بائیں بٹھا کر جواب دے سکتے ہیں۔ البتہ مشرف پر طنز مناسب نہیں کہ وہ اس سمے کڑی تنقید کا کرارا جواب دینے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔ ان کے لیے یہی صدمہ بہت کہ ق لیگ اور ایم کیو ایم بھی انھیں اپنا قائد ماننے کو راضی نہیں۔ اسی وجہ سے ان کی پاکستانی سیاست میں آنے کی تیاری ہر بار دھری کی دھری رہ جاتی ہے، اور کہانی کمر درد پر منتج ہوتی ہے۔

اگر زرداری، میاں صاحب کو بچانے میں دلچسپی نہیں رکھتے، تو اس میں حیرت کیسی جناب۔ انسان اسی چیز میں دلچسپی لیتا ہے، جو دلچسپ ہو۔ جی، میاں صاحب نے ’’مجھے کیوں نکالا‘‘ سے احتجاج کا جو سفر شروع کیا، وہ ’’تو تمھیں کیا ہے بھئی‘‘ جیسے غیر دلچسپ سوال سے مزید آگے بڑھتا دکھائی نہیں دیتا۔ ابھی دھرنے سے نہیں سنبھلے تھے کہ ماڈل ٹاؤن سانحے کی انکوائری رپورٹ پبلک کرنے کا حکم صادر ہوگیا۔

اس رپورٹ کے تجزیے آنے والے چند روز تک جاری رہیں گے، رانا ثنااللہ، جو اسے نقائص سے بھرپور قرار دے چکے ہیں، اسی میں سے اپنے دفاع کے نکات اٹھائیں گے، اور اسی اثناء میں وہ لمحہ آن پہنچے گا، جب ن لیگ کے وہ ارکان، جو اس نے ادھر ادھر سے پکڑے تھے، اللہ کا نام لے کر کشتی سے چھلانگ لگا دیں گے، اور کشتی ڈگمگانے لگے گی۔ کچھ قوتوں کی خواہش ہے کہ کشتی ڈگمگانے پر اکتفا نہ کرے، شرافت سے ڈوب جائے، مگر شریف برادران کے وسیع تجربے اور کاروبار کو دیکھتے ہوئے مکمل غرقابی امکانی نہیں لگتی۔ ہاں ’’ڈینٹ‘‘ ٹھیک ٹھاک پڑ سکتا ہے۔

ان حالات میں زرداری کا یہ کہنا کہ وہ اس بار نواز شریف کی حکومت کو نہیں بچائیں گے، منطقی ہے، اور اپنے اندر کوئی انکشاف نہیں رکھتا۔ جے آئی ٹی رپورٹ، جو ’’ہیرے جیسے افراد‘‘ کی کاوش تھی، کے منظر عام پر آنے سے قبل یوں لگتا تھا کہ آیندہ انتخابات میں بھی ن لیگ بازی مار لے گئی، اور مخالفین مچھر مارتے رہ جائیں گے، مگر دھیرے دھیرے بازی پلٹنے لگی۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ ن لیگ اس دلدل میں دھنستی جارہی ہے، جس کی تیاری میں کچھ کردار اس نے بھی ادا کیا۔

میموکیس میں میاں صاحب کا کالے کوٹ میں نظر آنا، افتخار چوہدری کی بحالی کے لیے عوام کے دلوں کو گرمانا، اور یوسف رضا گیلانی کو نااہل کروانا؛ پی پی حکومت کمزور کرنے کے لیے کئی یادگار اقدامات ن لیگ کے کریڈٹ پر ہیں۔ اس کے باوجود پیپلزپارٹی نے خان کے دھرنے کے موقع پر، حالانکہ اس وقت فقط ایک دھکے کی دیر تھی، ن لیگ کا ساتھ دیا۔ البتہ اب حالات مختلف ہیں۔ ہواؤں کا رخ بدل گیا ہے۔ دلدل میں پھنسا شخص زیادہ ہل جل کی وجہ سے مزید دھنستا جارہا ہے۔

ایک کمزور پارلیمنٹ جنم لینے کو ہے، اور ہر جماعت زیادہ سے زیادہ حصے کی خواہش مند ہے۔ زرداری نے یوم تاسیس میں جس ووٹ کے ذریعے تبدیلی کی بات کی، وہ ووٹ لگاتار ہونے والے تیسرے انتخابات میں اپنی حیثیت آزمانے باہر نکلے گا، مگر غالب امکان ہے کہ ووٹر اس بار بھی احساس کمتری سے باہر نہیں نکل سکے گا۔

گزشتہ پچاس برس میں پیپلزپارٹی نے کئی قربانیاں دیں۔ ذوالفقار علی بھٹو کا عدالتی قتل، بے نظیر بھٹو کی شہادت، مرتضیٰ بھٹو اورشاہ نواز بھٹو بھی حالات کے جبر کا شکار ہوئے۔ آصف علی زرداری سمیت بے شمار رہنما اورکارکنوں نے قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں، بہت سوں نے زندگی قربان کردی۔ مگر اس اکلوتی وفاقی جماعت کو آج تاریخ نے ایک ایسے موڑ پر لاکھڑا کیا ہے، جہاں اس کی قابل رشک ریاضت ضایع ہونے کا خدشہ پیدا ہوگیا ہے۔ اور خدشے کا سبب فقط پارٹی قیادت نہیں۔ شاید وہ نیک نیت اور مخلص ہو، مگر معروضی حالات، پاکستان کا جغرافیہ اور کمزور ادارے اس جانب اشارہ کر رہے ہیں کہ پی پی پی مستقبل میں ایک کمزور جمہوری سیٹ اپ کا حصہ بننے جارہی ہے۔ اور بظاہر اس کے پاس کوئی دوسرا راستہ نہیں۔ اگر ن لیگ اس کی جگہ ہوتی، تو شاید وہ بھی یہی راستہ اختیار کرتی، اور مڑ کر بھی نہ دیکھتی۔

تو صاحب، پیپلزپارٹی پچاس برس کی ہوگئی۔ آئیں دعا کریں کہ اس کی ریاضت ضایع نہ ہو، کیوں کہ اگر کسی سیاسی جماعت کی پچاس سالہ جدوجہد ضایع ہوجائے، تو زخم تاریخ کے سینے پر لگتا ہے، جو بھرنے میں پوری نصف صدی لیتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔