کرۂ ارض جنگ کے دہانے پر

ظہیر اختر بیدری  پير 11 دسمبر 2017
zaheer_akhter_beedri@yahoo.com

[email protected]

اپنے سر پر اشرف المخلوقات کا تاج سجانے والا انسان کس قدر حیوانیت کا مظاہرہ کر رہا ہے، اس کا اندازہ کرۂ ارض پر مختلف حوالوں سے بہائے جانے والے انسانی خون سے ہوسکتا ہے۔ کشمیر، فلسطین، عراق، شام، یمن، لیبیا سمیت افریقی ممالک پر نظر ڈالیں تو ہر طرف انسانی خون بہتا ہوا نظر آئے گا۔ اگرچہ وجوہات کا فرق ہے لیکن ہر وجہ کی تان انسانوں کے قتل پر ہی ٹوٹتی ہے۔

پہلی اور دوسری عالمی جنگوں میں بہنے والے خون نے دنیا کے بڑے حکمرانوں کو مجبور کیا کہ وہ کرۂ ارض پر بہائے جانے والے خون کی ارزانی کو روکنے کی کوشش کریں اور دنیا سے جنگی کلچر کا خاتمہ کرکے امن کلچر کو فروغ دیں۔ اس مقصد کے حصول کے لیے دنیا کے بڑوں نے اقوام متحدہ کے نام سے ایک ادارہ بنایا، جس کا مقصد دنیا میں جنگوں کو روکنا اور امن کو فروغ دینا ٹھہرا۔ لیکن اس ادارے کے قیام کے بعد کوریا، ویت نام، عراق، افغانستان وغیرہ میں جو جنگیں لڑی گئیں، ان کے عنوان تو الگ الگ تھے لیکن ان کا سب سے بڑا ہدف انسان ہی بنتا رہا۔

پچھلے ایک عشرے کے دوران امریکا، شمالی کوریا، چین، جاپان، بھارت، پاکستان، چین کے درمیان جنگوں کی فضا استوار ہوتی رہی اور ایٹمی ہتھیار کی تیاری آزادانہ طور پر ہوتی رہی ہے۔ ایٹمی ہتھیار بچوں کے کھلونے نہیں بلکہ وہ خطرناک ترین عفریت ہیں جن کی تباہ کاری کا ایک سرسری اندازہ دوسری عالمی جنگ کے دوران جاپان کے دو شہروں ہیروشیما اور ناگاساکی میں ہونے والے لاکھوں انسانوں کے قتل عام سے ہوسکتا ہے، جو امریکی ایٹم بموں کا نتیجہ تھا۔

1945ء میں ایٹم بموں کی تباہ کاریوں کے بعد امید کی جارہی تھی کہ شاید دنیا کا حکمران طبقہ ایٹمی ہتھیاروں کی تیاری سے گریز کرے گا اور اس حوالے سے اقوام متحدہ بھی بنائی گئی تھی لیکن جنگ پسند انسانوں نے نہ صرف ایٹمی ہتھیاروں کی تیاری جاری رکھی بلکہ آج یہ متحارب ملک ایک سے زیادہ ایک طاقتور ترین ایٹمی ہتھیار بنا رہے ہیں، بلکہ ان ہتھیاروں سے ایک سے دوسرے کو تباہ کرنے کی کھلی دھمکیاں دیتے نظر آرہے ہیں۔

ایران اور مغربی ملکوں کے درمیان ایٹمی ہتھیاروں کی تیاری کی ایرانی کوششوں کے حوالے سے کس قدر خطرناک صورتحال پیدا ہو رہی ہے اس کا اندازہ ایران کے پاسداران انقلاب کے نائب سربراہ بریگیڈیئر جنرل حسین سلامی کے اس انتباہ سے ہوسکتا ہے جو انھوں نے یورپ کو دیا ہے۔ جنرل حسین سلامی نے کہا ہے کہ اگر یورپ ایران کے لیے خطرہ بنا تو وہ اپنے میزائلوں کی رینج دو ہزار کلومیٹر سے بھی زیادہ کردیں گے۔ ایران تواتر کے ساتھ کہتا آرہا ہے اس کا میزائل پروگرام دفاعی نوعیت کا ہے۔

حسین سلامی نے کہا ہے کہ اگر ہم نے اپنے میزائلوں کی رینج دو ہزار کلومیٹر تک رکھی ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہمارے پاس ٹیکنالوجی نہیں ہے۔ ہم نے اب تک یہ سمجھا ہوا ہے کہ یورپ ہمارے لیے خطرہ نہیں ہے، سو ہم نے اپنے میزائلوں کی رینج میں اضافہ نہیں کیا، لیکن اگر یورپ ہمارے لیے خطرہ بنتا ہے تو ہم اپنے میزائلوں کی رینج اتنی بڑھا دیں گے کہ یورپ کا کوئی ملک ہمارے میزائلوں کی رینج سے باہر نہیں رہ سکے گا۔

شمالی کوریا کی سپریم پیپلز کونسل کے نائب سربراہ جونگ ہائیک نے کہا ہے کہ ہمارے ایٹمی ہتھیاروں اور میزائلوں کا رخ امریکا کی طرف ہے، دوسرے ملکوں کو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔ امریکی حکومت کے ذرایع نے کہا ہے کہ شمالی کوریا نے بیلسٹک میزائل فائر کیا ہے۔ جاپان کا کہنا ہے کہ میزائل کی فضا میں موجودگی کے دوران ہی امریکی صدر ٹرمپ کو اس میزائل تجربے سے آگاہ کردیا گیا تھا۔ امریکی ذرایع نے کہا ہے کہ ہم اس تجربے کا جائزہ لے رہے ہیں۔ جاپان کا کہنا ہے کہ شمالی کوریا کا میزائل 50 منٹ تک فضا میں رہا اور اس کے خصوصی اقتصادی زون میں گرگیا۔

ایک اور خبر میں بتایا گیا ہے کہ چین نے ہائپر سونک میزائل کا کامیاب تجربہ کیا ہے، یہ میزائل چین سے دنیا کے کسی بھی کونے تک مار کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ کہا گیا ہے کہ اس ہائپر سونک میزائل کو آیندہ سال چینی پیپلز لبریشن آرمی کے حوالے کیا جاسکتا ہے۔ غیر ملکی میڈیا کے مطابق چین نے میزائل ٹیکنالوجی میں دنیا بھر کی بڑی قوتوں کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ فوجی تیاریوں کے حوالے سے ان چند خبروں سے اندازہ ہوتا ہے کہ کرۂ ارض پر بسنے والی اشرف المخلوقات وحشت و بربریت کے کس پاتال کی طرف جا رہی ہے۔

سعودی عرب نے ایران کو وارننگ دی ہے کہ بہت ہوچکا مزید جارحیت برداشت نہیں کی جائے گی۔ اسرائیل کے آرمی چیف نے ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ ان کا ملک مشرق وسطیٰ کو کنٹرول کرنے کے ایرانی منصوبے کے خلاف سعودی عرب کے ساتھ تعاون کرنے کے لیے تیار ہے۔ اسرائیلی آرمی چیف نے کہا ہے کہ ہم ایران کے خلاف اعتدال پسند عرب ممالک اپنے تجربے اور انٹیلی جنس معلومات کے تبادلے کے لیے تیار ہیں۔

کہا جاتا ہے کہ چین ایک امن پسند ملک بن گیا ہے اور اس کی ساری توجہ اقتصادی ترقی کی طرف لگی ہوئی ہے۔ بلاشبہ چین کی توجہ اپنی اقتصادی ترقی کی طرف ہے، پاکستان کے ساتھ اس کا سی پیک معاہدہ اور چینی صدر کا ون بیلٹ ون روڈ کا وژن بھی عالمی برادری کی اجتماعی ترقی کا ضامن ہے، لیکن جب چین ہائپر سونک میزائل کا کامیاب تجربہ کرتا ہے جو دنیا کے کسی کونے تک مار کی صلاحیت رکھتا ہے، اس طرح چین دنیا بھر کی میزائل ٹیکنالوجی کے حوالے سے ساری دنیا کو پیچھے چھوڑ دیتا ہے تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ دنیا کے اس امن پسند اور اقتصادی ترقی پر اپنی توجہ مرکوز رکھنے والے ملک کو ہائپر سونک میزائل بنانے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟

ایران ایک مسلم ملک ہے، وہ اسرائیل کی فوجی قوت سے خوفزدہ ہے اور اس حوالے سے اپنا دفاع کرنے کے لیے ایٹمی ہتھیار بنانے کی کوشش کرتا رہا ہے۔ امریکا اور اس کے اتحادی مشرق وسطیٰ پر اپنا کنٹرول برقرار رکھنے کے لیے اسرائیل کو علاقے کی منی سپر پاور دیکھنا چاہتے ہیں۔ سعودی عرب بھی ایک مسلم ملک ہے لیکن ایران سے اس کے تعلقات انتہائی خراب ہیں۔ اسرائیل ایران کے خلاف سعودی عرب کی مدد کے لیے تیار ہے۔ شمالی کوریا اب ایک ایٹمی طاقت بن چکا ہے، اس کا کہنا ہے کہ اس کے میزائلوں کا رخ امریکا کی طرف ہے، دنیا کو شمالی کوریا کے ایٹمی میزائلوں سے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔

امریکا جنوبی کوریا کو شمالی کوریا کے سر پر سوار رکھنا چاہتا ہے، لیکن شمالی کوریا کے ایٹمی طاقت بننے کے بعد اب جنوبی کوریا شمالی کوریا پر حاوی نہیں رہ سکتا۔ یہ ہیں دنیا کے سیاستدانوں کے پیدا کردہ وہ تضادات جن کی وجہ سے کرۂ ارض ایٹمی ہتھیاروں پر کھڑا نظر آتا ہے۔ کیا دنیا کے سیاستدانوں کی ناک میں نکیل نہیں ڈالنی چاہیے؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔