پنجاب پولیس کی تاریخ خراب، حکومت چوکس ہوتی تو گھر نہ جلتے، سپریم کورٹ

فوٹو: فائل

فوٹو: فائل

اسلام آباد: سپریم کورٹ نے قرار دیا ہے کہ سانحہ بادامی باغ پر رپورٹ دوبارہ مسترد کرتے ہوئے عبوری حکم میں کہا کہ پنجاب حکومت واضح مؤقف اپنا کربتائے کہ آبادی کو پہلے کیوں بیدخل کیا گیا اور وہ شہریوں کے جان ومال کے تحفظ میں کیوں ناکام ہوئی۔

صوبائی حکومت چوکس ہوتی تو 2روز بعد لوگوں کے گھر نہ جلتے، دوسری جانب ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے بادامی باغ واقعہ میں ناکامی تسلیم کرلی تاہم عدالت نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہر ڈیڑھ منٹ بعد بیان بدلاجارہاہے، الٹی قلابازیاں لگائی جارہی ہیں، حکومت، آئی جی اور سی سی پی او کے بیان میں تضاد ہے۔ 18مارچ کو حتمی فیصلہ دیں گے‘ حکومت ختم ہونے پر چیف سیکرٹری جوابدہ ہونگے، چیف جسٹس کی سربراہی میں3رکنی بنچ نے ازخود نوٹس کی سماعت کی،صوبائی حکومت نے سانحہ گوجرہ2009اور بادامی باغ کی الگ الگ رپورٹس پیش کیں۔

ایڈووکیٹ جنرل اشتر اوصاف نے بتایا کہ گوجرہ سانحے کی رپورٹ عام کی جا چکی ہے اور پنجاب حکومت کی ویب سائٹ پر بھی دستیاب ہے جس میں وجوہات، سفارشات اور اقدامات کا ذکر ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ سانحہ گوجرہ کے بارے میں کمیشن کی رپورٹ پر عمل ہوتا اور اقدامات کئے جاتے تو حالیہ سانحہ پیش نہ آتا۔ رپورٹ خفیہ کیوں رکھی جا رہی ہے، واقعہ کی انکوائری جوڈیشل کمیشن نے کی مگر سفارشات عوامی ہوتی ہیں۔آئی این پی کے مطابق ایڈووکیٹ جنرل نے کہاکہ تحقیقات بند کمرے میں ہوئی۔

چیف جسٹس نے کہا کہ عام آدمی کو معلوم ہونا چاہئے واقعہ کی کیا وجوہات تھیں، جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ کیا طاق میں رکھنے کیلئے تھی؟ جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ پنجاب پولیس کی تاریخ ہی خراب ہے، شانتی نگر واقعہ کا کیا ہوا؟ ایڈووکیٹ جنرل کا کہنا تھاکہ جوڈیشل کمیشن نے پولیس آرڈر میں ترمیم کی سفارش کی جو وفاق نے کرنی ہے تاہم وزارت داخلہ اور پولیس میں اس پر اختلاف ہے۔ جسٹس عظمت سعید نے کہاکہ 18 ویں ترمیم کے بعد یہ کام صوبائی حکومت کا ہے، آئی این پی کے مطابق چیف جسٹس نے کہا کہ آپس کے جھگڑے میں کیا حکومت اتنی بے بس ہے کہ کمیشن کی رپورٹ پر عمل ہی نہ کر سکی۔

حکومت عوام کے جان ومال کے تحفظ میں ناکام کیوں ہوئی، اس پر ہمیں ایکشن لینا پڑا۔ آئی این پی اور ثنا نیوز کے مطابق انکا کہنا تھا کہ پنجاب حکومت کا ریکارڈ خراب چلا آرہا ہے، دنیا کو پیغام دیا گیا اقلیتیں مکمل شہری نہیں، فیصلہ کریں گے پنجاب حکومت ناکام ہوئی یا نہیں۔ نجی ٹی وی کے مطابق سپریم کورٹ نے کہا کہ حکومت چوکس ہوتی تو سانحے کو روکا جا سکتا تھا۔ لوگوں کی جان و مال کے تحفظ کی ذمہ داری پوری نہیں کی گئی۔ ایڈووکیٹ جنرل نے سانحہ گوجرہ سے متعلق کہا کہ ملزمان کا ٹرائل شروع ہوگیا تھا لیکن راضی نامے کے بعد معاملہ ختم ہوگیا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ مقدمے میں دہشتگردی کی دفعات تھیں، صلح نہیں ہوسکتی۔ واقعہ کے بعد ایس ایچ او اور ڈی ایس پی کو معطل کیا گیا۔ چھوٹے اہلکاروں کو قربانی کا بکرا نہ بنائیں۔ تفتیشی ایس ایس پی نے بتایا کہ ملزم نے بتاہا کہ وہ نشے میں تھا ، معلوم نہیں کیا کر گیا۔

ثناء نیوز کے مطابق چیف جسٹس نے کہا کہ یہ زمین کس کو چاہئے تھی، ایڈووکیٹ جنرل نے بتایا کہ زمین کسی کو نہیں چاہئے تھی، حکومت اس پر دوبارہ گھر تعمیر کر کے دے رہی ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ایسی بات نہ کریں زمین کسی کو چاہئے تھی ۔ یہ بڑے کھیل ہوتے ہیں، اس میں بڑے لوگ شامل ہوتے ہیں ۔ اشتراوصاف نے بتایا کہ مقدمہ کا مدعی عمران اور گواہان غائب ہیں اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ پھر آپکی کہانی کیا حیثیت رہ جاتی ہے ۔ جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ پولیس کو احساس ہونا چاہئے تھا کہ اب کیا ہونے والا ہے، چیف جسٹس نے کہا کہ بہتر یہ ہے کہ ملزم کی بجائے گواہوں کے بیانات قلمبند کئے جائیں ۔ آئی جی پولیس اگر 220 گھروں کی حفاظت نہیں کر سکتے تو انتخابات میں پورے صوبے کا کیا بنے گا؟ ہم کیسے لوگوں کی جان و مال سے کھیلنے کی اجازت دے دیں۔

ایسے واقعات کی آڑ میں کچھ اور مقاصد حاصل کیے جاتے ہیں، قانون پر عمل کرنے کی بجائے پولیس والے جوزف کالونی میں جا کر تقریریں کرتے رہے۔ ایڈووکیٹ جنرل نے بتایا سانحہ گوجرہ کے بعد صوبے بھر میں امن کمیٹیاں بنا دی گئیں، جسٹس عظمت سعید نے استفسار کیا لاہور کی ضلعی امن کمیٹی اور ڈی سی او اس وقت کیا کررہے تھے، پولیس نے مقدمہ درج کرنے کے سوا کیا کام کیا، حکومت چوکس رہتی تو دو روز بعد لوگوں کے گھر نہ جلتے، لگتا ہے امن کمیٹیوں کو متحرک کرنے میں بھی چھ مہینے لگیں گے۔ توہین رسالت کے مقدمے میں صلح نہیں ہوتی، صلح کا مطلب کیس جھوٹا تھا ۔ قائم مقام آئی جی نے کہا کہ معاملہ کے ذمہ دار ڈی آئی جی آپریشنز ہیں ،چیف جسٹس نے کہا کہ7مارچ کو واقعہ ہوا، اگلے دن نمازجمعہ میں اعلان کیا گیا، ڈی آئی جی انویسٹی گیشن چوہدری شفیق جائے وقوعہ پر گئے ہی نہیں تھے۔

قائم مقام آئی جی کا کہنا تھا کہ وقوعہ والے دن وہ ہائیکورٹ میں پیش ہوئے تھے ،چیف جسٹس نے کہا کہ ہفتہ والے دن ہائیکورٹ بند ہوتی ہے، جھوٹ نہ بولیں ، ایڈووکیٹ جنرل نے کہا کہ ایس ایچ او کو معطل کردیا گیا ،ہم ناکامی تسلیم کرتے ہیں لیکن یہ اختتام نہیں بہتری کے لیے کام کر رہے ہیں، عدالت نے اپنے مختصر حکم میں کہا کہ جوجوابات طلب کئے گئے ہیں، اس پر تفصیلی رپورٹ دی جائے، کوئی کوتاہی برداشت نہیں کی جائیگی،ایس ایچ اور ڈی ایس پی کو معطل کرنا کافی نہیں،آئی جی اور سی سی پی او ذمہ دارہیں، مکمل تحقیقات کی جائیں۔

آئی این پی کے مطابق ایڈووکیٹ جنرل نے اعتراف کیا پنجاب پولیس ناکام رہی، چیف جسٹس نے کہا صرف ایس ایچ او نہیں ایس ایس پی اور آئی جی کو معطل کرکے کارروائی کی جانی چاہیے تھی، حکومت انھیں سینے سے کیوں لگائی بیٹھی ہے۔ایس ایس پی انویسٹی گیشن نے کہا کہ علاقے کے دوگروپوں نے اپنی سیاست کیلئے لوگوں کو جمع کیا جن کے دباؤ پر ایف آئی آر درج ہوئی، ایک گروپ نے اپنی سیاست خراب ہوتے دیکھی تو آگ لگا دی۔ نجی ٹی وی کے مطابق انہوں نے بتایا کہ گروپوں کے سرغنہ طارق گجر اور عثمان بٹ بلوے میں نامزد ہیں، ایس ایچ او نے دباؤ کے تحت ایف آئی آر درج کی، این این آئی کے مطابق قائم مقام آئی جی نے واقعے کی ذمہ داری ڈی آئی جی پر ڈال دی، ایڈووکیٹ جنرل نے کہاکہ حکومت اپنی ناکامی تسلیم کرتی ہے اور بہتری کیلئے اقدامات کررہی ہے جس پرشیخ عظمت سعید برہم ہوئے اورکہا کہ ہر ڈیڑھ منٹ بعد بیان بدلا جارہا ہے، مزیدسماعت 18مارچ تک ملتوی کردی گئی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔