شمونے عسرے

جاوید چوہدری  منگل 12 دسمبر 2017
www.facebook.com/javed.chaudhry

www.facebook.com/javed.chaudhry

ہم صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے قبلہ اول کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے کی غلطی کی طرف بعد میں آئیں گے‘ ہم پہلے ماضی کی طرف جائیں گے۔

یہودیوں کی مقدس کتاب تلمود (کتاب ہدایات) کے مطابق دنیا کا یہ فیز چھ ہزار سال پر محیط ہے‘ یہودی سال ستمبر میں شروع ہوتا ہے‘ 2017ء کے 21 ستمبر کو یہودیوں کے کیلنڈر نے 5778 سال پورے کر لیے‘ یہودی عقیدے کے مطابق دنیا کے خاتمے میں اب صرف 222 سال باقی ہیں‘ یہ دنیا 222 سال بعد مکمل طور پر فنا ہو جائے گی‘ یہودیوں نے قیامت سے قبل دو اہم کام کرنے ہیں‘ تابوت سکینہ کی تلاش اور ہیکل سلیمانی کی تعمیر۔ یہ کہانی حضرت ابراہیم ؑ سے شروع ہوتی ہے‘ حضرت ابراہیم ؑ چالیس سال حضرت اسماعیل ؑ کے پاس مکہ مکرمہ میں رہائش پذیر رہے‘ آپؑ نے خانہ کعبہ تعمیر کیا اور آپؑ واپس فلسطین تشریف لے گئے۔

آپؑ نے وہاں اللہ تعالیٰ کا دوسرا گھر بیت المقدس تعمیر فرمایا‘ خانہ کعبہ اور بیت المقدس کی تعمیر کے درمیان چالیس سال کا فرق تھا‘ حضرت ابراہیم ؑ نے فلسطین میں انتقال فرمایا‘ آپ کا روضہ مبارک یوروشلم کے مضافات میں ہے‘ یہ علاقہ حضرت ابرہیم ؑ کی مناسبت سے ہیبرون یا الخلیل کہلاتا ہے‘ حضرت اسحاق  ؑ اور حضرت یعقوب ؑ کے مزارات بھی حضرت ابراہیم ؑ کے ساتھ موجود ہیں‘ بنی اسرائیل حضرت یعقوب ؑ کی اولاد ہیں‘ یہ لوگ قحط کا شکار ہوئے‘ مصر کی طرف نقل مکانی کی‘ فرعون کی غلامی میں گئے‘ سیکڑوں سال ذلت برداشت کی اور 33سو سال پہلے حضرت موسیٰ  ؑ کی معیت میں فلسطین واپس آئے‘ حضرت داؤد ؑ نے ہزار سال قبل مسیح میں یوروشلم فتح کیا اور اسے اپنی سلطنت ’’کنگڈم آف ڈیوڈ‘‘ کا دارالحکومت بنایا‘ حضرت داؤد ؑ نے بیت المقدس کی بنیادوں پر یہودیوں کا عظیم معبد تعمیر کرانا شروع کیا۔

آپ کے بعد حضرت سلیمان ؑ نے یہ تعمیر جاری رکھی‘ حضرت سلیمان ؑ کے پاس حضرت موسیٰ  ؑ کا ایک تابوت تھا‘ اس تابوت میں پتھر کی وہ دو تختیاں بھی تھیں جو اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ  ؑ پر کوہ طور پر اتاری تھیں‘ ان تختیوں پر اللہ کے دس احکامات درج تھے‘ تابوت میں حضرت ہارون ؑ کا عصاء اور وہ برتن بھی تھا جس سے من وسلویٰ نکلتا تھا‘ حضرت سلیمان ؑ نے یہ تابوت اس معبد کی بنیادوں میں چھپا دیا‘ آپؑ کے دور میں بڑے بڑے جادوگر بھی تھے‘ آپؑ نے اللہ تعالیٰ کے حکم پر ان تمام جادوگروں کو قتل کر دیا اور ان کے جادو کے نسخوں کو بھی  صندوقوں میں بند کر کے معبد کے نیچے غاروں میں چھپا دیا‘ یہودی حضرت سلیمان ؑ کے معبد کو ہیکل سلیمانی کہتے ہیں‘ یہ ہیکل 586 قبل مسیح میں بابل کے بادشاہ بخت نصر نے تباہ کر دیا تھا تاہم اس نے ہیکل سلیمانی کی بیرونی دیوار چھوڑ دی‘ یہودی اس دیوار کو کوتل جب کہ مسلمان دیوار گریہ کہتے ہیں۔

یہودیوں کا خیال ہے حضرت سلیمان ؑ نے تابوت سکینہ اور جادو کے نسخے بیت المقدس کے نیچے غاروں میں چھپائے تھے چنانچہ یہ لوگ تین ہزار سال سے بیت المقدس کے نیچے غار کھود رہے ہیں‘ یہ بیت المقدس کو گرا کر مستقبل میں ہیکل سلیمانی کو یہاں تک پھیلانا بھی چاہتے ہیں‘ کیوں؟ ہم اس کی طرف بھی بعد میں آئیں گے‘ ہم پہلے بیت المقدس میں مسلمانوں کی دلچسپی کا ذکر کریں گے‘ بیت المقدس 11 فروری 624ء تک مسلمانوں کاقبلہ اول تھا‘نبوت کے دسویں سال رجب کی ستائیسویں شب کو معراج کا واقعہ پیش آیا‘ اللہ تعالیٰ نبی اکرمؐ کو مکہ مکرمہ سے یوروشلم لے کر آیا‘ آپؐ نے قبلہ اول میں انبیاء کرام کی امامت فرمائی‘ آپؐ براق پر تشریف فرما ہوئے اور براق آپؐ کو اللہ تعالیٰ کے حضور لے گیا‘ آپؐ بیت المقدس کے صحن سے آسمان پر تشریف لے گئے تھے‘ آج بھی وہاں سات فٹ لمبی‘ چالیس فٹ چوڑی اور چھ فٹ اونچی چٹان موجود ہے۔

یہ چٹان آپؐ کے ساتھ اوپر اٹھ گئی تھی ‘حضرت جبرائیل ؑ نے اس پر ہاتھ رکھ کر اسے دوبارہ زمین سے جوڑ دیا تھا‘ چٹان پر حضرت جبرائیل ؑ کے ہاتھ کا نشان آج تک موجود ہے‘ اموی خلیفہ عبدالملک نے 691ء میں چٹان کے گرد سنہرے رنگ کی عمارت بنا دی‘ یہ عمارت عربی میں قبہ الصخرہ اور انگریزی میں ’’ڈوم آف دی راک‘‘ کہلاتی ہے‘ یہ مسلمانوں کے ہاتھوں عرب سے باہر پہلی عمارت تھی‘ یہ عمارت آج پوری دنیا میں یوروشلم کی پہچان ہے‘ یہ سنہری عمارت قبلہ اول نہیں‘ بیت المقدس سنہری عمارت سے ذرا سے فاصلے پر تہہ خانے میں ہے‘ آپ کو وہاں جانے کے لیے سیڑھیاں اترنا پڑتی ہیں‘ سلطان صلاح الدین ایوبی نے آج سے آٹھ سو سال قبل مسجد اقصیٰ کی توسیع کی‘ یہ توسیع اقصیٰ جدید کہلاتی ہے‘ یہودی اس سنہری عمارت اور اقصیٰ جدید کو بھی گرانا چاہتے ہیں‘ یہودیوں کا خیال ہے ہیکل سلیمانی بیت المقدس اور اقصیٰ جدید تک وسیع ہو گا۔

یہودیت‘ عیسائیت اور اسلامی عقائد کے مطابق قیامت سے قبل دجال کا ظہور ہو گا‘ یہودی دجال کو مسیحا (Mashiach) کہتے ہیں جب کہ عیسائی اسے اینٹی کرائسٹ کا نام دیتے ہیں‘ یہ ہیکل سلیمانی کی تعمیر کے بعد ظاہر ہو گا‘ پوری دنیا کے یہودی اسرائیل میں جمع ہوں گے‘ دجال اسرائیل کو ’’کنگڈم آف ڈیوڈ‘‘ ڈکلیئر کرے گا اور دنیا کو فتح کرنا شروع کر دے گا‘ یہ پوری عیسائی اور مسلمان دنیا کو تباہ وبرباد کر دے گا‘ یہ جنگ چالیس پچاس سال جاری رہے گی‘ دنیا ملبے کا ڈھیر بن جائے گی یہاں تک کہ دنیا کے قدیم ترین شہر دمشق میں حضرت امام مہدی کا ظہور ہو گا‘ فجر کی نماز سے قبل حضرت عیسیٰ  ؑ جامعہ امیہ کے سفید مینار سے اتریں گے‘ یہ حضرت امام مہدی کے پیچھے نماز ادا کریں گے اور یہ دونوں دجال کے خلاف صف آراء ہو جائیں گے‘ بڑی جنگ ہو گی‘ یہودی اس جنگ کو Armageddonکہتے ہیں۔

اسلامی عقائد کے مطابق مسلمان یہ جنگ جیت جائیں گے‘ فتوحات کے بعد اسلامی ریاست بنے گی‘ حضرت عیسیٰ  ؑ 45 سال کی زندگی گزار کر انتقال فرمائیں گے‘ یہ نبی اکرمؐ کے پہلو میں دفن ہوں گے‘ ان کے بعد حضرت مقعد کی حکومت آئے گی‘ حضرت مقعد کے انتقال کے 30 سال بعد اچانک سینوں سے قرآن مجید اٹھا لیا جائے گا جس کے بعد قیامت کے آثار شروع ہو جائیں گے جب کہ یہودی عقائد کے مطابق یہ جنگ دجال (Mashiach) جیت جائے گا جس کے بعد یوروشلم کے مضافات میں جبل الزیتون پھٹ کر دو حصوں میں تقسیم ہو جائے گی‘ یہ قیامت کی پہلی نشانی ہو گی‘ جبل الزیتون (ماؤنٹ آف اولیوز) یوروشلم کے مضافات میں ہے‘ یہودی اس پہاڑی پر دفن ہونااعزاز سمجھتے ہیں‘ یہودی دن میں تین بار اپنے سیناگوگا میں دجال کی آمد کی دعا کرتے ہیں‘ یہ دعا ’’شمونے عسرے‘‘ کہلاتی ہے‘ یوروشلم یہودیوں‘ عیسائیوں اور مسلمانوں تینوں مذاہب کے لیے مقدس ترین شہر ہے۔

یہ انبیاء کرام کا شہر ہے‘ مسلمان 13 سال بیت المقدس کی طرف منہ کرکے نماز ادا کرتے رہے‘ یہ شہر حضرت عمرفاروقؓ کے دور میں فتح ہوا اور یہ سیکڑوں سال مسلمانوں کے قبضے میں رہا‘ سنہری گنبد قبہ الصخرہ آج بھی مسلمانوں کی نشانی بن کر یہاں موجود ہے‘ یہ شہر قیامت کی اہم ترین نشانیوں میں بھی شامل ہے‘ وہ چٹان جو معراج کے وقت براق کے ساتھ اوپر اٹھ گئی تھی وہ مسلمانوں اور یہودیوں دونوں کے لیے مقدس ہے‘ یہودی اسے ماؤنٹ ماریحا (Mount Moriah) کہتے ہیں‘ یہودیوں کا خیال ہے یہ چٹان دنیا کا مقام آغاز تھا‘ حضرت ابراہیم ؑ نے قربانی کے لیے حضرت اسحاق  ؑ (یہودی عقیدے کے مطابق حضرت ابراہیم ؑ نے حضرت اسحاق  ؑ کو قربان کرنے کی کوشش کی تھی جب کہ ہم مسلمان حضرت اسماعیل ؑ کی قربانی پر ایمان رکھتے ہیں) کو بھی اسی چٹان پر لٹایا تھا‘ یہودی اگلے تیس برسوں میں بیت المقدس‘ اقصیٰ جدید اور سنہری عمارت یہ تینوں عمارتیں گرائیں گے‘ مسلمانوں کے ساتھ ان کا تصادم ہو گا‘ دجال کا ظہور ہوگا‘ عالمی جنگ شروع ہو گی‘ دجال احدکی پہاڑیوں تک پہنچ جائے گا‘ جبل الزیتون پھٹ کر دو حصوں میں تقسیم ہو گی اور پھر قیامت آ جائے گی‘ ہم مسلمان دجال تک یہودیوں سے متفق ہیں لیکن ہم آخر میں اسلام کے اور مسلمانوں کے غلبے پر ایمان رکھتے ہیں۔

ہم اب ڈونلڈ ٹرمپ کی حماقت کی طرف آتے ہیں‘ دنیا اس وقت دو خوفناک خطرات کے درمیان سانس لے رہی ہے‘ دنیا میں تباہ کن ہتھیاروں کی انبار لگے ہیں‘ کرہ ارض کے چاروں کونوں میں شدت پسندوں کی حکومتیں ہیں‘ پیوٹن جیسا شدت پسند روس میں موجود ہے‘ شمالی کوریا میں کم جونگ جیسا پاگل برسر اقتدار ہے‘ نریندر مودی جیسا شدت پسند بھارت کا وزیراعظم ہے‘ امریکا میں ڈونلڈ ٹرمپ کی حکومت آ چکی ہے‘ سعودی عرب میں شاہ سلیمان اور ولی عہد شیخ محمد نے پورے نظام کی مت مار دی ہے‘ ترکی میں طیب اردگان تباہی پھیلا رہے ہیں‘ ایران بھی میدان میں بس اترا ہی چاہتا ہے‘ عراق اور شام میں داعش پھیلتی چلی جا رہی ہے اور پاکستان کے حالات ہم سب کے سامنے ہیں‘ یہ پہلا خطرہ ہے‘ دوسرا خطرہ اسرائیل اور یہودی ہیں۔

یہ قیامت کی چاپ سن رہے ہیں‘ یہ روز دن میں تین مرتبہ ’’شمونے عسرے‘‘ کرتے ہیں‘ یہ اونچی آواز میں دجال کو آواز دے رہے ہیں چنانچہ بس یہ آواز سننے کی دیر ہے اور یہ دنیا چکی کے دو پاٹوں کے درمیان پس کر برابر ہو جائے گی‘ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 6دسمبر 2017 ء کو اچانک اپنا سفارت خانہ تل ابیب سے یوروشلم شفٹ کرنے کا اعلان کر کے پوری دنیا کو ہلا کر رکھ دیا‘ دنیا کو ٹرمپ کے پروانے میں اپنی تباہی صاف نظر آ رہی ہے‘ یہ اعلان جس دن پایہ تکمیل کو پہنچ گیا اس دن دنیا کی تباہی کا عمل شروع ہو جائے گا‘ ہم تیسری عالمی جنگ کا رزق بن جائیںگے چنانچہ میری آپ سے درخواست ہے آپ اللہ سے جتنی معافی مانگ سکتے ہیں آپ مانگ لیں‘ آپ سکھ کے جتنے سانس لے سکتے ہیں آپ لے لیں اور آپ اللہ تعالیٰ کا جتنا شکر ادا کر سکتے ہیں آپ کر لیں کیونکہ خطرے کی گھنٹی بج چکی ہے‘ اب بس ایک دھماکے کی دیر ہے اور دنیا میں اختتام کا آغاز ہو جائے گا‘ ہم اپنی آنکھوں سے اپنی دنیا کو خزاں کے پتوں کی طرح اڑتے دیکھیں گے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔