نان خطائی کی کہانی؛ تاریخ کی زبانی

 منگل 12 دسمبر 2017
ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ روایتی طور پر نان خطائی کھانے کا رواج ایک بار پھر سے بحال ہورہا ہے۔ فوٹو : فائل

ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ روایتی طور پر نان خطائی کھانے کا رواج ایک بار پھر سے بحال ہورہا ہے۔ فوٹو : فائل

خستہ نان خطائی برصغیر کی مقبول اور غذائیت سے بھر پور میٹھی سوغات ہے۔

یہ مغلیہ دور میں منظر عام پر آئی جبکہ کچھ مورخین کہتے ہیں کہ یہ چین سے برصغیر میں آئی ہے۔ نان کا لفظی مطلب روٹی ہے جبکہ لفظ خطائی چین کے پرانے نام، کا تائی یا کاتھے سے نکلا ہے۔ بعض تاریخ دانوں کا ماننا ہے کہ خطائی فارسی زبان کا لفظ ہے اور اس کا مطلب چھ (6) ہے، یعنی نان خطائی کی تیاری کے لیے چھ اجزاء استعمال ہوتے ہیں۔ ان میں آٹا، انڈے، چینی، مکھن یا گھی اور بادام شامل ہیں۔

تاہم اکثر مورخین کا ماننا ہے کہ گجرات کا ساحلی شہر سورت نان خطائی کی جائے پیدائش ہے۔ سولہویں  صدی کے اختتام پر مغلیہ دور میں ہالینڈ کے دو تاجروں نے برصغیر میں مصالحوں کی تجارت کے بدلے چیزیں بیچنا شروع کیں۔ اس کام کے لیے انہوں نے سورت شہر میں قیام کیا اور اپنے استعمال کی غرض سے روٹی کی تیاری کے لیے بیکری قائم کی۔

بعدازاں، جب یہ تاجر برصغیر سے جانے لگے تو انہوں نے بیکری اپنے ایک ملازم کے حوالے کردی جس کا نام دوتی والا تھا۔ دوتی والا نے تاجروں کے جانے کے بعد روٹی کی تیاری کا کام جاری رکھا اور یہ بیکری دوتی والا بیکری کے نام سے مشہور ہوگئی۔ وقت گزرنے کے ساتھ جب ہالینڈ کے مزید تاجر بھی برصغیر سے واپس جانے لگے تو اس روٹی کی فروخت میں کمی آنے لگی۔

کم طلب کی وجہ سے روٹی کی زائد مقدار خشک اور خستہ ہوجاتی تھی، اس لیے اس خشک و خستہ روٹی کو نچلے طبقات میں رعایتی قیمت پر فروخت کردیا جاتا تھا۔ مقامی افراد کو سستی، خشک اور خستہ روٹی کا ذائقہ پسند آگیا۔ جس پر دوتی والا نے روٹی کی شکل تبدیل کی اور اوون میں روٹی کے ٹکڑوں کو خشک کرنا شروع کیا۔اس طرح مالی مشکلات سے دوچار دوتی والا نے تخلیقی انداز سے ڈچ روٹی کو تیار کرکے نان خطائی کی صورت میں روایتی میٹھی سوغات تیار کرلی۔

یوں نان خطائی کی شہرت پورے برصغیر میں پھیل گئی۔ اسے خصوصی طور پر بمبئی کی مارکیٹوں میں پہنچایا گیا اور یہاں یہ چائے کے وقت کھانے کی مقبول میٹھی سوغات بن گئی۔ یہ روایتی نازک سوغات مغل بادشاہوں میں بھی کافی مقبول تھی اور مختلف مواقع پر شاہی خاندان کو نان خطائی تیار کرکے پیش کی جاتی تھی۔شاہی خاندان کے افراد خوشی کے ان لمحات کو نان خطائی کے ساتھ مناتے تھے۔

پاکستان میں نان خطائی کی تیاری کا آغاز لاہور شہر سے ہوا جو پاکستان میں ثقافتی ورثے اور مغل تاریخ کے مرکز کے طور پر مشہور ہے۔ اس روایتی سوغات سے لطف اندوز ہونے کے لیے دنیا بھر سے لوگ لاہور آتے ہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ مقامی سطح پر بھی لوگوں نے نان خطائی بنانے کی کوشش کی تاہم ہر ایک کو اس میں کامیابی نہیں ملی۔ موجودہ دور میں نان خطائی کی روایت کو دوبارہ زندہ کرنے کی کامیاب کوششیں سامنے آرہی ہیں اور نان خطائی کے قدیم روایتی معیار کو جدید تقاضوں کے مطابق بنا کر پیش کیا جا رہا ہے۔

ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ روایتی طور پر نان خطائی کھانے کا رواج ایک بار پھر سے بحال ہورہا ہے۔ خستہ نان خطائی اب دفاتر یا گھروں پر چائے پینے کے وقت باوقار انداز سے پیش کی جاتی ہے۔ اب پاکستان میں نان خطائی کو خستہ اور اس کی تازگی برقرار رکھنے کے لیے جدید سائنسی طریقوں کو بروئے کار لاتے ہوئے اس کے ذائقے کے معیار کو تادیر قائم رکھنے میں بھی کامیابی حاصل کر لی گئی۔ قومیں ہمیشہ اپنے تاریخی ورثے سے پہچانی جاتی ہیں اور اس تاریخی ورثے سے محبت اور لگائو ہی قوموں کو ترقی کے راستے پر آگے بڑھنے کی قوت فراہم کرتا ہے۔ ہمارے لیے یہ نہایت ضروری ہے کہ ہم ہر شعبے میں اپنے تاریخی وثے کو اہمیت دیں اور اس پر فخر کریں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔