سرورِ کون ومکاںﷺ کے سوا کوئی صادق اور امین نہیں !

ذوالفقار احمد چیمہ  بدھ 13 دسمبر 2017
zulfiqarcheema55@gmail.com

[email protected]

عرب، جو فصاحت میں اپنا ثانی نہ رکھتے تھے، غیرمعمولی افراد کو ان کے غیر معمولی اوصاف پر مختلف القاب سے نوازتے تھے، مگر وقت کا کوئی سردار بھی صادق اور امین کے لقب کا حقدار قرار نہ پایا۔ خالق و مالک کی اپنی رضا سے یہ لقب اُس ہستیؐ کو ملے جو دنیائے شرق و غرب میں انقلاب برپا کرنے والی تھی، یہ لَقب مکّہ کے باشندوں نے دیے جو اُسؐ کے شب وروز سے پوری طرح واقف تھے، مگر کیا خاتم النبیّنؐ کا کوئی لقب کسی اور کو دیا جاسکتاہے؟ہرگز نہیں۔ صادق اور امین کے لقب صرف ایک ہی ہستیؐ کے لیے مختص ہیں، پوری کائنات میں صادق اور امین کہلانے کی حقدار صرف وہی ایک ہستیؐ ہے، صادق بھی آپؐ ہیں اور امین بھی آپؐ ہیں۔

آقائےؐ دوجہاں کے بعد کسی کو بھی صادق اور امین نہیں کہا جاسکتا جو القاب آپؐ کے لیے مخصوص ہیں ان کا کوئی اور دعویدار ہو تو جھوٹ ہے یا مبالغہ۔آج کے دور میں آج کے انسانوں کو صادق اور امین کے معیار پر پرکھنا اور صداقت اور امانت کے ترازو پر تولنا سعئی لا حا صل ہی نہیں غلط اور نامناسب بھی ہے۔ پہلے بھی لکھ چکا ہوں کہ انتخابی امیدواروں سے ان کی جائیداد اور اثاثوں کی تفصیل مانگنے کا مقصد یہ تھا کہ اسمبلی کا ممبر بننے کے بعد اگر ان کے اثاثوں میں اضافہ ہوا ہے تو وہ اس کی وضاحت کرنے اور ذرایع آمدن بتانے کے پابند ہوں۔

لیکن اگر کوئی رکنِ پارلیمنٹ اپنی دو مرلے کی وراثتی جائیداد یا تیس ہزار کا بینک اکاؤنٹ سہواً لکھنا بھول گیا ہے تو موجودہ قانون کے مطابق اس کا الیکشن کالعدم قرار پائے گا اور اس کے بارے میں یہ کہنا شروع کردیا جائے گا کہ وہ صادق اور امین نہیں ہے۔ یہ قانون سراسر ناقص اور انصاف کے تقاضوں کے منافی ہے، ایک آدھ اثاثے کا اندراج نہ کرنے پر امیدوار کو جرمانہ کیا جاسکتا ہے مگر الیکشن ہی کالعدم قرار دے دینا ووٹروں کے ساتھ بھی زیادتی ہے۔ موجودہ قانون کے مطابق وہ ارکان جن کا کردار مشکوک اور دامن داغدار ہے مگر اثاثوں کے اندراج میں انھوں نے کوئی غلطی نہیں کی اور پکڑے نہیں گئے تو وہ صادق اور امین کہلائیں گے۔

یہ انتہائی غیر منطقی اور مضحکہ خیز بات ہے۔ پارلیمنٹ کے ارکان ہوں ، اعلیٰ عدلیہ کے جج صاحبان یا فوج کے سینئر جرنیل ان میں کوئی بھی صادق اور امین نہیں ہے۔کوئی ایک بھی صادق اور امین ہونے کا دعویٰ نہیں کرسکتا۔ اگر منصفین خود بھی صادق اور امین کہلانے کا حق اور دعویٰ نہ رکھتے ہوں تو کیا انھیں دوسروں کو صداقت اور امانت کے ترازو پر تولنے کا حق ہے ؟۔ قومی اسمبلی کے حلقہ 101سے منتخب ہونے والے باکردار اور درویش صفت رکنِ اسمبلی ڈیڑھ دو لاکھ کا کوئی اکاؤنٹ سہواً درج نہ کرنے پر رکنیت سے محروم کردیے گئے۔ چونکہ وہ بھی عدالتِ عالیہ کے جج رہ چکے تھے اور بڑے نیک نام جج ،اس لیے وہ اپنے پرانے کولیگز (عدالتِ عظمیٰ میں ان کے کئی کولیگز موجود تھے) کو یاد کرکے یہ شعر گنگنایا کرتے تھے:

؎ حدیث ہے کہ اصولاً گناہگار نہ ہوں
گناہگاروں پہ پتّھر سنبھالنے والے

وہ اپنی آنکھ کے شہتیر پر نظر رکھیں
ہماری آنکھوں کے کانٹے نکالنے والے

سیّدنا مسیح علیہ السّلام کے دور میں کسی زانیہ عورت کو لوگ پکڑ کر لے آئے اور انھوں نے اسے سنگسار کرنے کے لیے پتھّر اُٹھالیے۔حضرت عیسیٰ علیہ السّلام نے فرمایا ’’رُک جاؤ! اس پر پتھر مارنے کا حق وہ رکھتا ہے جسکا اپنا دامن صاف ہے‘‘ لوگوں کے ہاتھوں سے پتھر گر گئے اور مجمع منتشر ہوگیا۔

صورتِ حال یہ ہے کہ اسکرینوں کے پیچھے بیٹھے ہوئے تجزیہ کاروں کی آنکھوں کی پتلیاں گھومی ہوئی ہوتی ہیں ان کے منہ سے نکلتی ہوئی مشروبِ ممنوعہ کی بُومِیلوں دور بیٹھے ہوئے سامعین تک پہنچ رہی ہوتی ہے اور وہ دیدہ دلیری سے فتویٰ جاری فرمارہے ہوتے ہیں کہ فلاں صادق اور امین نہیں ہے، اس لیے وہ استعفیٰ دے دے۔ فلاں اب صادق اور امین نہیں رہا اس لیے فوراً عہدہ چھوڑ دے۔

قومیں مادرِ وطن کا دفاع کرنے والے بہادر بیٹوں کو نشانِ عزّت کے طور پر تمغے پیش کرتی ہیں اور ان تمغوں کا تقدّس مجروح نہیں ہونے دیتیں ۔ ملٹری کراس اور نشانِ حیدر کے القاب اور الفاظ کو گلیوں اور بازاروں میں بحث مباحثے کا حصّہ نہیں بنایا جاتا اور پھر وہ القاب جو آقائے ؐدوجہاں کو ملے ہوں وہ صرف اور صرف اُسی ہستیؐ کے لیے مخصوص ہوتے ہیں وہ کسی اور شخص سے منسوب نہیں کیے جاسکتے۔ اُن القاب کے تقدّس کا تقاضا ہے کہ انھیں متنازعہ نہ بنایا جائے انھیں نہ عدالتوں میں گھسیٹا جائے اور نہ ایوانوں اور میدانوں میں سیاسی جھگڑوں کا موضوع بنایا جائے۔

یہ دیکھ کر بڑا دکھ ہوتا ہے کہ دینِ حق سے بغض رکھنے والے اور لادینیت کے علمبردار صحافی اپنے مخالف سیاستدانوں پر گولہ باری کے لیے بڑے خشوع و خضوع سے صادق اور امین کی اصطلاحات استعمال کررہے ہوتے ہیں۔ انھیں کہا جائے کہ اسلام زندگی کے ہرشعبے میں راہنمائی فراہم کرتا ہے تو ایسے بِدک اُٹھتے ہیں جیسے کسی نے ان کی دم پر پاؤں رکھ دیا ہو۔اُن کا نظریّہ ہے کہ اسلام کو کاروبارِ مملکت سے بالکل علیحدہ رکھا جائے، یعنی ہمیں اپنی سیاسی اور معاشرتی زندگی میں اﷲ اور رسول اﷲ ؐ کے احکامات سے راہنمائی لینے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ ایک طرف دین سے اسقدر بُغض رکھتے ہیں اور دوسری جانب ہر وقت صادق اور امین کا راگ الاپتے ہیں ، کیونکہ اِسوقت اپنے سیاسی مخالفین پر تنقید کرنے اور انھیں نیچا دکھانے کے لیے سب سے موثّر ہتھیار صادق اور امین کے الفاظ ہی ہیں۔

چند ماہ پہلے تک مختلف پارٹیوں کے لبرل قسم کے لیڈر آرٹیکل باسٹھ اور تریسٹھ کا ذکر تک سننے کے روادار نہ تھے اور یہ کہہ کر نفرت کا اظہار کرتے تھے ’’یہ قانون مولوی ضیأالحق کا بنایا ہوا ہے ہم اسے تسلیم نہیں کرتے‘‘، لبرل اور سکیولر نظریات کے حامل جج صاحبان بھی اپنے فیصلوں میں آئین کے آرٹیکلز باسٹھ اور تریسٹھ کے خلاف اپنے تحفّظات کا اظہار کرچکے ہیں۔ حال ہی میں راقم کی کچھ جیّد اسکالرز سے ملاقات ہوئی تو انھیں بھی متفکّر پایا ، وہ بھی اس بات پر دل گرفتہ تھے کہ آقائے دو جہاں کے لیے مخصوص القاب۔۔گلیوں اور بازاروں میں سیاست بازی کا موضوع بنادیے گئے ہیں اور اسطرح ان القاب کا تقّدس پامال کیا جارہا ہے۔

حضورؐ سے محبت رکنے والے صاحبانِ فکر ودانش کا کہنا ہے کہ جب سیاسی پارٹیوں کے نمایندے کسی مخالف لیڈر کے بارے میں یہ کہتے ہیں کہ ’’فلاں سیاستدان اب صادق اور امین نہیں رہا‘‘ تو کیا وہ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ انتخابی گوشوارے جمع کرانے سے پہلے وہ صادق اور امین تھا اور یہ کہ باقی ممبران جن کے خلاف عدالت نے فیصلہ نہیں دیا وہ سب صادق اور امین ہیں۔ ایسا کہنا یا ایسا تاثر دینا صادق اور امین جیسے مقدّس القاب کی توہین ہے۔

کیا کوئی سیاسی لیڈر، کوئی جج اور کوئی جرنیل یہ دعویٰ کرسکتا ہے کہ اُس نے زندگی میں کبھی غلط بیانی نہیں کی، سرکاری فرائض کے لیے فراہم کردہ  کار اور فون کا سرکاری  اورمنصبی فرائض کے علاوہ کبھی استعمال نہیں کیا اور اپنے منصب کے تمام تقاضے پورے کیے ہیں،  ایسا دعویٰ نہ کوئی کرسکتا ہے اور نہ کوئی مان سکتا ہے۔ ہم سب گناہگار اور خطا کار انسان ہیں،کوئی بھی اس اہل نہیں کہ اسے اس منصب پر فائز کردیا جائے جس پر کائنات کے کامل ترین انسان فائز تھے۔ ملک تو کیا پوری دنیا میں کوئی ایک شخص بھی اس قابل نہیں کہ اسے اس لقب سے نوازا جائے جس پر صرف اور صرف ایک ہی ہستیؐ کا حق ہے کہ جو دانائے سبل بھی ہیں اور ختم ؐالرّسل بھی اور جسؐ نے ریت کے ذروّں کو آفتاب کا ہم منصب بنادیا۔ دنیا کا کوئی اور شخص نہ صادق ہوسکتا ہے نہ امین کہلانے کا حقدار ہوسکتا ہے اور نہ کسی کو زیب دیتا ہے کہ وہ اس کا دعویٰ کرے۔

محترم چیف جسٹس آف پاکستان سے گزارش ہے کہ وہ اس نازک مسئلے کا خود نوٹس لیتے ہوئے ڈائریکشن دیں کہ پارلیمنٹ آئینی ترمیم کے ذریعے متعلقہ آرٹیکلز میں سے صادق اور امین کے الفاظ نکال دے تاکہ ایوانوں اور میدانوں میں سرورِ کائناتﷺ سے منسوب القاب کا تقدّس مزید مجروح نہ ہو۔

نوٹ:برطانوی سفیر کی طرف سے لندن کے میئر صادق خان کے اعزاز میں منعقد کی گئی تقریب میں خارجہ اور داخلہ امور کے وزیر بھی تھے، بلاول بھٹو سمیت مختلف پارٹیوں کے راہنما بھی تھے، چند معروف صنعتکار، جرنیل اور صحافی بھی تھے اور کئی ملکوں کے سفیر بھی تھے۔ راقم ایک پرانے کولیگ سے مصروفِ گفتگو تھا اور وہاں سے جلدی نکلنے کی تیاری میں تھا کہ میزبان ہائی کمشنر نے میئر صادق خان کو تقریر کی دعوت دی۔

اسے دیکھ کر اس کے چھوٹے  قد کے بارے میں کئی لوگوں نے رائے زنی کی اور  پھر  راقم کے  کانوں میں  اس کی آواز  پڑی کہ “My opponents criticised my faith and my origin, but I am proud of both”   (میرے مخالفین میرے مذہب اور میرے پاکستان سے تعلق کو ہدفِ تنقید بناتے رہے مجھے ان دونوں پر فخر ہے) یہ بات سنکر مجھے چھوٹے قد کا خان بہت بڑا انسان لگا، بڑا قد آورلیڈر… جسے اپنے آپ پرپورا اعتماد ہے اور اپنے نظرئیے اور آبائی وطن پر فخرہے۔ اس نے تقریر ختم کی تو میں اسے ملنے کے لیے چل پڑا۔ دوسرے ملاقاتیوں کے برعکس میں نے ہیلو کے بجائے اَلسّلام علیکم کہا۔

اس نے بھی گرمجوشی سے وعلیکم السلام کہہ کر جواب دیا، میں نے کہا ’’ہم نے آپکی کامیابی کے لیے دعائیں کی تھیں‘‘ اس نے شکریہ ادا کیا۔  دنیا کے اہم ترین شہر کے میئر نے اپنی تقریر میں تین الفاظ کا بار بار ذکر کیا ’’London is open‘‘ میں وہاں سے یہ سوچتا ہوا باہر نکل آیا کہ کیا خود اعتمادی کے جذبوں سے سرشار یہ شخص پاکستان اور لندن کے درمیان پل کا کردار ادا کرسکتا ہے۔کیا یہ ٹرمپ کے فیصلے پر لندن کو پاکستانیوں کے جذبات و احساسات کے بارے میںSensitiseکرسکے گا؟۔ عالمِ اسلام کو بربادی اور انتشار کا سامنا ہے اس کی بقاء کا ایک ہی نسخہ ہے اختلاف کا کڑوا گھونٹ پی کر ایک دوسرے کا ہاتھ تھام لیں اور کندھے سے کندھا جوڑ لیں اور کروڑوں مسلمانوں کے جذبات روندنے والوں کا معاشی بائیکاٹ کردیں، ٹرمپ اور اس کے بددماغ ساتھیوں کے سارے بَل نکل جائیں گے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔