پشتونوں کا مقدمہ (دوسرا اور آخری حصہ)

سعد اللہ جان برق  بدھ 13 دسمبر 2017
barq@email.com

[email protected]

لیکن اس سلسلے میں کچھ اور بھی مقامات آہ و فغان ابھی باقی ہیں، کسی کو جب اغوا کرکے کسی معرز کے ہاں پہنچایا جاتا ہے تو وہ اسے آگے بڑے معزز کے ہاتھ بیچتا ہے، آگے اس سے بھی بڑا معزز مال خرید لیتا ہے۔

یوں جانور کی طرح بکتا ہوا شکار یا مال  اصل معزز تک پہنچ جاتا ہے اور وہ ساتھ تمام قیمتیں اور اخراجات لگا کر اور اوپر دینے والی رقوم کو جمع کرکے تاوان وصول کرتا ہے، اس میں پولٹیکل نظام کے ساتھ ساتھ رعیت علاقے کے کچھ خاص پولیس افسر اور معززین بھی شامل ہوتے ہیں جن کے ذریعے ’’ ڈیل ‘‘ ہوتی ہے۔اس قسم کے واقعے کو ہم مثال کے طور پر پیش کرتے ہیں ۔ ایک ڈاکٹر کو اغوا کیا گیا۔ ڈاکٹر کے رشتہ دار بھی ’’ رسوخ ‘‘ والے تھے، اس لیے شور شرابا زیادہ ہوگیا ۔

اغوا کاروں نے دس لاکھ روپے مانگے لیکن رشتہ دار اپنے اثر رسوخ میں کھوئے ہوئے تھے۔ اغوا کاروں یا ان کے سرپرست معزز نے جب دیکھا کہ معاملہ زور پکڑ رہا ہے تو اس نے ’’ مال ‘‘ ایک بڑے معزز کو بیس لاکھ میں فروخت کیا۔ اس نے بھی کچھ عرصہ رکھا لیکن مغوی کے لواحقین بھی اپنا زور دکھانے پر تلے ہوئے تھے۔ آخر اس نے بھی ’’ مال ‘‘ آگے کسی اور کو چالیس لاکھ میں فروخت کر دیا،یو ں ہوتے ہوتے جب بات آخری مرحلے میں پہنچی تو بڑے بڑے لوگوں کی مدد سے مغوی کو دو کروڑ روپے میں رہا کرایا گیا لیکن اس خبر کے ساتھ پولٹیکل اور پولیس حکام نے جان پر کھیل کر مغوی کو ایک آپریشن میں ’’ مفت ‘‘ بازیاب کیا لیکن ملزمان فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے۔

یہ واقعہ ہمیں ابتدائی درجے کے ایک معزز نے سنایا تھا جو سائیڈ بزنس میں تھا۔ سائیڈ بزنس  یہ ہے کہ کچھ لوگ جو سٹلیڈ ایریا میں یا علاقہ غیر یا پولیس میں ایسے ہوتے ہیں جن کو ابتدا میں اس لیے ہائر کیا جاتا ہے کہ مغوی کا پتہ لگایا جائے حالانکہ اسے پتہ ہوتا ہے کہ کہاں ہے لیکن وہ لواحقین سے کہتا ہے کہ تم ایسا کرو مجھے خرچہ دے دو،  میں تلاش میں فلاں فلاں مقام جاؤں گا ۔ خرچہ لے کر وہ آرام سے گھر میں سو جاتے ہیں،  تین چار روز کے بعد لواحقین کو بتاتے ہیں کہ فلاں ملک صاحب  کے پاس تھا لیکن رات ہی کو اسے فلاں کے حوالے کیا گیا۔ لواحقین اب اس دوسرے فلاں کے لیے درمیانے لوگ ڈھونڈتے ہیں۔ وہ بھی ’’ خرچہ ‘‘ لے کر آگے ایک اور جگہ بتاتا ہے۔

یوں یہ درمیانے لوگ بھی اچھے خاصے مرغن ہو جاتے ہیں۔یہ کہانیاں ہم نے آپ کو یونہی نہیں سنائی ہیں بلکہ یہ بات بتانے کے لیے سنائی ہیں کہ یہ سب کچھ صرف اور صرف ’’ آزاد قبائل‘‘ کے نام اور وجہ سے ہوتا ہے، اگر یہ نام نہاد  آزاد علاقہ نہ ہوتا تو یہ سارے جرائم ہر گز نہ ہوتے کیونکہ پھر تو افغانستان اور پاکستان کی سیدھی سرحد ہوتی، درمیان میں افریقہ کا یہ تاریک جنگل نہ ہوتا جس میں ہر کوئی کچھ نہ کچھ کرتا یا کراتا ہے بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ اکثر جرائم اسٹیٹلڈ ایریا میں ہوتے ہیں، مغوی بھی یہاں کسی کو ٹھٹری میں ہوتے ہیں، صرف ڈیل آزاد علاقے میں ہوتی ہے، اب تو بات یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ معمولی جرائم والے قاتل ڈاکو یا پیسے اڑانے والے نوسر باز اور جعلساز بھی’’ وہ علاقہ غیر چلا گیا ‘‘ کا نسخہ استعمال کرنے لگے ہیں ۔

پاکستان اور افغانستان کے تعلقات بگاڑنے میں بھی یہی علاقہ بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔ آزاد قبائل جو کسی بھی لحاظ سے آزاد نہیں بلکہ سٹلیڈ ایریا سے زیادہ مجبور اور غلام ہیں اور یہ سارا کھیل بلکہ جرائم کی انڈسٹری تقریباً پندرہ فیصد معززین ملک ، مشران  اور سیاسی لوگوں کی ہے تمام پچاسی فیصد قبائلی نان و نفقعہ کے لیے محتاج ہیں۔ نہ جانے کہاں کہاں مزدوری کے لیے جاتے ہیں اور وہاں اپنے بڑوں کے جرائم کی ناحق سزا پاتے ہیں اور یہیں مسٔلہ سارے پشتونوں کا ہے کہ مٹھی بھر جرائم پیشہ لوگوںکی وجہ سے بچارے اگر کہیں مزدوری کے لیے بھی جاتے ہیں تو شک کی نظر سے دیکھے جاتے ہیں بلکہ سزا پاتے ہیں۔

صرف یہ ہی نہیں بلکہ اس کے ساتھ تمام پشتون چاہیے اسٹیلڈ ایریا کے ہوں یا قبائلی  سب پر ایک ہی لیبل لگا ہوا ہے،  چور، مجرم ، ڈاکو اسمگلر ۔ حالانکہ ایسے لوگ پندرہ فیصد بھی نہیں ہیں جو محض اس نام نہاد آزاد علاقوں کے ’’ چند ‘‘ بڑے معززین کے زیر سایہ پل رہے ہیں، صرف یہی لوگ سیاسی پارٹیوں اور سرکاری مشینری کی آشیرواد سے ’’ آزاد ‘‘ ہیں، باقی صرف بھوکوں مرنے کے لیے آزاد ہیں۔ایسے میں جو لوگ اس قبائلی نام نہاد ’’ آزاد ‘‘ علاقے کو برقرار رکھنے پر تلے ہوئے ہیں، وہ ذرا سوچیں کہ کس مقام پر کھڑے ہیں ۔

کیا اس سے یہ نہیں سمجھا جائے گا بلکہ اب عوام اتنے نادان بھی نہیں ہیں جو سمجھتے نہ ہوں کہ ایسے لوگ قبائلی علاقے کو ’’ آزاد ‘‘ کیوں رکھنا چاہتے اور اسے قانون کی عملداری میں شامل ہونا کیوں پسند نہیں کرتے، صاف سی بات ہے کہ اگر وہ قبائلیوں کو انسانی حقوق نہیں دینا چاہتے تو صرف اس لیے کہ وہاں ان کی اپنی ’’ ہانڈیاں ‘‘ بھی چڑھی ہوئی ہیں بلکہ صاف صاف کیوں نہ کہیے کہ دہشت گردی جرائم اور ہمہ اقسام کی ناپسندیدہ سرگرمیوں کو برقرار رکھنا چاہتے ہیں کہ جتنی تاریکی رہے گی۔

وہ اپنا دھندہ ان معصوم مظلوم محروم و مجبور بلکہ باندھے ہوئے لوگوں کی آڑ میں جاری رکھ سکیں گے، ان کو اس سے کیا کہ کون مرتا ہے کون برباد ہوتا ہے، کون بدنام ہوتا ہے اور کون بیگناہ پوری دنیا میں ’’ مجرم ‘‘ کہلاتا ہے ان کو تو اپنے جائز ناجائز دھندوں کے لیے پناگاہ چاہیے اور اس سے اچھی پناہ گاہ اور کہاں ہوگی کہ جہاں عام انسان جکڑا ہوا ہے اور جرائم پیشہ سرکاری اہل کاروں کی مدد سے مکمل طور پر آزاد ہوتے ہیں، اگر ایک کروڑ آبادی کو انسانی حقوق دینا امریکی ایجنڈا ہے تو زندہ باد اور اگر انسانی حقوق سے محرومی کوئی بھی ایجنڈا ہے تو مردہ باد۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔