کاشتکاروں کی روزی

عبدالقادر حسن  بدھ 13 دسمبر 2017
Abdulqhasan@hotmail.com

[email protected]

حالات حاضرہ کا تجزیہ ہے کہ پاکستان کی بیشتر آبادی اس انتظار میں رہی ہے کہ اللہ کی رحمت کب برستی ہے اور ناموافق موسم کے جس عذاب سے زندگی گزر رہی ہے اس سے کب نجات ملتی ہے۔ جیسے ہی بارش کے چند قطرے آسمان سے ٹپکتے ہیں انسانوں کے ساتھ ساتھ حیوان بھی اپنے منہ آسمان کی جانب کرکے اپنی بے چین آواز میں اللہ کی رحمت کا شکر ادا کرتے ہیں۔

میرے قارئین یہ بات جانتے بلکہ برداشت کرتے ہیں کہ میں اکثر اوقات اپنے بارانی علاقے کا ہی رونا روتا رہتا ہوں، میرا یہ رونا بے سبب نہیں ہوتا بلکہ اس رونے سے دل کا غبار ہلکا ہوتا ہے اور کئی دفعہ تو یہ رونا اللہ کے ہاں قبولیت بھی پا جاتا ہے اور مشکلات کا حل نکل آتا ہے۔ مجھے خوب معلوم ہے کہ بارش کے نہ ہونے سے قحط کی صورتحال کیا کیا تباہیاں اور تماشے دکھاتی ہے، خدا کسی انسان کو ایسے تماشے دیکھنا نصیب نہ کرے۔

میرے بارانی علاقے سے آنے والی اطلاعات کے مطابق درخت ابھی تک سر سبز ہیں لیکن جاڑے کے اس شدید موسم میں کب تک اپنی شاخوں کو سر سبز رکھنے میں کامیاب رہتے ہیں اس بات کا پتہ تو آنے والا وقت ہی دے گا۔ ایک دن کی ہلکی پھلکی بارش سے ہی کسانوں کے چہروں پر رونق نظر آنا شروع ہو جاتی ہے کیونکہ ان کو یہ معلوم ہے کہ بارش کے قطرے ان کی فصلوں کے لیے زندگی کی نوید لے کر آتے ہیں۔ انسانی زندگی کی روانی میں پانی ایک ایسا جزو ہے جس کی قدر ہمیں تب ہی معلوم ہوتی ہے جب یہ نایاب یا کمیاب ہو۔ زندگی شہری ہو یا دیہاتی خدا کی مخلوق کے لیے پانی کی بوند زندگی ہے۔

یہاں لاہور میں بیٹھ کر گاؤں کے بارے میں معلومات کا تیز ترین ذریعہ موبائل فون ہے جس کے ذریعے فوری معلومات بلکہ اب تو تصاویر تک لمحوں میں پہنچ کر میرے جیسے پرانے وقتوں کے دیہاتی کو حیران ہی نہیں بلکہ پریشان کر دیتی ہیں، کہ اب میں لاہور میں بیٹھ کر اپنے گاؤں کا براہ راست نظارہ کر سکتا ہوں اور عینی شاہد بن جاتا ہوں، ان لوگوں کی زندگی کا جو  اپنی زندگی کی بقاء کی خاطر دن رات محنت بھی کرتے ہیں اور اللہ کی رضا میں راضی بھی رہتے ہیں۔ موسم کی نا مہربانی کی وجہ سے بارانی گندم کی کاشت نہیں ہو سکی، زمین کے اندر اتنی نمی موجود نہیں کہ وہ گندم کے دانوں کو نئی زندگی دے سکے اور وہ دوبارہ سے فصل کا روپ دھار سکیں۔

اس سے بھی بڑی آفت یہ ہے کہ جنگل میں مویشیوں کے لیے پانی نہیں ہے اور ان کے ساتھ جنگلوں کے پرندے بھی پیاس سے نڈھال ہیں ان میں پرواز کی بھی سکت نہیں رہی کہ وہ پانی کی چند بوندوں کے لیے کہیں اور نقل مکانی کر جائیں کیونکہ پرندے تالابوں سے تو پانی نہیں پیتے بلکہ صبح سورج نکلنے سے پہلے یہ اپنی خوبگاہوں سے باہر نکلتے ہیں اور گھاس وغیرہ کے پتوں پر سے شبنم کے قطرے چن چن کر پیتے ہیں اور اس طرح اپنی پیاس بجھاتے ہیں جب کہ دوسرے جانور تا لابوں کا رخ کرتے ہیں جو کہ طویل خشک سالی کی وجہ سے خشک ہو چکے ہیں۔ میرے پہاڑی علاقے کی تما م تر خوبصورتی اس کے بلند وبالا سر سبز پہاڑوں اور اس کی جھیلوں کی وجہ سے ہے مگر اس کی شادابی اور شگفتگی بارش کی مرہون منت ہے۔ کئی ماہ سے بارش کا ایک قطرہ نہیں گرا جس کی وجہ سے کئی ٹیوب ویل خشک ہو چکے ہیں اور زندگی مشکل سے مشکل تر ہوتی جارہی ہے۔

یہ قدرت کی نامہربانی ہے اس پر کسی کا زور نہیں لیکن ہمارے پاس اتنا پانی ضرور موجود ہے کہ اگر منصوبہ بندی کی جاتی تو اسے ریگستانی علاقوں تک مستقل بنیادوں پر ضرور پہنچانا ممکن بنایا جا سکتا۔ لیکن کوئی بھی حکومت اس کی جانب سیاست سے زیادہ توجہ دینے کو تیار نہیں۔ ہم ان خوبصورت علاقو ں کے بارے فلمیں بھی بناتے ہیں اور ان کے بارے میں دیو مالائی کہانیاں بھی سنائی جاتی ہیں لیکن ان دور افتادہ علاقے کے رہنے والے مظلوم باسیوں کے لیے پینے کے پانی کا انتظام بھی کرنے سے قاصر ہیں۔ ان علاقوں کا حسن تب تک ہی برقرار ہے جب تک یہاں پر اللہ کی رحمت بارش کی شکل میں برستی رہے اور جب بھی چند ماہ کی خشک سالی آجائے تو یہاں کے مکین اللہ کی رحمت کے حصول کے لیے اسی ذات کے سامنے سر بسجود ہو جاتے ہیں اور پھر برستی رحمت میں اس کا شکر ادا کرتے ہیں کیونکہ ان کی پریشانیوں کو کم کرنے کا سامان صرف اسی ذات کے پاس ہے جو دو جہانوں کا مالک ہے۔

اللہ تبار ک و تعالیٰ کی ذات کو تو اپنی مخلوق پر رحم آہی جاتا ہے اور وہ اپنی مخلوق کے لیے اپنی رحمت کے دروازے کھول دیتا ہے لیکن ہمارے زمینی حکمران اس بات کے بھی روادار نہیں ہیں۔ آئے روز کسانوں کی کسی نہ کسی تنظیم کی جانب سے مختلف اشتہارات اخبارات کی زینت بن رہے ہیں جن میں یہ بے بس کسان اپنے ساتھ حکومتی وعدوں کی بے وفائی کا رونا نظر آتے ہیں آج کل گنے کے کاشتکاروں کے لیے حکومت کی جانب سے مقرر کردہ خریداری نرخ اس فصل کے کاشتکاروں کو کسی بھی طرح قبول نہیں اور حالات اس نہج پر چلے گئے ہیں کہ شوگر ملوں نے گنے کی خریداری بند کر رکھی ہے، گنا کھیتوں میں کھڑا سوکھ رہا ہے اور کسان بے بسی کی تصویر بنے اپنی فصل کو اپنے سامنے برباد ہوتا دیکھ رہے ہیں۔ بعض کسانوں نے تو گنے کے کھیتوں کو آگ بھی لگا دی ہے۔

حکومتی ناانصافیوں اور غلط پالیسیوں کی وجہ سے فصل کی اصل لاگت کی واپسی بھی ناممکن ہو چکی ہے۔ صوبہ سندھ میں گنے کی فصل کی قیمت کچھ اور ہے جب کہ پنجاب میں کچھ اور ہے جس کی وجہ سے مل مالکان بھی تذبذب کا شکار ہو گئے ہیں کہ ان کو اپنی جنس چینی کی قیمت بھی گنے کی امدای قیمت کی مناسبت سے طے کرنی ہے اس لیے وہ بھی یہ مطالبہ کر رہے ہیں کہ یہ نرخ یکساں ہوں تا کہ کل کو چینی کی قیمت ملک بھر میں یکساں ہو۔ حکومت کے ارباب اختیار کو اس طرف فوری توجہ کی ضرورت ہے تا کہ ملک بھر کے کاشتکاروں کو اپنی گنے کی فصل کی یکساں قیمت مل سکے اور کاشتکار مزید نقصان سے بچنے کے لیے اپنی محنتوں کو اپنے ہاتھوں آگ لگانے پر مجبور نہ ہوں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔