دھرنے ہمیں کہاں لے جائیں گے؟

علی احمد ڈھلوں  بدھ 13 دسمبر 2017
ali.dhillon@ymail.com

[email protected]

سنا ہے آنے والے چند ماہ ملکی سیاست پر خاصے بھاری گزرنے والے ہیں۔ دھرنے والے اپنا رخت سفر باندھ رہے ہیں۔ جماعت اسلامی فاٹا اصلاحات میں تاخیر کے خلاف باب خیبر سے ہوتے ہوئے لانگ مارچ کی شکل میں اسلام آباد پہنچ چکے ہیںجو پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے دھرنا دیں گے۔ پاکستان عوامی تحریک کے قائد ڈاکٹر طاہر القادری کے کنٹینر کی صفائی بھی شروع ہوگئی ہے۔

یہ بھی سنائی دے رہا ہے کہ مولانا فضل الرحمن کے پی کے حکومت کے خلاف دھرنا دینے کی منصوبہ بندی کو حتمی شکل دے رہے ہیں، اگر مولانا نے ایسا کر دیا تو یقیناً وہ پچھلے تمام دھرنوں کے ریکارڈ توڑنے کی اہلیت رکھتے ہیں کیونکہ اُن کے پیروکار اور شاگردوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے اور وہ بھی پورا ملک منٹوں میں بند کرانے کی ’’اہلیت‘‘ رکھتے ہیں اور ویسے بھی اب تو عوام سہم سے گئے ہیں کہ اس ملک میں جو کچھ بھی ہو رہا ہے وہ اچھا نہیں ہو رہا۔ اندر کھاتے ڈیلیں ہو رہی ہیں۔ ’’اندرونی قوتیں‘‘ چند عناصر کو اگلی حکومت میں ’’حصہ‘‘ دینے کی غرض سے اُن سے مرضی کے کام کرا رہی ہیں۔ ملک اور عوام کا ستیا ناس کیا جا رہا ہے ، سب سوچی سمجھی سازشوں کا نتیجہ ہے۔ روپے کی قدر ریکارڈ کم ہورہی ہے۔

راقم نے گزشتہ ماہ کے اپنے کالم میں ’’انکشاف‘‘ کیا تھا کہ آئی ایم ایف کے دباؤ کی وجہ سے مارچ اپریل تک ڈالر 120روپے تک ہو جائے گا۔ اس کے آثار تو عوام کو نظر آہی رہے ہوں گے کہ دو دن میں ڈالر 106سے 110روپے کا ہوگیا ہے۔ یعنی ہر طرف کنفیوژن ہے۔کچھ سمجھ نہیں آرہا کہ کیا ہورہا ہے،ایسے مناظر دیکھنے کو اور ایسے جملے سننے کو مل رہے ہیں کہ نہ آنکھوں کو یقین آتا ہے اور نہ سماعت اسے قبول کرنے کو تیار ہے۔ متحدہ مجلس عمل ’’تشکیل‘‘ دی جا رہی ہے۔ نئے الائنس ترتیب دیے جا رہے ہیں۔ مخصوص قوتیں ملک میں افرا تفری پھیلا کر مخصوص مقاصد حاصل کرنا چاہتی ہیں۔

اور ویسے بھی یہ دھرنا سیاست جس کا ٹرینڈ ایک مرتبہ پھر سر اُٹھا رہا ہے، یہ آج کا نہیں بلکہ اٹھارویں صدی میں جب مغل سلطنت کا زوال ہوا اور افراتفری پھیلی تو اس زمانے میں مہاراجہ، سردار، فوجی جنرل اپنے فوجیوں کو ماہانہ کی بنیاد پرتنخواہ نہیں دیتے تھے، جب تنخواہوں کی مد میں ان کے بقایا جات بڑھ جاتے تو یہ فوجی اپنے جنرل،سردار یا مہاراجہ کے گھر کا گھیراؤ کرلیتے اور کھانے پینے کی اشیا سمیت کوئی بھی چیز اندرنہیں جانے دیتے تھے تاہم اس گھیراؤ کی ایک خاص بات یہ ہوتی تھی کہ گھیراؤ کے دوران یہ خود بھی کچھ نہیں کھایا کرتے تھے ۔ پاکستان بننے کے بعد مشرقی پاکستان میں مولانا بھاشانی اور دوسرے رہنماؤں نے بھی گھیراؤ کا طریقہ استعمال کیا ،جس سے اس کا سیاسی استعمال شروع ہوا۔ انتظامیہ اور ان سیاستدانوں کا گھیراؤ ہونے لگاجن کو ذمے دار سمجھا جاتا تھا۔گھیراؤ کا طریقہ مغربی پاکستان میں بھی استعمال ہوا لیکن اس کا عام آدمی سے تعلق نہیں ہوتا تھا یعنی عام آدمی کو ا س سے کوئی تکلیف نہیں ہوتی تھی۔

لیکن اب نئے دھرنوں کی شنید سنائی جا رہی ہے تو عوام سہمے ہوئے ہیں، کنٹینر کے نکلنے سے لے کر واپسی تک پاکستان کس قدر مشکل میں رہے گا، اس کا خیال نہ تو ان گنوار حکمرانوں کو ہے اور نہ ہی دوسری سیاسی پارٹیاں سمجھ بوجھ سے کام لے رہی ہیں۔ طاہر القادری سے ملنے والے سیاسی اور مذہبی رہنماوں کی لائن لگی ہوئی ہے، ہر کوئی ’’لبیک‘‘ کہتا ہوا اپنی حاضری لگوانے کے لیے دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوشش میں ہے۔

جس کے فوری پہنچنے میں ذرا ’’انا‘‘ آڑے آ رہی ہے۔ وہ ٹیلی فون پر قدم بڑھاؤ ہم تمہارے ساتھ ہیں،کی یقین دہانیاں کرا رہا ہے۔ کوئی یہ جتا کر اپنا بھرم رکھنے کی کوشش کر رہا ہے کہ انھیں ملاقات کرنے کی دعوت علامہ صاحب نے خود دی ہے۔چلیں ان سب باتوں سے اتفاق کر لیتے ہیں، لیکن یہ سب جماعتیں اُس وقت کہاں تھیں جب حکومت جسٹس باقر نجفی کی رپورٹ کو دبائے بیٹھی تھی۔ یہ سب جماعتیں اُس وقت کہاں تھیں، جب قادری صاحب اسلام آباد میں دھرنا دیے بیٹھے تھے، یہ سب جماعتیں اُس وقت کہاں تھیں جب سانحہ ماڈل ٹاؤن کے ورثاء پر مقدمات درج کرکے انھیں تشدد کا نشانہ بنایا جا رہا تھا، اگر سانحہ ماڈل ٹاؤن کے متاثرین کو انصاف دلانا مقصود ہوتا تو یہ سیاسی اختلافات کی صورت حال نہ ہوتی ، جس طرح آج اس ایک نکتے پر سیاسی اتحاد بنانے کی باتیں ہو رہی ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی سیاسی اتحاد بنتا ہے تو اس کا ایجنڈا کچھ اور ہے۔

اگر سانحہ ماڈل ٹاؤن کے متاثرین کو انصاف دلانا مقصود ہوتا تو حالیہ دھرنے میں بھی 27،  28بندے جاں بحق ہو گئے ہیں انھیں بھی انصاف دلایا جاتا۔ ریاست کے ساتھ کھلواڑ کیا گیا، کروڑوں روپے کی املاک کو نقصان پہنچایا گیا ، اگر ریاست ماں ہے تو ماں بھی انصاف کی طلب گار ہے۔تین دن پورا ملک جام رہا ، ریاست ہاتھ ملتی رہ گئی ؟مگر سب نے بات آئی گئی کر دی۔ بات دھرنوں سے شروع ہوئی تھی تو کیا آیندہ جو لوگ الیکشن نہ جیت سکے وہ’’دھرنا سیاست‘‘ کیا کریں گے؟اور مسائل کو سلجھانے کے بجائے مزید اُلجھاؤ میں ڈال کر ریاست کو ناکام کرنے کی کوشش کریں گے۔ آصف علی زرداری کو کہ سانحہ ماڈل ٹاون کے شہداء پر آنسو بہانے والی پیپلز پارٹی کے حکومت میں بلدیہ ٹاون کراچی جیسا اندوہناک ظلم برپا کیا گیاجس میں ڈھائی سو معصوم اور غریب انسانوں کو زندہ جلا دیا گیا تب انھیں انصاف دینے کے لیے سڑکوں پرکیوں نہیں نکلا گیا۔

عوام اتنے بھولے نہیں ہیں کہ سمجھ نہ پائیں کہ یہ سب کچھ عوام کے لیے نہیں بلکہ ’’سیاسی سیزن‘‘ کی وجہ سے ہو رہا ہے۔ ہم نے بھی پاکستان کی عملی سیاست میں بھرپور حصہ لیا ہے اور یہ سیکھا ہے کہ سیاسی اتحاد کسی بڑے مقصد یا کسی بڑے ایجنڈے کے لیے ہوتے ہیں۔الیکشن کے دنوں میں یہ اتحاد محض اتفاق نہیں ہوا کرتے بلکہ سانحہ ماڈل ٹاؤن جیسے واقعات ’’پل‘‘ کا کردار ادا کیا کرتے ہیں۔

قارئین کو یاد ہو گا کہ جناب آصف زرداری نے تو خود بھی فرمایا تھا کہ ہم چار سال خاموش رہیں گے اور آخری سال سیاست کریں گے ۔ یعنی سیزن کے آتے ہی ہر طرف دھرنے شروع ہوگئے ہیں، لیکن درخواست ہے کہ اس سیاست کے لیے پیپلزپارٹی کی پچاس سالہ تاریخ کو گرہن نہ لگائیں اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ اگر مجوزہ سیاسی اتحاد مارچ سے قبل مسلم لیگ (ن) کی حکومت کو گرانے میں کامیاب ہو جاتا ہے تو یہ تبدیلی ایسی ہو گی ، جس سے نہ تو عوام کے مسائل حل ہوں گے اور نہ ہی پاکستان کو کوئی فائدہ ہو گا۔ یہ مجوزہ اتحاد بھی وقتی نوعیت کا ہو گا اور یہ صرف’’ اسٹیٹس کو‘‘ قائم رکھنا چاہے گا۔

اور رہی بات اقتدار کی تو پھر اس دھرنے کے بعد یہ پیش گوئی کی جارہی ہے کہ اب شہباز شریف کی باری ہے، اقتدار کاگھوڑا بڑا بدمست ہے۔زیادہ دیر اپنے اوپر کسی کو نہیں بیٹھنے دیتا ۔کبھی بھٹو کی باری آئی تھی اور پھانسی پر لٹکا دیا گیا تھا۔پھر جنرل ضیا الحق کی باری آئی تھی اور وہ فضائی حادثے کا شکار ہو گیا تھا۔پھر بے نظیر بھٹو اور نواز شریف کی باریاں آئیں پھرجنرل پرویز مشرف کی باری آگئی تھی اور زرداری آ گیا تھا، پھر زرداری کی باری آئی اور نواز شریف آ گیا،پھر اس کی باری آ گئی۔اب اس کے بعد کس کی باری آنی ہے، یہ تو وقت ہی بتائے گا مگر اس اشرافیہ کے ہوتے ہوئے عوام کی باری ہم جیتے جی نہیں دیکھ سکیں گے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔