آزادی اور انقلاب کا شاعر استاد دامن

سردار قریشی  بدھ 13 دسمبر 2017

دسمبر کا مہینہ جہاں ایک اور سال گزر جانے کا احساس دلاتا ہے وہیں پنجابی کے انقلابی شاعر استاد دامن کی سالگرہ اور برسی بھی اس کے پہلے ہفتے میں، صرف ایک دن کے فرق سے منائی جاتی ہیں۔ اتوار 3 دسمبر کو استاد دامن کو ہم سے بچھڑے 33 سال ہوگئے۔

یہ سانحہ 1984ء میں پیش آیا تھا، جب کہ دو سال بعد 2019ء میں ہم ان کی صد سالہ سالگرہ منائیں گے۔ ’ایکسپریس ٹریبیون‘ میں شایع شدہ عدنان لودھی کی تحقیق کے مطابق وہ 4 دسمبر 1919ء کو پیدا ہوئے تھے، جب کہ انسائیکلوپیڈیا، وکی پیڈیا ان کی تاریخ پیدائش 4 ستمبر 1911ء بتاتا ہے۔ ان کی وجہ شہرت پنجابی شاعر، لکھاری اور صوفی ہونا تھی۔ 1947ء میں برطانوی ہند کی تقسیم کے وقت ان کی مقبولیت عروج پر تھی، جب ان کا یہ شعر زبان زد عام و خاص تھا: ’’اے دنیا منڈی پیسے دی، ہر چیز وکیندی بھا سجناں، اِتھے روندے چہرے وکدے نئیں، ہنسنے دی عادت پا سجناں‘‘۔ ہر طرف استاد دامن کے نام اور کام کی دھوم مچی ہوئی تھی، پنجاب کے دارالحکومت لاہور کو صرف ان کی جنم بھومی ہونے کا اعزاز ہی حاصل نہیں، وہ اسی شہر میں مشہور صوفی بزرگ مادھو لعل حسین کے مزار کے سایہ میں آسودہ خاک بھی ہیں۔

استاد دامن فوجی آمروں کے سخت خلاف تھے جنھوں نے کئی عشروں تک پاکستان پر راج کیا، ان کے اشعار ’’پاکستان دیاں موجاں ای موجاں، چارے پاسے فوجاں ای فوجاں‘‘ اور ’’جدھر ویکھو سگریٹ پان، زندہ باد میرا پاکستان، جدھر ویکھو کلچے نان، زندہ باد میرا پاکستان‘‘ اس دور کی یاد دلاتے ہیں۔ دراصل وہ برطانوی ہند سے آزادی کی جدوجہد کا حصہ تھے، 1930ء میں انھوں نے پاکستان ٹائمز کے مالک میاں افتخار الدین کا ایک سوٹ سیا تھا، دونوں کی ملاقات استاد دامن کی دکان پر ہوئی تھی، میاں صاحب ان کی شاعری سے اس قدر متاثر ہوئے کہ انھیں انڈین نیشنل کانگریس کے جلسے میں شرکت کی دعوت دے ڈالی، جلسے میں پنڈت جواہر لعل نہرو بھی موجود تھے، استاد دامن نے اپنے اشعار کیا سنائے، جلسے پر گویا چھا گئے۔

وہ صوفیانہ سوچ کے حامل انقلابی تھے، نہرو نے انھیں نہ صرف شاعر آزادی کا خطاب دیا جس کے وہ بجا طور پر مستحق تھے، بلکہ خود ان کی شاعری کا کسی حد تک ترجمہ بھی کیا۔ استاد دامن کی شاعری کے منتخب حصوں کا مجموعہ ’’دامن دے موتی‘‘ کتابی صورت میں تحقیق کرنے والوں کی رہنمائی کرتا اور استاد دامن کے مداحوں کو ان کی یاد دلاتا ہے۔ لیکن صرف شاعری ہی استاد دامن کی پہچان نہیں تھی، انھوں نے بطور گلوکار کئی پنجابی گیت بھی گائے، جو بیحد پسند کیے گئے۔ ان کے گائے ہوئے گیتوں کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے بھی کیا جاسکتا ہے کہ ملکہ ترنم نورجہاں جیسی بڑی اور مشہور گلوکارہ نے بھی ان کی آواز میں آواز ملانے اور ان گیتوں کو انھی کی طرز پہ گانے کو اپنے لیے باعث افتخار سمجھا۔

استاد دامن کے ان سدا بہار فلمی گیتوں میں ’’چنگا بنایا اے سانوں کھڈونا‘‘، ’’بچ جا منڈیا موڑ توں‘‘، ’’میں صدقے تیری ٹور توں‘‘، ’’ناں میں سونے جئی، ناں چاندی جئی، میں پیتل بھری پرات، مینوں دھرتی قلعی کرادے، میں نچاں ساری رات‘‘ وغیرہ شامل ہیں۔ ان کا نام ہمیشہ ان پنجابی شاعروں میں شامل رہے گا جن کا کلام ہر زمانے کے لیے ہے۔ استاد دامن نے لولی وڈ کی بہت سی سپر ہٹ فلموں کے لیے گیت بنائے، ان فلموں کی کامیابی میں ان کی شاعری کا بڑا دخل تھا۔ ان کے کام کو کتنا پسند کیا جاتا تھا اس کا اندازہ اس بات سے کیجیے کہ اس زمانے کے بہترین موسیقار فیروز نظامی نے خود ان کے گیتوں کی دھنیں بنائیں اور مادام نورجہاں نے استاد دامن کی شاعری کے لیے اپنی آواز کا جادو جگایا۔ استاد دامن کا اصل نام چراغ دین تھا اور وہ پیشے کے لحاظ سے درزی تھے، ان کی شاعری سب سے پہلے غیر منقسم ہندوستان کے ایک سیاسی اجتماع میں متعارف ہوئی، جس کے بعد پاکستان بنانے کی جدوجہد کرنے والوں کے ہر جلسے میں ان کی موجودگی لازمی ٹھہری۔

استاد دامن نے ذاتی طور پر بھی اس جدوجہد میں حصہ ڈالا، ان کی دکان اور گھر تقسیم کے دوران ہنگاموں میں نذر آتش کردیے گئے، وہ اپنی بیوی اور بیٹی کو بھی کھو بیٹھے، جنھیں فسادیوں نے قتل کردیا تھا، اس کے باوجود انھوں نے لاہور ہی میں رہنے کا فیصلہ کیا، اور اپنی باقی ساری زندگی انارکلی بازار کے قریب ایک کمرے کے مکان میں گزار دی اور وہاں سے اپنا کام جاری رکھا۔ قیام پاکستان کے بعد، استاد دامن نے دوبارہ انقلابی شاعری کرنا شروع کی اور وقت کے حکمرانوں کی پالیسیوں پر کھل کر تنقید کی۔

ایسا کرتے ہوئے انھوں نے ان سماجی و سیاسی مسائل کی نشاندہی کی، جن میں پاکستان اور ہندوستان کی نو آزاد مملکتیں گھری ہوئی تھیں، یوں وہ تبدیلی کی علامت بن گئے، اس کے ساتھ ساتھ وہ پاکستانی فلموں کے لیے بھی لکھا کرتے تھے۔

بہت سے لوگوں کی رائے میں استاد دامن کی وفات کے بعد فلمی صنعت پہلے جیسی نہیں رہی۔ پنجابی موسیقی کے بحران میں ہونے کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے پاس اب استاد دامن جیسے شاعر نہیں رہے۔ انھوں نے پنجابی ثقافت کو پروان چڑھایا لیکن ان کی برسی جس خاموشی سے گزری اس سے لگتا ہے ہم نے ملک کے لیے ان کی خدمات کی قدر نہیں کی۔ وہ عمر بھر   آمریت کے خلاف برسر پیکار رہے، ان کے کام اور شاعری کی اشاعت ’دامن دے موتی‘ کے نام سے کتابی صورت میں ان کی وفات کے بعد عمل میں آئی، پہلے وہ ’ہمدم‘ کے قلمی نام سے لکھا کرتے تھے، جو بعد میں بدل کر ’دامن‘ ہوگیا۔ وہ جدوجہد آزادی کی کامیابی کے لیے ہندوؤں، مسلمانوں اور سکھوں کے اتحاد کو لازمی گردانتے تھے۔

استاد دامن کو آخری بار 20 نومبر 1984ء کو فیض احمد فیضؔ کے جنازے میں دیکھا گیا تھا، سخت علیل ہونے کے باوجود رکشہ میں ماڈل ٹاؤن پہنچے تاکہ جنازے میں شریک ہو سکیں، فیض کی جدائی سے غمزدہ لوگ ان کی حالت دیکھ کر اور بھی ملول ہوگئے، کیونکہ ڈیل ڈول سے پہلوان نظر آنے والے استاد دامن سوکھ کر کانٹا ہوگئے تھے اور کوئی ڈھانچا لگتے تھے۔ اداکار علاؤ الدین باقاعدگی سے ان کے ایک کمرے والے گھر ملاقات کے لیے آیا کرتے تھے، وہ انھیں باپ کا مقام دیتے اور بیحد عزت کیا کرتے تھے، استاد دامن بھی انھیں اپنا منہ بولا بیٹا کہا کرتے تھے۔ وہ بیسویں صدی کے پنجاب کے سچ بولنے اور حق بات کرنے کا حوصلہ رکھنے والے شاعر تھے۔

حبیب جالبؔ نے انھیں خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ دامن ایک عظیم قوم پرست اور محروم طبقات کے احساسات و جذبات کے حقیقی ترجمان تھے۔ بے نیاز ہستی کے مالک استاد دامن زندگی میں تو اپنی شاعری کو اشاعت پذیر ہوتا نہ دیکھ سکے لیکن وفات کے بعد ’پیٹ واسطے‘ ان کی بہترین شاعری قرار پائی۔ بچپن میں وہ اپنے والد کے ساتھ درزی کی دکان پر کام کیا کرتے تھے، انھوں نے کلاسیکل پنجابی شاعری گھر پر سیکھی، اردو میڈیم میں میٹرک تک تعلیم حاصل کی، کسی قدر فارسی اور انگریزی بھی جانتے تھے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔