صبح۔۔۔ اب کوئی مژدہ نہیں لاتی

اقبال خورشید  جمعرات 14 مارچ 2013
آسمان پر چھائے افواہوں اور بری خبروں کے بادل، ہر طرف خوف، ہر طرف سناٹا!  فوٹو: فائل

آسمان پر چھائے افواہوں اور بری خبروں کے بادل، ہر طرف خوف، ہر طرف سناٹا! فوٹو: فائل

ہر صبح ایک سی۔ اداس، بوجھل، مضمحل۔ صبح، جو سناٹے کو مہمیز کرتی ہے، اندیشوں کو بڑھاوا دیتی ہے!

مدت ہوئی، شہر قائد کے مکینوں کے لیے صبح کوئی مژدہ نہیں لائی۔ اُنھیں کوئی خوش خبری نہیں ملی۔ بس المیوں کی کہانیاں ہیں، جن سے روز ہی سامنا ہوتا ہے۔ المیے، جن کی تفصیلات سے صبح کے اخبارات بھرے ہوتے ہیں، جو آسمان میں بکھری کرنیں چوس لیتے، روشنی کو تاریکی سے بدل دیتے۔ اور یوں ہر صبح پھیکی پڑ جاتی۔ وقت سے پہلے ہی رات آجاتی۔ طویل اور الجھی ہوئی رات۔ پریشان کُن رات، جہاں ہر آہٹ کے پیچھے حادثہ چھپا ہوتا ہے۔

یہ کراچی ہے۔ سوا کروڑ کی آبادی والا شہر، پاکستان کا تجارتی حب، جس کے باسی اچھی خبروں کو ترس گئے ہیں۔ مسکرانا بھول گئے ہیں، خوف کے سائے میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ اندیشوں کا من پسند کھاجا بن چکے ہیں۔

ہر صبح ایک سی۔ وہی خبریں۔ ٹارگیٹ کلنگ، بینک ڈکیتیاں، پرتشدد مظاہرے، فضاؤں میں تیری کشیدگی۔

یومیہ دس بارہ ہلاکتیں۔ اور مرنے والے تنہا نہیں مرتے، قطعی نہیں! اُن کی موت، اُن کے اہل خانہ کے لیے بھی ہلاکت خیز ثابت ہوتی ہے۔ وہ یاسیت کی گہری کھائی میں اتر جاتے ہیں۔ زندہ ہوتے ہیں، پر مُردوں سے بدتر کہ جب بھرے پُرے گھر کے سربراہ کو موت نگل لے، تو زندہ رہنے والوں کی زندگی دشوار ہوجاتی ہے۔

شہر کے کتنے ہی علاقے۔ غریب، سہولیات سے محروم، تنگ و تاریک علاقے – گذشتہ کئی برسوں سے کشیدگی کی لپیٹ میں ہیں۔ وہاں رونما ہونے والا کوئی معمولی واقعہ پَلوں میں فسادات کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ فضاؤں میں فائرنگ کی کریہہ آواز گونجنے لگتی ہے۔ راستے ساکت ہوجاتے ہیں۔ چند منٹوں میں ٹرانسپورٹ غائب، اور پھر مکمل سناٹا۔

علاقہ مکین گھروں میں محصور۔

کاروبار زندگی معطل۔

اور اگر کشیدگی چند روز تک برقرار رہے، تو اُن بدنصیبوں کے گھروں میں فاقوں کے اندیشے رینگنے لگتے ہیں۔

سیاسی کارکنان اور مذہبی راہ نماؤں کی ہلاکتوں کے بعد پورا شہر ہی کشیدگی کی لپیٹ میں آجاتا ہے۔ سڑکیں قبل از وقت ویران ہوجاتی ہیں۔ گھر پہنچنے کے آرزومند، اندیشوں کے سائے میں بس اسٹاپس پر کھڑے اُن گاڑیوں کا انتظار کرتے نظر آتے ہیں، جو یا تو آتی ہی نہیں، اور آتی بھی ہیں، تو اتنی بھری ہوئی ہوتی ہیں کہ اُن میں سوار ہونا محال ہوتا ہے۔

ٹرانسپورٹ کے غائب ہونے کا سبب بھی واضح ہے کہ فسادات کے دنوں میں اُنھیں نذرآتش کرنا عام ہے۔ جب کبھی، جہاں کہیں کشیدگی کو بڑھاوا دینا ہوتا ہے، شر پسند چند بسیں جلا دیتے ہیں، جس کے بعد سناٹا سڑکوں پر اتر آتا ہے۔

یوں تو چھوٹے چھوٹے حادثات ہی کاروبارزندگی کے لیے جان لیوا ثابت ہوتے ہیں، لیکن اگر کوئی بڑا سانحہ رونما ہوجائے، تو کشیدگی اور اندیشے پورے شہر کو جکڑ لیتے ہیں۔ ایسا ہی گذشتہ ہفتے ہوا، جب سانحۂ عباس ٹاؤن کے بعد ایک جانب جہاں شہر پر یاسیت کی بادل چھا گئے، وہیں اندیشوں کے جھکڑ بھی چلنے لگے، جنھوں نے روزمرہ کے معمولات کو بری طرح متاثر کیا۔ اور شہر کو اِس سانحے سے ابھرنے کا وقت ہی کہاں ملا کہ یومیہ بنیادوں پر ہونے والی ہلاکتوں کا سلسلہ جاری رہا۔ بینک ڈکیتیاں ہوتی رہیں۔ تصادم کی اطلاعات ملتی رہیں۔ افواہیں بھی گردش میں تھیں۔ الغرض بری خبروں کا سلسلہ جاری رہا۔ اور اِس وقت بھی جاری ہے۔

کیا اِن مسائل کا کوئی حل ہے؟ اِن اندیشوں سے جان چُھڑائی جاسکتی ہے؟

اِس سوال کا جواب یوں تو اثبات میں ہونا چاہیے کہ اگر قانون نافذ کرنے والے ادارے اپنے فرائض سے غفلت نہ برتیں، انتظامیہ تذبذب کا شکار نہ ہو، سیاسی جماعتیں سنجیدہ ہوں، تو یہ مسئلہ چند ہفتوں میں حل ہوسکتا ہے۔ مگر مصلحت اور مفادات کے کھیل میں، جہاں ہر ادارے کو اپنے فوائد سے غرض سے ہے، جہاں اطلاع ہونے کے باوجود شرپسندوں کے خلاف کارروائی نہیں کی جاتی، وہاں بہتری کے امکانات معدوم ہوجاتے ہیں۔

شہر میں پھیلی کشیدگی کا کوئی ایک پہلو نہیں۔ یہ ہشت پہلو ہے۔ ایک سبب سیاسی اختلافات ہیں، جن کے، الیکشن کے دنوں میں شدت اختیار کرنے کا قوی اندیشہ ہے۔ دوسری جانب ہے فرقہ ورایت، جو ایک عفریت کی شکل اختیار کر چکی ہے، جس پر فی الفور قابو نہیں پایا گیا، تو بگاڑ اس نہج پر پہنچ جائے گا کہ اس کا مقابلہ ناممکن ہوجائے گا۔ جرائم پیشہ افراد بھی اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھو رہے ہیں۔ نت نئے طریقوں سے شہریوں کو لوٹا جارہا ہے۔

کراچی میں کئی قومیتیں آباد ہیں، جن کے درمیان فاصلے بڑھ رہے ہیں۔ اُن کی نمایندہ جماعتیں یہ دعویٰ تو کرتی ہیں کہ کراچی میں کوئی لسانی اختلاف نہیں، مگر وقفے وقفے سے جنم لینے والا حالات کا بگاڑ پلوں میں اس دعوے کی قلعی کھول دیتا ہے۔ ضرورت اِس امر کی ہے کہ سنجیدگی کے ساتھ اِس مسئلے کی جانب توجہ دی جائے۔ لسانی تفریق کی خلیج پاٹتے ہوئے تمام قومیتوں کے درمیان ہم آہنگی پیدا کی جائے۔

غیرقانونی اسلحے کی شہر میں بھرمار ہے، جس کی موجودگی میں بہتری کے امکانات معدوم ہوجاتے ہیں۔ جیسے ہی حالات میں اندیشوں کی آمیزش ہوتی ہے، یہ آتشیں عفریت فوراً باہر آجاتا ہے، اور شہر کے گلی محلے میں گولیوں کی آوازیں گونجیں لگتی ہیں۔ اِس ضمن میں انتظامیہ کو ٹھوس فیصلے کرنے ہوں گے۔

الیکشن قریب ہیں، اور اندیشے قوی۔ شفاف اور پُرامن انتخابات کا انعقاد کروانے کے لیے حکومتی مشینری کو جامع منصوبہ بندی کرتے ہوئے چند سنجیدہ اقدامات کرنے ہوں گے۔ اُنھیں سیاسی اور مذہبی جماعتوں کا تعاون بھی درکار ہوگا، جن کا کردار صورت حال کی بہتری میں کلیدی کردار ادا کرسکتا ہے۔

جرائم پیشہ افراد کے خلاف کارروائی بھی ازحد ضروری ہے۔ ساتھ ہی قانون نافذ کرنے والے اداروں میں موجود کالی بھیڑوں کا خاتمہ بھی وقت کا تقاضا ہے۔ نیک نیتی سے کیے جانے والے اقدامات کے طفیل اِس شہر پر اترنے والی صبحوں کی اداسی اور بوجھل پن میں واضح کمی آسکتی ہے، جس کے بعد شہری، خوف سے آزاد، مسکراتے ہوئے اپنے دن کا آغاز کر سکیں گے۔ ایک ایسا آغاز، جسے وہ زمانہ ہوا، بھول چکے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔