مسائل کا طوفان، شہری پریشان!

محمود پٹھان  جمعرات 14 مارچ 2013
ایڈمنسٹریٹر کے دعوے ریت کی دیوار ثابت ہوئے۔  فوٹو: فائل

ایڈمنسٹریٹر کے دعوے ریت کی دیوار ثابت ہوئے۔ فوٹو: فائل

لاڑکانہ: گذشتہ دنوں ڈویژنل کمشنر لاڑکانہ، ڈاکٹر سعید احمد مگنیجو نے میونسپل ایڈمنسٹریٹر کا چارج سنبھالنے کے بعد اعلیٰ افسران کے ایک اجلاس کی صدارت کی، جہاں اُنھیں مسائل سے متعلق تفصیلی بریفنگ دی گئی۔

تحصیل میونسپل ایڈمنسٹریٹر، ضمیر ابڑو نے اُنھیں ٹی ایم اے کے سالانہ بجٹ، آمدنی اور اخراجات سے آگاہ کیا، اور تجاوزات، نکاسی و فراہمی آب کے ناکارہ نظام، صفائی ستھرائی کی صورت حال اور دیگر مسائل کے متعلق بتایا۔ اس اجلاس کے بعد میونسپل ایڈمنسٹریٹر، ڈاکٹر سعید نے پریس کانفرنس کے دوران صحافیوں کے سامنے اعتراف کیا کہ ٹی ایم اے اور نساسک اپنے فرائض کی انجام دہی میں بری طرح ناکام ہو چکے ہیں، شہریوں کو کئی مسائل درپیش ہیں، جن میں اہم ترین مسئلہ شہر کا 35 برس پرانا نکاسی و فراہمی آب کا نظام ہے۔

انھوں نے کہا کہ صفائی ستھرائی کے حوالے سے بھی متعلقہ اداروں کی کارکردگی مایوس کن ہے، متعدد علاقے گندگی کی لپیٹ میں ہیں، شہر کی بیش تر گلیوں پر اسٹریٹ لائٹس موجود نہیں، اور جو اسٹریٹ لائٹس نصب کی گئی ہیں، اُن کی دیکھ ریکھ نہیں کی گئی، جس کی وجہ سے وہ ناکارہ ہوگئی ہیں۔ ایک جانب یہ صورت حال ہے، دوسری جانب اسٹریٹ لائٹس کی دُرستی کی مد میں بھاری بل تیار کیے گئے، جن کی، اُن کے بہ قول، انکوائری کروائی جائے گی۔

انھوں نے مزید کہا کہ شہر کی بیش تر سڑکیں تجاوزات کے نرغے میں ہیں، جنھیں خالی کروانے کے لیے ماضی میں متعدد آپریشنز کیے گئے، تاہم سیاسی مداخلت کی وجہ سے ذمے داران کو چھوڑنا پڑا۔ ٹرانسپورٹ مافیا نے مختلف شاہ راہوں پر کوچ، ویگن، سوزوکی اور ٹیکسی کے غیرقانونی اسٹینڈ قائم کر رکھے ہیں، میونسپل کارپوریشن آفس کے اطراف میں بھی منی بس اسٹینڈ قائم ہے، جب کہ ایشین ڈویلپمنٹ بینک کے فنڈ سے بنایا گیا ’’نیو بس ٹرمینل‘‘ ویرانی کا منظر پیش کر رہا ہے۔ اُنھوں نے ٹریفک نظام کو مفلوج قرار دیتے ہوئے کہا کہ شہر کی سڑکوں پر موجود چھے ہزار چنگچیرکشے، چار ہزار آٹو رکشے، دو ہزار گدھا گاڑیوں نے عوام کی مشکلات میں کئی گنا اضافہ کر دیا ہے، شہری ایک عذاب میں مبتلا ہیں۔

شہید بے نظیر بھٹو اسٹیڈیم بھی پانچ برس میں مکمل نہیں ہو سکا، پبلک پارکس عملے کی عدم توجہی کے باعث ویران پڑے ہیں۔ قبرستانوں پر بھی قبضے کیے گئے۔ بیش تر قبرستان چاردیواری سے محروم ہیں، وہاں روشنی بھی نہیں۔ اُنھوں نے کہا کہ اجلاس میں بیش تر مسائل زیر بحث آئے، افسران کو دو دن کی مہلت دی گئی ہے، وہ شہر کا دورہ کریں، تجاوزات قائم کرنے والوں کو اُنھیں ہٹانے کی ہدایت کریں، اگر ایسا نہیں کیا گیا، تو گرینڈ آپریشن کیا جائے گا، قانون کی خلاف ورزی کرنے والے خلاف چالان تیار ہوگا۔ اُنھوں نے پریس کانفرنس میں کہا کہ وہ شہریوں کے مسائل حل کرنے کے لیے ہفتہ وار کھلی کچہری کا سلسلہ شروع کریں گے، کمشنر ہاؤس میں کنٹرول روم قائم کیا گیا ہے، جس کا رابطہ نمبر جلد جاری کردیا جائے گا۔

میونسپل ایڈمنسٹریٹر کا یوں مسائل کا اعتراف کرنا، اقدامات کی یقین دہانی کروانا ایک خوش آیند امر تھا، شہریوں کو بہتری کی امید ہو چلی تھی، مگر یہ امید اُس وقت دم توڑ گئی، جب کئی روز گزر جانے کے باوجود نہ تو تجاوزات کے خلاف گرینڈ آپریشن شروع ہو سکا، نہ ہی صفائی ستھرائی کا کام شروع کیا گیا۔ شکایتی مرکز کا رابطہ نمبر بھی تاحال جاری نہیں کیا گیا ہے۔ الغرض لاڑکانہ کے باسی کل کی طرح آج بھی مسائل میں گھرے ہوئے ہیں، کیوں کہ ایڈمنسٹریٹر کے دعوے ریت کی دیوار ثابت ہوئے۔

لاڑکانہ میں علاج معالجے کی سہولیات کا بھی فقدان ہے۔ سندھ ہائی کورٹ لاڑکانہ کے احکامات کے باوجود محکمۂ صحت کی جانب سے تاحال چانڈکا میڈیکل کالج اسپتال کے ایم ایس کے عہدے پر گریڈ 20 کا افسر تعینات نہیں کیا گیا۔ اِس پوسٹ پر گذشتہ دو ماہ کے دوران، بارہ مرتبہ تین افسران کا تبادلہ اور تقرر ہوا ہے۔ سیکریٹری صحت کی جانب سے سندھ ہائی کورٹ لاڑکانہ کے احکامات پر فقط اس حد تک عمل درآمد کیا گیا کہ موجودہ ایم ایس، ڈاکٹر انصاف مگسی کے ڈی ڈی او اختیارات ختم کرتے ہوئے محکمۂ خزانہ کو ایک لیٹر جاری کر دیا کہ انھیں فنڈز جاری نہیں کیے جائیں۔

چانڈکا میڈیکل اسپتال میں نئے بھرتی ہونے والے 130 ملازمین میں، گذشتہ آٹھ ماہ سے تن خواہیں کی عدم ادائیگی کے باعث، شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے۔ پیرا میڈیکل اسٹاف کی جانب سے چانڈکا میڈیکل کالج اسپتال کی او پی ڈی کا بائیکاٹ کرتے ہوئے، پیرا میڈیکل اسٹاف ایسوسی ایشن کے ضلعی صدر، شاہی خان جاگیرانی اور سیکریٹری جنرل ذوالفقار سہتو کی سربراہی میں سول اسپتال کے او پی ڈی کے سامنے احتجاجی مظاہرے جاری ہیں، جس کے باعث کئی آپریشنز ملتوی کرنے پڑے، اور دوردراز علاقوں سے آنے والے مریضوں کو مجبوراً واپس جانا پڑا۔ اِس گمبھیر صورت حال کا اعلیٰ حکام کی جانب سے نوٹس تک نہیں لیا گیا۔ واضح رہے کہ سابق ایم ایس، ڈاکٹر اشفاق میمن پر رشوت کے عوض 130 ملازمین بھرتی کرنے کا الزام ہے۔ حکومت سندھ اور محکمۂ صحت کی جانب سے اس کیس کی انکوائری جاری ہے، جس کی وجہ سے ملازمین کی تن خواہیں رُکی ہوئی ہیں۔

فروری کا مہینہ سانحات کے نہ رکنے والے سلسلے، احتجاجی سرگرمیوں اور ہڑتالوں کے باعث شہریوں کے لیے ایک عذاب ثابت ہوا۔ پہلے سانحۂ جیکب آباد میں پیر سید غلام حسین شاہ قمبر والے شدید زخمی ہوئے، اور اُن کے پوتے کو زندگی سے ہاتھ دھونا پڑا۔ پھر سانحۂ شکارپور میں درگاہ غازی غلام شاہ کے سجادہ نشین، پیر حاجن شاہ ماڑی والے شہید ہوگئے، جس کے بعد سانحۂ کراچی پیش آیا۔ یعنی فروری کے 28 دنوں میں سے 20 دن شہر ہڑتالوں اور احتجاجی سرگرمیوں کی زد میں رہا، جس کے باعث کاروبار شدید متاثر ہوا، محنت کشوں کو فاقے کرنے پڑے۔ بدقسمتی سے اِن حالات میں، جب شہریوں کو منتخب نمایندوں کی حوصلہ افزائی کی ضرورت تھی، وہ عوام میں موجود نہیں تھے۔

سیپکو لاڑکانہ سرکل میں یوم مطالبات کے موقعے پر واپڈا ہائیڈرو یونین کی جانب سے تمام دفاتر کو تالا لگا دیا گیا، اور زونل چیئرمین، نثار احمد شیخ کی قیادت میں پاور ہاؤس لاڑکانہ سے احتجاجی ریلی نکالی گئی۔ ریلی میں یونین راہ نماؤں غازی خان لاشاری، نادر شیخ اور خالد چانڈیو سمیت سیپکو ملازمین کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔

ریلی شہر کے مختلف راستوں سے ہوتی ہوئی جناح باغ چوک پہنچی، جہاں خطاب کرتے ہوئے راہ نماؤں نے مطالبہ کیا کہ واپڈا اور بجلی کمپنیوں میں فی الفور ریفرنڈم کروا کر ایک لاکھ 60 ہزار مزدوروں میں پھیلی بے چینی ختم کی جائے، لوڈ شیڈنگ کے خاتمے کے لیے نئے پاور ہاؤس تعمیر کیے جائے، ملازمین کا 33 فی صد کوٹا بحال کیا جائے، عملی اقدامات کرتے ہوئے شہریوں کو تحفظ فراہم کیا جائے، بہ صورت دیگر احتجاج کا دائرہ وسیع کیا جائے گا۔ لاڑکانہ کے علاوہ قمبرشہدادکوٹ، میروخان، وارہ، ڈوکری، نصیرآباد، باڈہ، رتوڈیرو اور نوڈیرو میں بھی احتجاجی مظاہرے ہوئے۔ دیکھنا یہ ہے کہ احتجاج کے اِس سلسلے کا کیا نتیجہ نکلتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔