ایمن آباد کا گوردوارا؛ ایک ادھوری سیر کا احوال

ذیشان یعقوب  جمعرات 14 دسمبر 2017
یہ وہ مقام ہے جہاں بابا گرو نانک نے 40 دن تک تپسّیا کی۔ اُس وقت یہاں پتھر (روڑے) ہوا کرتے تھے جس کی بنا پر اس کا نام روڑی شریف پڑ گیا۔ (فوٹو: فائل)

یہ وہ مقام ہے جہاں بابا گرو نانک نے 40 دن تک تپسّیا کی۔ اُس وقت یہاں پتھر (روڑے) ہوا کرتے تھے جس کی بنا پر اس کا نام روڑی شریف پڑ گیا۔ (فوٹو: فائل)

گزشتہ کچھ عرصے سے میں اور میرا دوست تاریخی مقامات کو دیکھنے اور ان کے بارے میں جاننے کے شوق سے سفر کر رہے تھے۔ اس بار ہماری منزل ایمن آباد ٹھہری۔ ایمن آباد بیس ہزار کی آبادی پر مشتمل ایک علاقہ ہے جو گوجرانوالہ شہر کے جنوب میں واقع ہے، یہ تاریخی حوالے سے بہت اہمیت کا حامل ہے۔ اس جگہ کی اہمیت کا ایک سبب یہاں موجود سکھوں کا بہت مقدس اور بڑا گوردوارا بھی ہے جسے دیکھنے دنیا بھر سے سکھ حضرات یہاں آتے ہیں اور اپنے دلوں کو روشن کرتے ہیں۔

اسی گوردوارے کو دیکھنے کی چاہ میں ہم نے بھی ایمن آباد کا رُخ کیا۔ ایک طویل سفر کے بعد بالآخر ہم اُس سڑک پر جا پہنچے جہاں ’’گوردوارا روڑی شریف‘‘ کی تختی لگی ہوئی تھی۔ اُس سڑک پر مزید کچھ دیر کی مسافت کے بعد ہم گوردوارے کے گیٹ پر کھڑے تھے۔ یہ وہ مقام ہے جہاں بابا گرو نانک نے 40 دن تک تپسّیا کی۔ اُس وقت اس جگہ پر پتھر (روڑے) ہوا کرتے تھے جس کی بنا پر اس کا نام روڑی شریف پڑ گیا۔ گوردوارے کے مرکزی دروازے پر ہندی میں فقرہ لکھا ہے جس کا مفہوم کچھ اس طرح سے ہے: ’’ریت پر بیٹھ کر زہریلے پھل کو دیکھا۔ جو میٹھا ہو گیا، اُسے کھایا اور زندہ رہے۔‘‘

گوردوارے کی عمارت بہت ہی خوبصورت اور دلکش تھی۔ جب ہم اندر جانے کی کوشش کرنے لگے تو سیکیورٹی پرمامور ایک چوکیدار نے یہ کہتے ہوئے ہمیں روکا کہ وقت ختم ہو گیا ہے، لہٰذا اب آپ اندر نہیں جاسکتے۔ دل بہت رنجیدہ ہوا کہ اتنے جتن کے بعد اس جگہ تک پہنچے، لیکن پھر بھی اپنے مقصد میں کامیاب نہ ہو سکے۔

شکستہ دل کے ساتھ واپسی کا سفر شروع کیا تو ایک سپاٹ میدان نظر آیا جہاں ایک عجیب و غریب سی عمارت بنی ہوئی تھی، نزدیک ہی برگد کا پیڑ ایک سپاہی کی طرح اُس خستہ حال عمارت کی حفاظت کرتا محسوس ہورہا تھا۔ تجسّس ہوا کہ گوردوارے کے بالکل ساتھ ایک سپاٹ سا میدان جس میں ایک بوسیدہ عمارت اور ایک پیڑ کھڑا ہے، آخر یہ ہے کیا؟

پاس ہی ایک بزرگ بھینسیں چرا رہے تھے۔ اُن سے دریافت کیا تو معلوم ہوا کہ یہ میدان سرکار کی ملکیت ہے، یہاں پر کبھی بیساکھی کا میلہ بڑے دھوم دھام سے ہوا کرتا تھا جس میں ملکی اور غیر ملکی سکھ برادری شریک ہوا کرتی تھی؛ لیکن کچھ عرصے سے تخریب کاری کے خدشے کی وجہ سے میلہ بند ہوچکا ہے۔ جو عمارت تھکے ماندے مسافروں کو آرام پہچانے کا ذریعہ بنتی تھی آج اُس عمارت میں بھینسوں کا گوبر بکھرا پڑا تھا۔ یہ وہ پہلا جھٹکا تھا جو ہمیں اس سفر میں محسوس ہوا۔

ہمارے حکمران اور سیکیورٹی اداروں کے سربراہان بڑے فخر سے کہتے ہیں کہ ہم نے دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑ دیا ہے۔ لیکن درحقیقت صورتِ حال یہ ہے کہ کبوتر کو پنجرے میں بند کرکے کہا یہ جا رہا ہے کہ وہ محفوظ ہے۔ بزرگ سے بات چیت کے دوران معلوم ہوا کہ پاس ہی ایک علاقہ ہے جو محلہ حویلیاں کے نام سے جانا جاتا ہے، جس میں دو ایک مندر اور ایک جگہ ہے جو چکی صاحب کے نام سے جانی جاتی ہے۔ ہمارا تجسس جاگا اور ہم نے اپنی گاڑی کا رُخ اُس علاقے کی طرف کر دیا۔

پکے راستے نے ہمارا استقبال کیا جو ٹوٹ پھوٹ کا شکار تھا۔ اُس راستے پر جس پہلی چیز نے ہمیں اپنی جانب متوجہ کیا وہ دو بلند قامت مینار تھے۔  وہ مینار آج بھی پورے گاؤں میں اچھوتے پن کے حامل تھے۔ دونوں مندر ایک دوسرے کے سامنے تعمیر کیے گئے تھے۔ ایک لمحے کےلیے ایسا لگا جیسے ہم کسی ہندی فلم کے سیٹ پر آن کھڑے ہوئے ہوں۔ ایک مندر میں تو رہائش تھی جس کی وجہ سے اس کے اندر جانے کی اجازت نہ ملی، البتہ دوسرا مندراپنے دور کی ٹھاٹھ باٹ بیان کرتا دکھائی رے رہا تھا۔ یہ شیولنگ کا مندر تھا جو اب کسی کھنڈر جیسا محسوس ہورہا تھا۔ مندر کی حالت پر دکھ اور غصے کی ملی جلی کیفیت پیدا ہوئی۔ مندر کے احاطے میں جس جگہ کبھی جوتا بھی نہ لایا گیا، اب اس جگہ مویشی بندھے ہوئے تھے۔

مندر کے چاروں اطراف چار مختلف مناظر تھے۔ مغرب کی طرف مویشی، جنوب کی جانب کوڑے کرکٹ کا انبار، مشرق کی جانب ایک عمدہ نسل کا کتا (جو مندر کی دیوار کے ساتھ ہی بندھا ہوا تھا) جبکہ شمال کی جانب چند بے نام کمرے تھے جن کی حالت قابلِ رحم تھی۔ مندر کے دونوں دروازے بند تھے۔ اندر جانے کا بڑا تجسس ہوا مگر دروازے پر پڑے تالے کسی طور بھی نہ کھل سکے۔ ایک چھوٹے سے سوراخ میں سے جو جھانکا تو منہ کھلے کا کھلا رہ گیا۔ بھگوان کی مورتی کی جگہ اب گھاس کاٹنے والی مشین نے لے رکھی تھی۔ ایک پرانی چارپائی اور کچھ بوسیدہ کپڑے تھے جو دیواروں سے چپکی چھپکلیوں کی جاگیر لگ رہے تھے۔

مندر کے احاطے میں ہی ایک چھوٹا سا کمرا بنا ہوا تھا جو مقامی افراد کے مطابق پجاری کا کمرہ تھا۔ اچھی طرح جائزہ لینے کے بعد واپس جاتے ہوئے اس شخص سے ملے جس سے اجازت لے کر ہم نے مندر کا معائنہ کیا تھا۔ ان کا خاندان تقسیمِ ہند کے وقت اس علاقے میں آکر آباد ہوا تھا۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ مندر کی ایسی حالت کب ہوئی تو مختصر سا جواب ملا کہ جب ہندوستان میں بابری مسجد کو شہید کیا گیا اُسی وقت یہاں یہ کام کیا گیا۔ بس اس کے بعد مزید کچھ پوچھنے کی ہمت نہ رہی۔

اس قوم کا ہمیشہ استحصال کیا گیا، کبھی ذات پات کے نام پرتو کبھی مذہب کے نام پر۔ ہر شخص نے اپنی مرضی کے مطابق اس قوم کو استعمال کیا۔ کبھی مذہب کے نام پر ذاتی دشمنیاں نکالی گئیں تو کبھی قتل و غارت کی گئی۔ یہ کام بھی کسی ایسے ہی مفاد پرست ٹولے نے کروایا ہو گا، سمجھنے میں زیاد ہ دیر نہ لگی۔

اس شخص سے چکی صاحب کے بارے میں دریافت کیا تو اس نے ہمیں نہ صرف راستہ بتایا بلکہ کچھ اور تاریخی عمارتوں کے بارے میں بھی بتایا جن کے بارے میں ہمیں معلوم نہیں تھا۔ ان میں چکی صاحب، دیوان حویلی اور ایک تاریخی مسجد شامل تھے۔

چکی صاحب وہ مقام ہے جس جگہ بابا گرونانک کو قید کیا گیا اور سزا کے طور پر چکی چلانے کا حکم دیا گیا تھا۔ حیرت کی بات ہے کہ چکی خود بخود چلتی رہی اور بابا صاحب بیٹھے عبادت میں مشغول رہے۔

سکھوں کی بڑی تعداد اس جگہ کی زیارت کرنے آتی ہے جس کی وجہ سے یہ مقام مندروں کی نسبت درست حالت میں تھا۔ یہ جگہ سکھوں کےلیے مخصوص تھی جس کی وجہ سے ایک بار پھر ہمیں ندامت کا سامنا کرنا پڑا۔

اس کے بعد ہم نے بتائی گئی دوسری جگہ کی جانب سفر شروع کیا جو دیوان حویلی کے نام سے جانی جاتی تھی۔ اسی کی وجہ سے اس علاقے کا نام محلہ حویلیاں مشہور ہے۔ یہ حویلی مغل بادشاہ بابر کے زیرِاستعمال تھی۔ آج اس حویلی کا صرف ایک دروازہ موجود ہے جو مغل دور کے تعمیراتی فن کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ مغلیہ دور کی نقاشی آج بھی ان دیواروں پر موجود ہے۔ اس حویلی کو دیکھ کر خدا کی قدرت کا احساس ہوتا ہے۔ کوئی بھی طاقت اس دنیا میں ہمیشہ کےلیے نہیں ہے۔ وہ مغل بادشاہ جو کسی ریاست کے خلاف جنگ کرنے کا اراداہ ہی کرتے تھے تو مخالف فتح پلیٹ میں رکھ کر دربار میں حاضر ہو جایا کرتا تھا، وقت نے کیا آثار چھوڑے ہیں کہ آج اس حویلی کو مسمار کرکے پلاٹوں کی صورت میں فروخت کیا جا رہا ہے۔ وہ مغلیہ سلطنت کی نقش و نگاری، جاہ و جلال اور رتبہ ہر گرتی اینٹ کے ساتھ دم توڑتا چلا جا رہا ہے؛ اور جس تیزی سے اس حویلی کو مسمار کیا جا رہا ہے، مجھے نہیں لگتا کہ آنے والی نسلیں اس کے نشانات کو بھی دیکھ سکیں گی۔

جو قومیں اپنے قومی ورثے کو زندہ نہیں رکھ سکتیں، آنے والا وقت انہیں زندہ رہنے کا موقع بھی نہیں دیتا۔ وہ ایسے ہی معدوم ہوجاتی ہیں جیسے غروبِ آفتاب کے وقت اندھیرا روشنی کو کھا جاتا ہے۔

اس کے بعد ہم نے جدھر کا رخ کیا وہ ایک مسجد تھی جسے مغل بادشاہ بابر نے تعمیر کروایا تھا۔ مسجد کے راستے میں ایک اسکول نظر آیا جو 1908 میں تعمیر کیا گیا تھا۔ آج اس کے مرکزی دروازے پر ایک تختی کے سوا کچھ بھی باقی نہیں بچا۔ کچھ دیر سفر کرنے کے بعد ہمیں دور سے ہی ایک مسجد نظر آ ئی جو آبادی کے شمال جنوب کی جانب 5 کلو میٹر دور تھی۔ مسجد کی حالت دیکھ کر سکتہ طاری ہو گیا۔ اب مسجد کے صرف گنبد ہی محفوظ ہیں، باقی سب وقت اور بے حسی کی نذر ہوگیا۔ مسجد کی یہ حالتِ زار ہماری شعوری اور اخلاقی گراوٹ کا منہ بولتا ثبوت تھی۔ مسجد کے ایک جانب ایک تختی نصب تھی جس پر ایک تحریر یوں درج تھی: ’’یہ عمارت قدیم مقامات عمارت تحفظ قانون 1985 کے تحت محفوظ قرار دی گئی۔ کوئی بھی شخص جو اسے نقصان پہنچائے گا، خراب کرے گا یا اس کے 200 فٹ اندر کوئی عمارت تعمیر کرے گا وہ قانون شکنی کے زمرے میں آئے گا جس کے نتیجے میں ایک سال قید کی سزا یا جرمانہ یا دونوں ہوسکتے ہیں۔‘‘

حیرت کی بات ہے کہ جب ہم مسجد کی طرف بڑھے تو ہمارا استقبال ایک آوارہ کتے نے کیا جو شاید اس مسجد سے بھی پرانا تھا۔ مسجد کے اطراف میں نئی فصل کےلیے زمین تیار کی گئی تھی جس میں بیج ڈال دیا گیا تھا۔ مسجد کی تعمیر ایمن آباد کی تیار کردہ خاص اینٹ سے کی گئی تھی جو آج بھی سرخ پتھر کی مانند چمکدار تھی، اس کی خاصیت یہ ہے کہ جب اس پر بارش پڑتی ہے تو یہ مزید سُرخ ہوجاتی ہے۔ اس علاقے میں تعمیراتی کام اتنی شدت سے جاری تھا کہ یہاں ایک اینٹوں کا بھٹہ بنایا گیا تھا جس کے آثار آج بھی نمایاں ہیں۔

مسجد سے چند قدم کے فاصلے پر ایک معدوم مزار تھا جس کا ایک ہی مینار اپنی شان و شوکت دکھانے کےلیے اس جنگ زدہ علاقے میں آج بھی ایک بہادر سپاہی کی طرح کھڑا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ اس میں ایک قبر تھی، البتہ آج اس جگہ بیسیوں قبریں موجود ہیں۔

اب دل سوالوں کی جگہ ملامت پر اُتر آیا۔ مندروں کی تباہ حالی کا جواز تو ملتا ہے، لیکن مسجد کی یہ حالت دیکھ کر اپنے مسلمان ہونے پر ایک سوالیہ نشان سا محسوس ہونے لگا جس کا جواب شاید ہی کوئی دے سکے۔

جواب ڈھونڈنے کے بجائے عملًا اس کا بہتر حل یہی ہے کہ اس مسجد کو دوبارہ آباد کیا جائے۔ کہیں آنے والی نسلیں ہمیں کوستی نہ رہیں کہ ہمارے آبا و اجداد نے آبادی بڑھانے اور مذہبی قتل و غارت کے علاوہ کچھ کیا ہی نہیں۔

مسجد تو بنا دی شب بھر میں ایماں کی حرارت والوں نے
من اپنا پرانا پاپی ہے، برسوں میں نمازی بن نہ سکا!

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لئے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

ذیشان یعقوب

ذیشان یعقوب

بلاگر نمل یونیورسٹی اسلام آباد سے ابلاغِ عامّہ میں ماسٹرز کررہے ہیں جبکہ افسانہ نگاری کا شوق بھی رکھتے ہیں۔ آپ کے افسانے مختلف اخبارات میں شائع ہوتے رہتے ہیں جبکہ آپ ذاتی بلاگ بھی چلاتے ہیں۔ عمومی معاشرتی مسائل کو جداگانہ انداز سے قارئین کے سامنے پیش کرنا آپ کو پسند ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔