آہ محترمہ پروین رحمن صاحبہ……

زاہد فاروق  جمعـء 15 مارچ 2013

13 مارچ 2013 شام سوا سات بجے پیر آباد تھانے کی حدود منگھو پیر روڈ پر واقع اورنگی پائلٹ پروجیکٹ (اوپی پی) کے شعبہ تحقیق و تربیت (آر ٹی آئی) کی سربراہ پروین رحمن کو سماج دشمن عناصر نے ٹارگٹ کرکے قتل کردیا۔ او پی پی کے دفتر سے باہر نکلتے ہی پشتون مارکیٹ کے سامنے موٹرسائیکل پر سوار نامعلوم افراد نے ٹارگٹ کرکے کار پر فائرنگ کردی، ایک گولی کار کی پٹرول کی ٹنکی اور دوسری گولی عقبی دروازے کے شیشے توڑتی ہے اور تیسری گولی نشانہ تاک کر گلے پر لگائی جاتی ہے۔

برصغیر پاک و ہند کے مشہور سماجی محقق ڈاکٹر اختر حمید خان نے 1980 میں اورنگی ٹاؤن کی بستی میں ترقی کے لیے اورنگی پائلٹ پروجیکٹ بنایا۔ 1983 میں پروین رحمن نے ڈاؤ انجینئرنگ کالج کے شعبہ آرکیٹکٹ سے تعلیم حاصل کرکے او پی پی جوائن کیا۔

مرحوم ڈاکٹر اختر حمید خان کی سرپرستی میں نہ رکنے والا پروین رحمن کا سفر جاری ہوگیا۔ عارف حسن، تسنیم صدیقی نے بھی رہنمائی کی اور اورنگی ٹائون میں سروے ہوئے، اپنی مدد آپ کے تحت گلیاں بنائی گئیں، نالے تعمیر ہوئے، فراہمی آب کی لائنوں کی ڈیزائننگ ہوئی، اورنگی کی وہ بستی جو کبھی جنگل ہوتی تھی، نہ سڑکوں کا نام تھا، سیوریج کی سہولت نہ تھی، ان مسائل پر کام ہوا، اسکولوں کی سطح پر کوآپریٹو گروپ، سیونگ گروپ بنائے گئے۔ اسکولوں میں کلاسز کی بہتر صورت حال اور پانی کی سہولت، باتھ روم کی سہولت کے لیے اسکول انتظامیہ کو نہ صرف منظم کیا بلکہ تکنیکی امداد کے ساتھ ساتھ مالی معاونت بھی فراہم کی۔ لو کاسٹ ہاؤسنگ میں ٹائل بیم کی چھت اور مشین سے بنے بلاک متعارف ہوئے، مستریوں کی تربیت ہوئی۔

اس کے بعد اورنگی پائلٹ پروجیکٹ کا کام نہ صرف پاکستان کے کئی بڑے شہروں فیصل آباد، گوجرانوالہ، راولپنڈی، مردان، بہاولپور، لودھراں، رحیم یار خان، پشاور، تک پہنچا بلکہ بیرون ممالک جاپان، کمبوڈیا، تھائی لینڈ، افریقہ، انڈونیشیا جیسے ممالک میں بھی او پی پی کے پروگرام کو نہ صرف سراہا گیا بلکہ عوامی شراکت کے اس منصوبے کو ان ممالک کی سماجی شعبے کی تنظیموں نے بھی اپنے وسائل اور حالات کے مطابق اپنایا۔

پروین رحمن کی سربراہی میں زلزلے کے متاثرین کی بحالی کا کام ہو یا سیلاب متاثرین کی مستقل بنیادوں پر بحالی کا مسئلہ پروین رحمن نے دن رات ایک کرکے متاثرین کی بحالی کے لیے کام کیا۔ اوپی پی کی معاونت سے بنائے گئے مکان اعلیٰ مہارت سے ڈیزائن ہوئے کہ دو بار سیلاب آئے لیکن 95 فیصد مکانات بچ گئے، دواؤں کی فراہمی ہو یا چھت کی، پروین رحمن نے متاثرین کی بحالی کے لیے مقامی تنظیموں کی معاونت سے کام کیا۔

پروین رحمن کا قصور کیا تھا، صرف یہ کہ وہ قصبہ کے علاقے میں دفتر بناکر کام کر رہی تھیں، وہ ہر وقت کم آمدنی والے طبقے کی آبادکاری کے لیے سوچتی تھیں۔ وہ اسکولز میں سیونگ گروپس پروان چڑھا رہی تھیں، وہ ان گوٹھوں کے لاکھوں مکینوں کے لیے نقشہ جات بنوارہی تھیں جن کے گھروں کی مسماری کا خطرہ ہوتا تھا، وہ ہزاروں طلبا و طالبات کی بطور معلمہ تربیت کر رہی تھیں۔ انھوں نے مقامی سطح پر ایسے اداروں کی معاونت کی جو لوگوں کے ادارے ہیں جو عوام میں بھائی چارے کے لیے کام کرتے ہیں۔

پروین رحمن نے تو اپنے کام سے عشق کیا، وہ سماجی رشتوں کے بندھن سے بہت دور نکل چکی تھیں۔ ان کا اوڑھنا بچھونا سماجی کام تھا، بزرگ والدہ کی خدمت وہ کبھی نہ بھلاتی تھیں، جہاں بھی ہوتیں والدہ کی فکر ان کو ہوتی اور والدہ کو ان کی فکر ہوتی۔ پروین رحمن اب ایک سوچ کا نام ہے، بے شک آج وہ ہم میں جسمانی طور پر موجود نہیں ہیں لیکن ان کی فکر ہمارے پاس ہے۔ ہزاروں، لاکھوں لوگ اب اس فکر کو پروان چڑھانے کے لیے سرگرم عمل ہیں۔

ایک طرف ہم کہتے ہیں کہ ہم کمزور قوم ہیں، ہمارے ہاں ترقی کا عمل یا تو ہے نہیں اور اگر ہے تو سست رفتار ہے، دوسری طرف ہم ہر اس آواز کو خاموش کر رہے ہیں جو اجتماعیت کے مفاد کی بات کرتی ہے۔ مذہبی تعصب سے نہ دبنے والی آواز کو خاموش کسی غیر نے نہیں ہم میں سے ہی کسی نے کیا ہے، کسی نے معمولی مفاد کے لیے بڑے مفاد کو قربان کردیا۔ اگر ایسا ہی ہوتا رہا تو کون بات کرے گا عام آدمی کی؟ عام آدمی کے حقوق کی؟ عام آدمی کے بہتر طرز زندگی کی؟ افسوس صد افسوس، آخر میں یہی اپیل ہے کہ معاشرے سے تشدد کے خاتمے کے لیے اب اور زیادہ شدت سے بات کی جائے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔