ایک ٹیلیفون اور کہانیاں

سعد اللہ جان برق  جمعرات 14 دسمبر 2017
barq@email.com

[email protected]

کبھی ایک بات ایک لفظ ایک نام یا ایک ٹیلی فون سے یادوں کا ایک سیلاب سا امڈ آتا ہے، ایسا ہی آج ہمارے ساتھ ہوا، مصطفیٰ کمال کا فون کیا آیا گویا ایک دبستان کھل گیا ۔ مصطفیٰ کمال کو آپ نہیں جانتے بلکہ آج کل کوئی بھی نہیں جانتا، مصطفیٰ کمال تو کیا ان کے والد ماسٹر گل خان کا نام بھی کوئی نہیں جانتا لیکن ایک زمانے میں یہ دو نام پشاور کی صحافت بلکہ ملکی صحافت میں گونجتے تھے، ہم نے ان ہی کے اخبار ’’ بانگ حرم ‘‘ سے اپنی صحافت کا آغاز کیا تھا۔

یہ وہ زمانہ تھا جب سارے ملک پرجنرل ایوب خان کی ولولہ انگیز قیادت چھائی ہوئی تھی، اکثر اخبار ٹرسٹ میں لیے جا چکے تھے جو ایوب خان اورکنونشن لیگ کی مدح خوانی کرتے تھے اور اس کے سوا اور کچھ بھی نہیں کرتے تھے جو اخبارات ٹرسٹ کے زیر سایہ کسی طرح نہیں آئے تھے ان کے جینے کے تمام راستے بند کیے جا چکے تھے، ان میں نوائے وقت اور مقامی طور پر بانگ حرم اپنی بقا کی جنگ لڑ رہے تھے، ہمیں یاد ہے کہ صبح سویرے منہ اندھیرے یہ دونوں چند ورقی اخبار گرم پکوڑوں کی طرح ہاتھوں ہاتھ تقسیم ہوجاتے تھے اور ٹرسٹ کے مزین مصور اور ضخیم اخبارات سارا دن کسی خریدار کا منہ تکتے رہ جاتے تھے۔

ہر طرف سے پرچے بڑھانے کی فرمائشیں آتی تھیں لیکن ہم پورا نہیں کر پاتے تھے کیونکہ کاغذ کا کوٹہ بھی سرکار نے اپنی ران تلے دبایا ہوا تھا، بانگ حرم صرف تین اوراق کا چھوٹا سا اخبار تھا جس کا کاغذ بھی خراب طباعت بھی بے مزہ اور صورت بھی بے صورت ہوتی تھی لیکن ہر طرف ان کے ہی چرچے ہوتے تھے کیونکہ ایوب خان کی دبنگ شاہی میں یہ پہلا اخبار تھا جس نے اس ولولہ انگیز  بے عیب اور ھمہ صفت موصوف قیادت پر گرفت کرنا شروع کی تھی۔ یہ وہ زمانہ تھا جب لوگ بی بی سی اور انڈیا ریڈیو بھی چھپ چھپ کر سنتے تھے، ٹی وی، موبائل اور سوشل میڈیا کا تو ابھی تصور بھی پیدا نہیں ہوا تھا۔

اخبار کی کاپی محکمہ اطلاعات کی مہر کے بغیر چھپ نہیں سکتی اور محکمہ اطلاعات کے بزرگ مہر اور سقراط بقراط اتنے خورد بینی انداز میں دیکھتے تھے کہ جانتے بوجھنے والے تو ہوتے نہیں تھے صرف چند الفاظ دیکھ کر ہی خبر کو سنسر کر دیتے تھے، ایک جمہوریت، ایک پشتون اور ایک پشتو کا نام ہی خبر کو کل کرنے کے لیے کافی ہوتا تھا، ہم نے بھی ایسے ایسے طریقے ڈھونڈ نکالے تھے کہ اپنی بات کہہ بھی دیتے تھے اور سقراطوں کو پتہ بھی نہیں چلتا، جن میں ایک خاص طریقہ یہ تھا کہ جس خبرکو وہ کاپی سے اکھاڑ لیتے تھے ہم اس جگہ کو خالی چھوڑ کر اخبار چھاپ دیتے تھے، لوگ ان خالی جگہوں کو دیکھ کر سمجھ جاتے تھے کہ یہاں سے کیا کچھ اکھاڑا گیا ہوگا لیکن اس کا ان کے پاس کوئی علاج بھی نہ تھا، اس بہانے کا توڑ وہ کیسے کرتے کہ شفٹ توچھٹی کرکے جا چکی ہے خالی جگہ آخر ہم کیسے بھرلیں۔

ماسٹر خان گل کمال کے آدمی تھے ہرطرف سے ان پر دباؤ پڑتا تھا بلکہ بڑی بڑی پیش کش بھی ہوتی تھیں لیکن وہ مرد آہن ٹس سے مس نہیں ہوتے تھے ۔ہماری طبیعت میں یہ جو ایک طرح کی کجی یا ٹیڑھا پن پایا جاتا ہے، بانگ حرم، ماسٹر خان گل اور مصطفیٰ کمال کا دیا ہوا ہے، اسی ٹیڑھے پن نے اگرچہ ہمیں قدم قدم پر خوار کیا ہے لیکن کبھی ایسا موقع نہیں آنے دیا ہے جو ہمارے ضمیر پر بوجھ ہو، جو نقصانات اٹھائے وہ بھی اب ہمارے لیے تمغے ہیں۔ جس دن ایوب خان پرجناح پارک میں گولی چلی تھی اسے کوئی نقصان نہیں پہنچا ویسے بھی ہاشم خان کا ارادہ شاید اسے مارنے کا نہیں تھا کیونکہ جو ریوالور استعمال کیا گیا تھا اس کی گولی دس گزسے آگے اتنی سکت نہیں رکھتی کہ کسی جسم میں گھس سکے ۔

اس پر میں نے پشتو کی ایک کہانی اپنے کالم میں لکھ دی، انداز بالکل کہانی کا رکھا ایوب خان کی طرف کوئی اشارہ نہیں تھا لیکن سارے لوگ سمجھ گئے۔ کہانی ایک شکاری کی ہے کہ اس نے درخت پر بیٹھے ہوئے ایک پرندے پر فائرکیا جو اس وقت گا رہا تھا گوگوگو ۔ پرندہ بچ کر اڑ گیا ایک شخص نے فائر کرنے والے سے کہا یہ کیسا نشانہ تھا اپنے آپ کو اتنا نشانہ باز کہتے ہو اور اتنے قریب سے ایک پرندہ بھی نہیں مار سکے تو شکاری نے کہا پرندے کو مارنا کون چاہتا تھا میں تو اس کا گوگوگو بندکرنا چاہتا تھا، اب وہ زندہ رہے گا لیکن گوگو کبھی نہیں بولے گا ۔

پرندے کا تو پتہ نہیں اس کے بعد وہ گوگو بولا ہوگا یا نہیں لیکن ایوب خان کا زوال اسی فائر سے ایسا شروع ہواکہ پھرکبھی نہیں رکا۔ سکندراعظم کے بارے میں بھی کہا جاتا ہے کہ اس کی ماں اولمپیاس نے اسے زیوس دیوتا کا بیٹا مشہورکیا ہوا تھا، اس نے کہا کہ سکندر فلپ کا بیٹا نہیں ہے بلکہ ایک رات زیوس دیوتا میرے پاس آیا تھا جس سے یہ پیدا ہوا، چنانچہ اس کی حیران کن فتوحات کے پیچھے یہی ’’ دیوتائیت ‘‘ کا افسانہ بھی تھا، یونانی یہ پکا عقیدہ رکھتے تھے کہ ہم کسی انسان کے لیے نہیں بلکہ دیوتا کے لیے لڑرہے ہیں، دیوتا ہمارے ساتھ ہے، پھر مصر کے پروہتوں نے بھی اسے فارا یعنی فرعون کا اعزازی خطاب دیا تو سونے پر سہاگہ ہوگیاچنانچہ وہ ایک طوفان کی طرح ایشیا پر چھاگیا لیکن پھر جب ’’ دیر ‘‘ کے مقام پر اس کے گھٹنے میں ایک تیرلگا اس سے خون بہا اور وہ کئی دن تک معذور ہوگیا تو فوج میں اس کی دیوتائیت کا بت پاش پاش ہوگیا ۔کسی نہ کسی طرح جہلم تک تو پہنچ گئے لیکن آگے یونانیوں نے انکار کردیا کیونکہ اب وہ دیوتا نہیں انسان تھا ۔

ایوب خان کے ساتھ بھی جناح پارک میں ایسا ہوگیا، ولولہ انگیز قیادت کا بھوت سر سے اترگیا ۔

بات میں بات آگئی بلکہ اور بھی بہت کچھ بھولی بسری کہانیاں یاد آگئیں اور یہ سب کچھ مصطفیٰ کمال کے ایک ٹیلی فون سے، اب وہ عام زندگی کے دھارے سے نکل کرگوشہ نشین ہے لیکن ہمیں تو ابھی تک یاد ہے اور ویسا ہی محترم ہے، خدا خوش رکھے ہمارے ساتھ تو ان کا، ان کے والد ماسٹر خان گل اور بانگ حرم کا وہی تعلق ہے کہ

جو ہم پہ گزری سوگزری مگر شب ہجراں

ہمارے اشک تری عاقبت سنوارگئے

بانگ حرم کو یحیٰ خان نے بندکر دیا تھا کیونکہ ماسٹر خان گل شیخ مجیب الرحمان کی عوامی لیگ کے یا مغربی پاکستان میں صدر یا نائب صدر تھے ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔