پیپلز پارٹی: تاریخ کی عدالت میں (آخری حصہ)

مقتدا منصور  جمعرات 14 دسمبر 2017
muqtidakhan@hotmail.com

[email protected]

پارٹی کا منشور چونکا دینے والا تھا۔ جس میں چار بنیادی اصول وضع کیے گئے تھے۔ 1، اسلام ہمارا مذہب ہے۔ 2، سوشلزم ہماری معیشت ہے۔ 3، جمہوریت ہمارا طرز حکمرانی ہے۔ 4، طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں۔

پیپلزپارٹی کا پہلا دور دسمبر 1967 میں اپنے قیام کے وقت سے دسمبر 1970 میں عام انتخابات کے انعقاد تک کا ہے۔ عام انتخابات میں اس جماعت نے بائیں بازو کی طرف جھکاؤ رکھنے والی جماعت کے طور پر اپنی حیثیت تسلیم کرائی۔ جو مغربی پاکستان میں اکثریتی جماعت کے طور پر ابھر کر سامنے آئی۔

دوسرا دور انتخابات کے بعد سے اقتدار میں آنے تک ایک سال کے عرصہ پر محیط ہے، جس میں سیاسی جوڑ توڑ اور اسٹبلشمنٹ کے ساتھ بھٹو مرحوم کے تعلقات نے بعض سوچنے سمجھنے والے حلقوں میں پارٹی کے جمہوری کردار کے بارے میں کسی حد تک تشکیک پیدا کی۔ اگر بھٹو مرحوم اسٹبلشمنٹ کے نقطہ نظر کی ترجمانی کرنے کے بجائے عوامی لیگ کی ملک گیر اکثریت کو تسلیم کرتے ہوئے ڈھاکا میں متوقع اجلاس میں شرکت کرلیتے تو ملک کا نقشہ کچھ اور ہوتا۔ مگر انھوں نے نہ صرف اس اجلاس کی مخالفت کی بلکہ 28 فروری 1971 کو مینار پاکستان پر ہونے والے جلسے میں دھمکی دی کہ ’’جو رکن دستور ساز اسمبلی ڈھاکا جائے گا، میں اس کی ٹانگیں توڑ دوں گا‘‘۔ اس دھمکی کے بعد ایک طرف تو ملک کا سیاسی منظرنامہ تبدیل ہوا، دوسری طرف پارٹی کے اندر اختلافات پیدا ہوئے۔ احمد رضا خان قصوری، مختار رانا اور معراج محمد خان نے چیئرمین کے اس اعلان پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا۔ جو مرحوم بھٹو کو ناگوار گزرا۔ یوں پارٹی کے اقتدار میں آنے سے قبل ہی پارٹی میں اختلافات شروع ہوگئے۔

دوسرا دور 20 دسمبر 1971 سے 4 جولائی 1977 تک کا ہے۔ پیپلزپارٹی نے اس وقت اقتدار سنبھالا جب ملک دولخت ہوچکا تھا۔ نئے مسائل اور مصائب منہ کھولے کھڑے تھے۔ اس مرحلہ پر جب پوری قوم شکست خوردگی کے عالم میں تھی، بھٹو نے معاشرے کو زندگی کی ایک نئی رمق اور اس میں ایک نئی روح پھونکی۔ انھوں نے ملک کو نیا اور متفقہ آئین دیا۔ ملک کی معاشی ترقی کے لیے اسٹیل مل کا قیام، جوہری توانائی کے حصول کی کوششیں اور مشرق وسطیٰ میں پاکستانی ہنرمندوں کے روزگار کی راہ ہموار کرنا ان کے بڑے کارنامے ہیں۔ اسی طرح انھوں نے نیک نیتی کے ساتھ مزدوروں اور غریب طبقات کو فائدہ پہنچانے کی خاطر صنعتوں اور تعلیمی اداروں کو قومیانے کا فیصلہ کیا۔ یہ الگ بات ہے کہ مناسب منصوبہ بندی نہ ہونے اور بیوروکریسی کی ریشہ دوانیوں کے باعث قومیائے جانے کا عمل بیوروکریٹائز ہوگیا۔ جس کے مثبت کے بجائے منفی اثرات مرتب ہوئے۔ انھوںنے سوشل سیکیورٹی، بڑھاپے کی پنشن اور سرکاری ملازمین کی بیواؤں کے لیے تاحیات پنشن کا اجرا کیا۔ اس سے قبل بیواؤں کو صرف پانچ برس تک پنشن ملا کرتی تھی۔

عالمی سطح پر دوسری اسلامی سربراہی کانفرنس کے ذریعے مسلم دنیا کو ایک پلیٹ فارم پر مجتمع کیا۔ انھیں باہمی طاقت کے ساتھ عمل کرنے کا احساس دلایا۔ تیسری دنیا کے ترقی پذیر ممالک کو اپنے حقوق کی جدوجہد کی راہ دکھائی۔ تیل پیدا کرنے والے ممالک کو باور کرایا کہ انھیں اپنے خام مال کی قیمت کا خود تعین کرنے کی ضرورت ہے۔ جس کے نتیجے میں تیل پیدا کرنے والے ممالک کی تنظیم OPEC نے ایک ہفتہ تک تیل بند کرکے سرمایہ دار ممالک کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیا۔ وہ مسلم ممالک کا ورلڈ بینک کی طرز پر بینک قائم کرنے کے خواہاں تھے، تاکہ ترقی پذیر مسلم ممالک عالمی مالیاتی اداروں کا دست نگر ہونے کے بجائے اپنے بینک سے فائدہ حاصل کریں۔ وہ مسلم دنیا میں یونیورسٹیاں اور تحقیقی مراکز قائم کرنے کے لیے کوشاں تھے۔

لیکن ان سے بعض ایسی غلطیاں سرزد ہوئیں، جو نہ صرف ان کی زندگی کے لیے خطرناک ثابت ہوئیں، بلکہ ملک کو بھی ایسے جنجال میں پھنسا گئیں، جس سے نکلنا مشکل ہوچکا ہے۔ ملکی سطح پر انھوں نے اپنی فطری حلیف جماعتوں (نیشنل عوامی پارٹی اور جمعیت علمائے اسلام) سے بے وجہ دوری اختیار کی۔ اس میں نیشنل عوامی پارٹی کے بعض انتہاپسند عناصر کا بھی منفی کردار رہا ہے۔ جس کی جانب میر غوث بخش بزنجو مرحوم نے کئی بار اظہار کیا۔ اس دوری اور پھر تلخی کا ملک کی غیر جمہوری قوتوں نے بھرپور فائدہ اٹھایا۔ دوسری آئینی ترمیم، جس کی وجہ سے ملک میں متشدد فرقہ واریت کی بنیاد پڑی اور جمہوریت اور جمہوری اداروں کے کردار پر سوال اٹھے۔ کیونکہ پارلیمان کا یہ کام نہیں کہ وہ عوام کے عقائد کی چھان بین کرے۔ پھر سردار داؤد کی حکومت کے خلاف وہاں کے بنیاد پرست قبائلی زعما کو متحرک کرنے کے عمل نے آنے والے برسوں میں پاکستان کے لیے دہشت گردی کی شکل میں نئی مشکلات پیدا کیں، جو آج تک جاری ہیں۔ ملک دہشت گردی کی دلدل میں ایسا دھنسا ہے کہ نکل ہی نہیں پارہا۔

یہ دیکھنے اور جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ جس جماعت کو جنرل ضیاالحق جیسا آمر اپنے گیارہ سالہ دور میں ختم نہیں کرسکا، اس سے ایسی کیا غلطیاں اور کوتاہیاں سرزد ہوئیں کہ وہ وقت گزرنے کے ساتھ سکڑ کر سندھ کے دیہی علاقوں تک محدود ہوگئی؟ پنجاب، بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں اس کا وجود نہ ہونے کے برابر رہ گیا ہے، جب کہ اربن سندھ میں بھی اس کی وہ تنظیم نہیں جو چند دہائی قبل ہوا کرتی تھی۔ آج صورتحال یہ ہے کہ وہ جماعت جو کبھی چاروں صوبوں کی زنجیر تصور کی جاتی تھی، بیشتر ضمنی انتخابات میں عام سی علاقائی اور مذہبی جماعتوں سے بھی کم ووٹ لے پاتی ہے۔

اگر پارٹی کی کمزوریوں پر اجمالی نظر ڈالی جائے تو تین چار غلطیاں ایسی ہیں، جو پارٹی کے زوال کا سبب بنیں، ان میں سے کچھ پارٹی کی کمزور اندرونی پالیسیوں کو ظاہر کرتی ہیں، کچھ ان کے دیگر جماعتوں سے معاملات میں غیر ذمے دارانہ روش کا اظہار ہیں۔ 1: پارٹی کی جانب سے 1988 میں بھٹو کے عدالتی قتل کو بطور سیاسی نعرہ استعمال کیا جانا درست اقدام تھا، لیکن جب تسلسل کے ساتھ اسے سیاسی سلوگن کے طور پر استعمال کیا جانے لگا تو لوگوں میں اکتاہٹ پیدا ہونے لگی۔ 2: پارٹی نے منشور کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے اور اس پر عمل کرنے سے مسلسل گریز کیا۔ 3: بعض تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ ایوان صدر کی ڈکٹیشن کے ساتھ 1988 میں اقتدار قبول کرنے سے گریز کرنا چاہیے تھا۔ 4: پارٹی کا میڈیا سیل کمزور رہا اور وہ اسٹبلشمنٹ کے پروپیگنڈا کو رد کرنے میں ناکام رہا، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ جتنا غلط کیا اس سے کئی گنا بدنامی دامن جھولی میں پڑی۔ 5: اربن سندھ کی نمایندہ جماعت کے ساتھ اگر معاملات کو درست انداز میں چلایا جاتا اور پی کے شاہانی کے معاہدے پر سنجیدگی کے ساتھ عمل کیا جاتا، تو سیاسی انتشار اس حد تک نہ پہنچتا۔

بھٹو کے عدالتی قتل کے بعد محترمہ بینظیر بھٹو نے ان کی جگہ سنبھالی۔ وہ بھٹو مرحوم کا پرتو تھیں اور انھی کی طرح ذہین اور باہمت۔ 1996 میں حکومت کے خاتمہ سے 2007 میں اپنی شہادت تک ان کی سوچ، ویژن اور طرز عمل مسلسل ارتقا پذیر رہا۔ وہ 18 اکتوبر کو طویل جلاوطنی کے بعد انتہائی اعلیٰ پائے کی سیاسی شخصیت کے طور پر کراچی ائیرپورٹ پر اتریں۔ امید یہ تھی کہ اپنی جلاوطنی کے دور میں انھوں نے جو کچھ پڑھا، دیکھا اور سیکھا ہے، اس سے ملک کا مقدر سنورنے میں مدد ملے گی۔ مگر وہ قوتیں جو اس ملک کے تابندہ مستقبل کی دشمن رہی ہیں، انھوں نے جہاں دیگر عظیم ہستیوں کو پیوند خاک کیا وہیں محترمہ کو بھی نشانے پر رکھ لیا۔ 18 اکتوبر 2007 کے حملے میں ناکامی کے بعد ان عناصر نے 27 دسمبر کو بالآخر بی بی ہی کی جان نہیں لی، اس ملک سے خرد افروزی، عقلیت پسندی اور روشن خیالی کا بھی جنازہ نکال دیا۔ بلکہ 1967 میں روشن خیالی اور خرد افروزی کی بنیاد پر وجود میں آنے والی جماعت کو تشخص کی دلدل میں دھنسا دیا۔

پیپلز پارٹی، جو اس ملک کے آزاد فکر، روشن خیال اور ترقی دوست سوچ رکھنے والے شہریوں کی واحد امید ہوا کرتی تھی، وہ دسمبر 2007 سے تادم تحریر روبہ زوال ہے۔ بلکہ بدترین گورننس کے باعث تباہی کے آخری دہانے تک جا پہنچی ہے۔ بی بی کے فرزند اور بھٹو مرحوم کے نواسے بلاول نے جب سے قیادت سنبھالی ہے، وہ ماں اور نانا کے مشن کی تکمیل کا تذکرہ ضرور کرتے ہیں، مگر کیا وہ پارٹی کو ان فیوڈلز، Electables اور موقع پرست و کرپٹ عناصر کے نرغے سے آزاد کراسکیں گے، جو پارٹی کی جڑوں میں بیٹھ چکے ہیں اور پارٹی کو اس مقام تک پہنچانے کا اصل باعث ہیں۔ یہی وہ سوال ہے، جو ہر اس شخص کے ذہن میں ہے، جس نے اس جماعت کو بنتے اور عروج حاصل کرتے اور اب تباہ ہوتے دیکھ رہا ہے۔ بلکہ یوں کہیے کہ اس ملک سے روشن خیالی کا جنازہ بھی نکلتا دیکھ رہا ہے۔ کیونکہ اب ملک میں کوئی ایسی جماعت نہیں جو روشن خیالی اور سیکولر تصورات کا اس طرح برملا اظہار کرسکے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔