غصہ سچے اور کھرے آدمی کی نشانی ہوتا ہے، مرزا اعظم بیگ

نوید جان  جمعرات 14 دسمبر 2017
سینئرصحافی، مصنف، سیاح اور دانشور مرزا اعظم بیگ کی جیون کتھا

سینئرصحافی، مصنف، سیاح اور دانشور مرزا اعظم بیگ کی جیون کتھا

انہیں ایک منجھا ہوا صحافی کہاجائے، مصنف بتایا جائے، چلتا پھرتا انسائیکلوپیڈیا مانا جائے، سیاح تصورکیا جائے یا دانشور بولا جائے، ہر حیثیت میں وہ انگوٹھی میں نگینے کی طرح فٹ بیٹھتے ہیں۔

اس رنگا رنگ شخصیت کی وجہ سے وہ محفل پر چھاجانے کا ہنر بھی اچھی طرح جانتے ہیں۔ جہاںدیدہ ایسے کہ بطور صحافی نگر نگرگھومے پھرے، مختلف زبانوں سے شناسائی ان کاخاصہ ٹھہری۔ ان کا شمار خیبر پختونخوا کے ان معدودے چند سینئر صحافیوں میں ہوتا ہے، جنہوں نے صحافیوں کی ایک پوری نسل کی تربیت کی اور اس خطے میں صحافت کے شعبے کو فروغ دیا۔ وہ آج بھی 63سال کی عمر میں انتہائی متحرک اور چاق وچوبند نظرآتے ہیں۔

یہ مختصر سا تعارف مرزا اعظم بیگ کا ہے، جن کا سن پیدائش 1954اور جائے پیدائش پشاور ہے۔ ان کے آباؤاجداد کا تعلق وسطی ایشیا کی مضبوط اور معروف قوم خان آف کوہ قند سے ہے۔ سنٹرل ایشیا کے تین خان، خان آف کوہ قند، خان آف خیسرہ اور خان آف بخارا معروف خاندان تھے، یہ تینوں یہاں برسوں سے حکمرانی کرتے آرہے تھے۔ 1865ء میں روس نے تاشقند پر قبضہ کیا، تو تاشقند کے حکمران خدایار خان نے کچھ سال بعد کوہ قند پر قبضہ جما لیا۔ ان کے آباؤاجداد کئی برسوں تک روس سے لڑتے رہے، انہیں انگریزوں کی مدد بھی حاصل رہی۔

آخرکار 1920ء میں انقلاب روس کے بعد وسطی ایشیاء کے چار ممالک یعنی ازبکستان ، تاجکستان ،کرغستان اورقازقستان بنے، یہ یاد رہے کہ خان آف کوہ قند کی ملکیت (فرعانہ ویلی) چار ممالک پر مشمل ہے جو انتہائی سرسبزوشاداب علاقے مانے جاتے ہیں۔ مرزا اعظم بیگ کے بقول: ’’اگست میں صدر ازبکستان شوکت مرزا کے کہنے پر ازبکستان کے سابق چیف جسٹس جہانگیرحیدروف میر حبیب گڑھی بخشی پل چارسدہ تشریف لائے، شہزادہ محمود بیگ خان کے فرزند شہزادہ اقبال بیگ خان کے سر پر ٹوپی پہنائی، سنہری چغہ پیش کیا اور ان کو ازبکستان آنے کی دعوت بھی دی، اس طرح 150سال بعد ہمارا تعلق پھر سے اپنے آبائی وطن سے جڑگیا ہے، اس سلسلے میں مرزااقبال بیگ عنقریب ازبکستان جائیں گے۔‘‘

مرزا اعظم بیگ کے والد چوں کہ ائیر فورس میں ملازم تھے، اسی بنا پر ان کونگر نگر دیکھنے اورانسانوں کو پرکھنے کا موقع ملا۔ پشاور کے علاوہ سرگودھا، ڈھاکہ، واہ کینٹ اور دیگر مقامات پر ان کا تعلیمی سلسلہ جاری رہا۔1971ء میں گورنمنٹ ہائی سکول نمبر1پشاور سے میٹرک پاس کیا، 1975ء میں اسلامیہ کالج سے گریجویشن کی ڈگری حاصل کی۔ وہ واہ کینٹ میں گزرے زیست کے لمحات کو یادگار قرار دیتے ہیں۔

کہتے ہیں، ’’1965ء کی جنگ میں امریکا نے ہمیں ہوائی جہاز سے گرائے جانے والے بم دینا بندکر دیئے تو والد صاحب کی سربراہی میں واہ فیکٹری میں پاکستان ایئر فورس کا پہلا سیکشن کھولا گیا۔ والد صاحب نے ڈھاکہ میں دوران ملازمت نیپام بم بنانا سیکھا تھا، یہاں پر اس کو باقاعدہ ٹیم کی شکل میں چین کے تعاون سے بنانا شروع کیا، جس کا افتتاح 20جنوری 1970ء کوسر آغا خان نے کیا۔‘‘ اس کے بعد ان کے والد کی پشاور پوسٹنگ ہوگئی اور انہوں نے اسلامیہ کالج میں داخلہ لے لیا۔ لڑکپن اور جوانی میں وہ خاصے سرگرم رہے۔ آج بھی وہ اپنے بچپن کے دوستوں کی یاد میں دل گرفتہ اور دل گیر ہو جاتے ہیں۔

کمرہ جماعت میں آخری نشستوں پر اقبال آفریدی، اسرار آفریدی اور طاہر آفریدی کے ساتھ بیٹھنے اوران سے پشتو سیکھنے کا موقع ملا، اس کے علاوہ ان سے شرارتیں بھی خوب سیکھیں کیوںکہ آخری نشستوں پر براجمان ہونے والے اکثر طلبہ پڑھائی سے زیادہ دیگر سرگرمیوں پر توجہ دیتے ہیں۔ چنانچہ وہ گانے بجانے کی طرف مائل ہوئے، اور اس وقت کے پی ٹی وی پشاور سینٹر کے پروڈیوسر ارباب خان کے پاس جا پہنچے، آڈیشن دیا اورکامیاب قرار دیئے گئے۔ پشتو کے گانے گائے جو بہت مقبول ہوئے، خاص کر لڑکیوں میں انہیں بہت پذیرائی ملی۔ وہ اس وقت نامور گلوکار ناشناس سے کافی متاثر تھے، ان کے گیت گائے بھی، بعد میں ان کا انٹرویو لینے کا بھی موقع ملا۔

1976ء میں ایک معروف ایڈوٹائزنگ ایجنسی میں ملازمت سے روزگار کا سلسلہ شروع ہوا، جلد ہی ملک کے معروف انگریزی اخبار سے وابستہ ہو گئے اور وہاں ریجنل منیجر کے طور پر فرائض انجام دیتے رہے۔ اخبار کی پشاور سے اشاعت شروع ہوئی تو مرزا اعظم بیگ 1988ء میں اس کے پبلشر مقرر ہوئے، 1993ء میں چند ناگزیر وجوہات کی بنا پرمستعفی ہونا چاہا لیکن یہ استعفیٰ رد ہوا، بالآخر 1995ء تک اسی کشتی کے سوار رہے۔

پھر اس چینی کہاوت کہ ’’ہاتھی کی دم بننے سے مرغی کا سر بننا بہتر ہے‘‘ پر عمل پیرا ہوتے ہوئے اس آزاد منش شخص نے 1994ء میں انگریزی کا ماہنامہ (Diplomat) نکالا، جب ڈیورنڈ لائن کو 100سال مکمل ہونے تھے۔

اسے صوبے کا اولین انگریزی ماہنامہ ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ مرزا اعظم بیگ ’’حریت‘‘ اخبارکے نمائندہ خصوصی کے طوربھی غالباً چھ سال تک فرائض انجام دیتے رہے۔ کہتے ہیں، ’’انگریزی ماہنامہ ’ڈپلومیٹ‘ کی وجہ سے بہت نقصان اٹھایا۔ آج کل ہر شے کو کمرشل ازم کے ترازو پر تولاجاتا ہے اور مجھے زیب نہیں دیتا کہ اس کے پیچھے دوڑتا پھروں۔ ہم نے جس دور میں صحافت کا آغاز کیا اس وقت اس شعبے سے نظریاتی لوگ وابستہ تھے، اس لیے ان کے رنگ میں رنگنا لازمی بات تھی۔

ہمارے دور میں صحافت ایک مشن ہوتی تھی۔ اور آج بھی میری یہی سوچ ہے۔ دوسری جانب نوجوانوں کے لیے آج کی صحافت میں بہت سے مواقع اور امکانات ہیں، لیکن اس کے باوجود آج کی صحافت میں تلخی، نیگٹیوٹی، بے جاتنقید اورکمرشلزم کا عنصر غالب آگیا ہے، جس کے باعث ہم اصل راستے سے کوسوں دور چلے گئے ہیں، معاشرے میں ہیجان انگیزی بڑھ چکی ہے جس کا اثر فرد پر ذہنی تناؤ کی صورت میں پڑتا ہے۔‘‘

ہمہ جہت شخصیت مرزا اعظم بیگ نے صوبے کی ثقافت کے علاوہ صنعت وحرفت اور معیشت پر بھی بہت کام کیا ہے۔ اس ضمن میں گدون آمازئی کی صنعتی حیثیت کو پروان چڑھانے میں ان کے قلم کا بہت حصہ رہا۔ انہوں نے وہاں جرگوں کے ذریعے بے شمار تنازعات کے تصفیے کرائے۔ وہاں کے مسائل حکومتی ایوانوں تک پہنچائے۔ اس کے متعلق کہتے ہیں، ’’پختونوں کی یہ بدقسمتی رہی ہے کہ نہ تو یہ ٹیکنیکل واقع ہوئے ہیں اور نہ ہی ان کا مینوفیکچرنگ کی طرف رحجان ہوتا ہے، اس لیے تو سوات میں 500سے زائد سلک ملز اب نہیں رہیں، جس سے وہاں معاش اور روزگار کا خزانہ ہم نے کھودیا ہے۔

جب کہ ہم نے خواتین کے گردگھیرا مزید تنگ کرکے ان سے ہنر کے ساتھ ذہن بھی چھین لیا ہے،کیوں کہ سوات کی معروف دستکاریاں انہی ہنر مند خواتین کی مرہون منت تھیں۔‘‘ مزید بتاتے ہیں، ’’قدرت نے خیبر پختون خوا کو ہر حوالے سے حسن دے رکھا ہے جب کہ قدرتی حسن اور مناظر کا توکیا کہنے، لیکن پختون درخت کا دشمن ہے، یہ اس کی قطعاً پروا نہیں کرتا۔ ایک زمانہ تھا جب چارسدہ میں کھجور کے لاتعداد درخت ہواکرتے تھے لیکن آج ایک بھی دکھائی نہیں دیتا، اب جب کہ ہمیں گلوبل وارمنگ اور اسموگ جیسی آفات کا چیلنج درپیش ہے تو ایسے میں عمران خان کے بلین ٹری سونامی پراجیکٹ کو سراہا جانا چاہیے، لیکن اس ضمن میں چند احتیاطی تدابیرکا اختیارکرنا ناگزیر ہے۔

جس میں سرفہرست ملاکنڈ اورہزارہ ڈویژن میں بکریوں پر مکمل پابندی ہے، کیوں کہ عموماً روزانہ ایک بکری 200پودے ہڑپ کرجاتی ہے، اس لیے خدشہ ہے کہ یہ پراجیکٹ بکریوں کی نذرنہ ہوجائے۔ ہمیں یاد ہونا چاہیے کہ اسلام آباد کا آج جو یہ سبزہ ہے وہ ایوب خان کے مرہون منت ہے جنہوں نے وہاں بکریاں پالنے اور چرانے پر 10سال تک پابندی عائد کی تھی۔‘‘

انہیں اپنے پسند کے موضوعات پر ڈاکومنٹریز دیکھنا بہت اچھا لگتا ہے۔ خود کو گوشت خور کہتے ہیں، ان کے بقول: ’’گوشت کے بغیر کھانا ہضم ہی نہیں ہوتا، شریک حیات سے اکثر سالن میں گوشت نہ ڈالنے پر جھگڑا ہوتا ہے، کئی مرتبہ عین کھانے کے وقت پڑوسیوں سے گوشت مانگنا پڑاہے۔‘‘ وہ خوش لباس ہیں، اور خود کو بنا سنوار کر رکھنے والے لوگ ان کو اچھے لگتے ہیں۔ اس سلسلے میں قائداعظم محمد علی جناح کو اپنا آئیڈیل قرار دیتے ہیں۔ کہتے ہیں، ’’ان کی بہت سی خوبیوں میں ایک خوبی ان کا خوش لباس ہونا بھی تھا، جس کے باعث ان کی شخصیت مزید نکھر جاتی، ان کے لباس کی فٹنگ اتنی بہترین ہوتی کہ گورے بھی ششدر رہ جاتے ہیں۔‘‘ وہ اپنے اصولوں پر زندگی بسر کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔

بتاتے ہیں،’’زندگی گزارنے کے لیے جب اصول وضع ہوں تو آپ کو اپنی منزل تک رسائی سہل ہو جاتی ہے۔ اس لیے میں نے زندگی گزارنے کے لئے چند اصول وضع کیے ہیں، جن پر سمجھوتا نہیں کرتا۔ اس کے ساتھ میں کافی غصیلا بھی واقع ہوا ہوں، اگر یہ کہا جائے کہ خاندانی غصیلا ہوں تو بے جانہ ہوگا، لیکن آپ دیکھیں کہ سچااورکھرا آدمی ہی جلال میں آتا ہے۔‘‘ مرزا اعظم بیگ کی شادی 1979ء میں ہوئی۔ ان کے دوبیٹے مرزا ابراہیم بیگ، مرزا عبرال بیگ اور ایک بیٹی کامیاب زندگی گزار رہے ہیں۔ ان کی ایک بہو نے ڈاکٹریٹ کیا ہے اور وہ سرکاری جامعہ میں پڑھاتی ہیں۔

موسیقی سے ان کی دلچسپی کا ذکر پہلے ہو چکا۔ انہیں سہگل کی آواز بھاتی تھی، جس کی ایک وجہ شاید ان کی والدہ بھی تھیں جو سہگل کو بڑی شوق سے سنتی تھیں۔ سہگل کے علاوہ ہیمنت کمار، مناڈے،حبیب ولی محمد، پٹھانے خان اور ناشناس آج بھی اسی رومانی کیفیت میں سنتے ہیں، جو کیفیت ان گلوگاروں کو سن کر ان پر جوانی میں طاری ہوتی۔ سن جوانی میں ہی ہر اتوار کو پی اے ایف سنیما جاکر فلم دیکھتے، اداکاروں میں وہ محمد علی، زیبا، درپن، صبیحہ اور بالخصوص رنگیلا، محمد ظریف اورلہری کے کام کو کافی متاثر کن قرار دیتے ہیں۔

زندگی کا نچوڑ اپنی ماں کی کہی ہوئی بات کہ’’زندگی سب سے بڑا جھوٹ ہے‘‘ کو قرار دیتے ہیں۔ کہتے ہیں، ’’میری والدہ میرے لیے زندگی سکھانے کی ایک کتاب تھیں جن سے میں نے زندگی کے نشیب و فراز کے بارے میں جانا۔ میں نے ایک بھرپور زندگی بسر کرنے کی سعی کی، لیکن اب بعض اوقات یہ سوچتا ہوں کہ زیست تھوڑی اور کام بہت ہے۔ اس واسطے تشنگی محسوس کرتا ہوں۔‘‘

وہ سمجھتے ہیں کہ وقت کے ساتھ ساتھ صحافت کے شعبے اور اس کے ساتھ وابستہ افراد کا وقار کم ہوا ہے۔ کہتے ہیں، ’’پہلے یہ ایک کل وقتی کام بلکہ مشن ہوا کرتا تھا، اس لیے صحافیوں اوراس شعبے کی بڑی عزت ہوا کرتی تھی۔

ہمیں وہ وقت بھی یاد ہے جب ایس ایم رضوی اور اقبال ریاض نہیں آتے تھے، تو اس وقت تک صوبے کے سابق گورنر فضل الحق مرحوم پریس کانفرنس نہیں کیا کرتے تھے، یہ تھی اس وقت صحافی کی عزت لیکن معذرت کے ساتھ آج صحافت کا معیاراورصحافی بدل چکے ہیں۔ ہمارے دور میں یہاں کل 13صحافی تھے اس وقت سوائے اجمل خٹک کے صحافت میں زیادہ پختون نہیں تھے لیکن فرنٹیئر پوسٹ کی بدولت اس شعبے میں پختونوں کا ایک سیلاب امڈ آیا، شاید اس کی ایک وجہ پختونوں کی انگریزی پرمہارت قرار دی جا سکتی ہے۔‘‘

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔