کے پی کے پولیس نے فرض شناسی کی مثال قائم کردی

سید عاصم محمود  اتوار 17 دسمبر 2017
 قومی سلامتی کو درپیش خطرات سے نپٹنے کے لیے بعض اوقات ٹیڑھی انگلیوں سے بھی گھی نکالنا پڑ جاتا ہے۔ فوٹو؛ فائل

قومی سلامتی کو درپیش خطرات سے نپٹنے کے لیے بعض اوقات ٹیڑھی انگلیوں سے بھی گھی نکالنا پڑ جاتا ہے۔ فوٹو؛ فائل

یہ یکم دسمبر 2017ء کی سہانی صبح تھی۔ آج پاکستان بھر میں لوگ تزک و احتشام سے عیدمیلادالنبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تیاریوں میں مصروف تھے۔ مگر گمراہ کن اور خودساختہ نظریات پر عمل پیرا تحریک طالبان پاکستان کے شدت پسندوں نے اس مبارک و مقدس دن ایک خوفناک منصوبہ انجام دینے کا تہیہ کر رکھا تھا۔ یہ شدت پسند اپنے آپ کو سچا و پکا مسلمان کہتے ہیں۔ مگر یہ کیسے مسلمان ہیں کہ انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت مبارک کے دن اپنے ہی ہم مذہبوں کو قتل کرنے کا پروگرام بنالیا؟

یہ حقیقت آشکارا کرتی ہے کہ تحریک طالبان، داعش اور عالم اسلام میں کارفرما ان جیسی شدت پسند تنظیمیں اب مسلم دشمن عالمی قوتوں کی آلہ کار بن چکیں۔ تحریک طالبان کے انتہا پسندوں کا ٹارگٹ پشاور کی یونیورسٹی روڈ پر واقع زرعی تربیتی ادارہ تھا۔ اسی سڑک پر پشاور کی تاریخی درس گاہ، اسلامیہ کالج بھی واقع ہے۔ زرعی تربیتی ادارہ 1922ء میں قائم ہوا تھا۔ یہاں طلبہ کو زراعت کا تین سالہ ڈپلومہ کرایا جاتا ہے۔

باخبر ذرائع کے مطابق یہ حملہ تحریک طالبان کے سربراہ، فضل اللہ نے کرایا۔ تاہم اس نے حملہ آوروں کو ایک دھوکہ دے ڈالا۔ فضل اللہ نے انہیں بتایا کہ وہ پاکستانی خفیہ ایجنسی، آئی ایس آئی کے تربیتی مرکز پر حملہ کرنے جارہے ہیں۔ یوں شاید وہ حملہ آوروں کا حوصلہ بلند کرنا چاہتا تھا۔ مگر کیا خود کو عالم دین کہلوانے والے فضل اللہ کو دروغ گوئی اور دھوکے بازی زیب دیتی ہے؟

یکم دسمبر کی صبح تقریباً ساڑھے آٹھ بجے تین خودکش حملہ آور رکشے پر سوار زرعی تربیتی مرکزپہنچے۔ انہوں نے بارود سے بھری جیکٹیں پہن رکھی تھیں۔ ہاتھوں میں خود کار رائفلیں تھیں اور کمر سے لدے بیگوں میں دستی بم بھرے تھے۔ عید میلادالنبیؐ پر ہم مذہبوں کے ساتھ خوشیاں منانے کے بجائے سنگ دل حملہ آور ان کے خون سے ہولی منانے آئے تھے۔تینوں حملہ آور برقع میں ملبوس تھے تاکہ سکیورٹی فورسز سے پوشیدہ رہ سکیں۔ یہ شدت پسند اپنے آپ کو نہایت دلیرا ور بہادر سمجھتے ہیں۔ مگر یہ کیسی دلیری تھی کہ انہوں نے نہتے طلبہ پر حملہ آور ہونے کے لیے برقع کا سہارا لیا اور چھپتے چھپاتے زرعی تربیتی مرکز پہنچے؟ اس طرح تو انہوں نے برقع  کا تقدس بھی پامال کردیا۔ مغرب میں تو پہلے ہی برقع کو دہشت گردی کی ایک علامت سمجھا جانے لگا ہے۔

حملہ آوروں نے مرکز کے دروازے پر کھڑے چوکیدار کو سب سے پہلے نشانہ بنایا۔ اسے شہید کرکے وہ زرعی تربیتی مرکز کے ہوسٹل میں داخل ہوگئے۔ بالعموم ہوسٹل میں چار سو طلبہ قیام کرتے ہیں۔ مگر اس دن تعطیل کے باعث اکثر طلبہ چھٹیاں منانے گھرجاچکے تھے۔ ہوسٹل کے کمروں میں تقریباً سوا سو طلبہ موجود تھے اور ان کی اکثریت محو خواب تھی۔حملہ آوروں نے کمروں میں داخل ہوکر معصوم و بے خبر طلبہ پر گولیاں کی بوچھاڑ کردی۔ ایک حملہ آور کے لباس سے سمارٹ فون بندھا تھا۔ اس کے ذریعے حملے کا منظر براہ راست افغانستان میں چھپی تحریک طالبان کی قیادت تک پہنچایا جارہا تھا۔ اس ویڈیو کا ایک حصہ یوٹیوب میں دیکھا جاسکتا ہے۔

کہتے ہیں کہ مجرم چاہے کتنی ہی احتیاط کرے، وہ نادانستگی میں کوئی غلطی ضرور کردیتا ہے۔ تحریک طالبان کی قیادت نے بھی حملے کی ویڈیو ریلیز کرتے ہوئے فاش غلطی کرڈالی۔ اس کلپ میں ایک حملہ آور ڈرے سہمے ایک طالب علم سے پوچھتا ہے ’’کیا یہ آئی ایس آئی کا مرکز ہے؟‘‘ طالب علم کہتا ہے کہ خدا کے لیے اس کی جان بخش دو۔ حملہ آور بولتا ہے ’’اگر تم سچ بتادو کہ یہ ایجنسی کا دفتر ہے یا نہیں، تو میں تمہیں چھوڑ دوں گا۔‘‘

یہ ویڈیو کلپ اس امر کا ثبوت ہے کہ تحریک طالبان کی قیادت نے خودکش حملہ آوروں سے فراڈ کیا۔ انہیں یہ تاثر دیا گیا کہ وہ آئی ایس آئی کے تربیتی مرکز پر دھاوا بولنے جارہے ہیں۔ حقیقت میں یہ زراعت سے متعلق ایک تعلیمی مرکز تھا۔ اس قسم کی دھوکے بازی اسلامی جنگی اصولوں کے بالکل برعکس ہے۔ یہ واضح کرتی ہے کہ تحریک طالبان کی قیادت مفاد پرستوں کا ٹولہ ہے جو اپنے مقاصد کے حصول کی خاطر پاکستانیوں کا بے دریغ خون بہا رہا ہے۔

وطن عزیز میں مشہور ہے کہ پولیس ایک کرپٹ ادارہ ہے۔ طاقتور کی چاکری کرنا اور کمزور کو دبانا اس کا وتیرہ ہے۔ کہیں جرم ہو تو پولیس کئی گھنٹے بعد وہاں پہنچتی اور بڑی بے دلی سے کارروائی کا آغاز کرتی ہے۔ مگر زرعی تربیتی مرکز پر خودکش حملے نے اہل پاکستان پر یہ مثبت تبدیلی آشکارا کردی کہ کم از کم خیبر پختونخوا میں پولیس نمایاں طور پر تبدیل ہوچکی۔

پشاور پولیس کی عمدہ کارکردگی
ہوا یہ کہ حملے کے صرف پانچ منٹ بعد پولیس زرعی تربیتی مرکز پہنچ گئی۔ یہی نہیں، پہنچتے ہی پولیس نہایت سرگرمی، دانش مندی اور دلیری سے حملہ آوروں کا مقابلہ کرنے لگی۔ خاص بات یہ کہ پولیس افسروں نے اپنے جوانوں کی قیادت کی اور میدان جنگ میں آگے آگے رہے۔ ان کی فرض شناسی اور بہادری نے سبھی کے دل موہ لیے۔پشاور پولیس کے بروقت اور فوری اقدامات سے ظالم حملہ آور اپنے منصوبے پر عمل درآمد نہ کرسکے اور چوہوں کی طرح چھپنے پر مجبور ہوگئے۔ دلیر پولیس نے پھر ان بزدلوں کو اپنا نشانہ بنالیا۔ یوں پولیس نے سینکڑوں طلبہ کی قیمتی جانیں بچالیں اور سرکاری تنصیبات کو بھی بڑی تباہی سے محفوظ رکھا۔

حقیقت یہ ہے کہ دہشت گردوں اور مجرموں کے سامنے پہلی دیوار پولیس کی ہی ہوتی ہے۔ اگر پولیس افسر و جوان ذمے دار، محب وطن اور فرض شناس ہوجائیں تو دہشت گرد اور مجرم کبھی یہ دیوار پار نہیں کرسکتے۔ یہ دیوار پھر معاشرہ مضبوط و مستحکم کرنے کی پہلی اینٹ ثابت ہوسکتی ہے۔ زرعی تربیتی مرکز میں پولیس افسروں اور جوانوں نے جس عمدگی کے ساتھ خودکش حملہ آوروں کا مقابلہ کیا، اس کی داستان سبق آموز اور بڑی امید افزا ہے۔

زرعی تربیتی مرکز کے قریب ترین ریگی پولیس اسٹیشن واقع ہے۔ جب مرکز میں قتل عام شروع ہوا، تو کسی باشعور طالب علم نے ریگی پولیس اسٹیشن فون کرکے حملے کی بابت بتایا۔ اسٹیشن انچارج ،انسپکٹر عمران صرف پانچ منٹ میں اپنی فورس لیے وہاں پہنچ گئے۔ انسپکٹر عمران بطور کانسٹیبل 2009ء میں خیبرپختونخوا پولیس کا حصہ بنے تھے۔ وہ اپنی محنت، ذہانت اور فرض شناسی کے باعث ترقی کی منازل طے کرتے چلے گئے۔ انہوں نے دہشت گردی سے نمٹنے کی خصوصی تربیت پائی۔ عمران نے پھر دہشت گردوں کے ساتھ انجام پائے کئی مقابلوں میں حصہ لیا۔ ان مقابلوں کی یادگار… زخموں اور داغوں کو وہ اپنے میڈل سمجھتے ہیں۔ تجربے اور دلیری کی بدولت ان کا شمار صوبے کے بہترین پولیس افسروں میں ہونے لگا۔

زرعی تربیتی مرکز پہنچتے ہی انسپکٹر عمران سرگرم عمل ہوگئے۔ ان کے جوانوں نے مرکز کا محاصرہ کرلیا۔ اس دوران فوج اور پولیس کے دیگر افسر بھی اپنی ٹیمیں لیے وہاں پہنچ گئے۔ ان میں پشاور پولیس کے سربراہ طاہر خان اور ایس ایس پی آپریشنز سجاد خان شامل تھے۔ سجاد خان شبینہ لباس ہی میں چلے آئے تھے تاکہ اپنے فرض کو بروقت ادا کرسکیں۔ان دونوں افسروں نے بھی گنیں سنبھالیں اور اپنے جوانوں کو ہدایات دینے لگے۔ان کی دلیری نے جوانوں میں بھی بجلی کی لہر دوڑا دی اور وہ پامردمی سے حملہ آوروں کا مقابلہ کرنے لگے۔

سب سے پہلے مرکز کے پچھلے حصے کی دیوار بکتر بند گاڑی کے ذریعے توڑی گئی تاکہ وہاں محصور طلبہ نکالے جاسکیں۔ اس کے بعد فیصلہ ہوا کہ نشانچیوں یعنی سنائپرز کے ذریعے حملہ آوروں کو اڑایا جائے، مگر یہ تدبیر کارگر ثابت نہ ہوئی۔ تاہم اس کارروائی نے دہشت گردوں کو ہوسٹل کے مخصوص حصوں تک محصور کردیا اور وہ دیگر کمروں میں خون کی ہولی نہ کھیل سکے۔

یہ یقینی ہے کہ اگر پولیس اور دیگر سکیورٹی فورسز کے جوان چند منٹ میں وہاں نہ پہنچتے، تو پشاور سکول حملے کی طرح زرعی تربیتی مرکز میں مقتولین کی تعداد کہیں زیادہ ہوتی۔ مگر ہمارے بہادر جوانوں کی بروقت کارروائی کے باعث دہشت گردوں کو کھل کر کھیلنے کا موقع نہیں مل سکا، تاہم وہ نو طلبہ سمیت تیرہ افراد کو شہید کرنے میں کامیاب رہے۔

ہوسٹل پہ دھاوا
اس موقع پر انسپکٹر عمران نے یہ تجویز دی کہ وہ اپنے جوانوں سمیت ہوسٹل کے اندر داخل ہوجاتے ہیں۔ ظاہر ہے، جتنی زیادہ دیر ہوتی، حملہ آور کو موقع مل جاتا کہ وہ مزید طلبہ شہید کرسکیں۔ اسی لیے سی سی پی او طاہر خان نے انسپکٹر کو یہ نہایت خطرناک قدم اٹھانے کی اجازت دے دی۔ انسپکٹر عمران نے یوں معصوم طلبہ کو بچانے کی خاطر اپنی زندگی داؤ پر لگادی۔ انہوں نے بحیثیت پولیس افسر ذمے داری اور فرض شناسی کی اعلیٰ مثال قائم کی۔

اس وقت تک یہ معلوم نہ تھا کہ ہوسٹل میں کتنے دہشت گرد موجود ہیں۔ تاہم سکیورٹی فورسز یہ ضرور جان چکی تھیں کہ انہوں نے بارود سے بھری جیکٹیں پہن رکھی ہیں۔ لہٰذا انہیں مارنے کے لیے ضروری تھا کہ ان کے سر میں گولیاں ماری جائیں ورنہ جیکٹیں پھٹ کر مزید جانی و مالی نقصان کا باعث بن جاتیں۔انسپکٹر عمران سب سے پہلے ہوسٹل کی نچلی منزل میں داخل ہوئے۔ پیچھے ان کے جوان انہیں کور کررہے تھے۔ ایک دہشت گرد وہیں موجود تھا۔ اس نے پولیس کو دیکھتے ہی فائر کھول دیا۔ انسپکٹر عمران نے چابک دستی سے خود کو بچایا اور اس پر اپنی گن سے ایسا برسٹ مارا کہ گولیاں حملہ آور کی کھوپڑی میں لگیں اور وہ وہیں ڈھیر ہوگیا۔

اس دوران فائرنگ کی آوازیں سن کر دو اور دہشت گرد وہاں آپہنچے۔ انہوں نے آتے ہی پولیس پر دستی بم اچھال دیئے۔ بم حملے نے تین جوان زخمی کر دیئے۔ انسپکٹر عمران نے ستون کی آڑ لے کر خود کو بچایا اور دہشت گردوں پر فائرنگ کرنے لگے۔ اب زبردست دوطرفہ مقابلہ شروع ہوگیا جو دیر تک جاری رہا۔

آخر انسپکٹر عمران کا اسلحہ ختم ہوگیا۔ مگر وہ پریشان نہیں ہوئے اور اپنے اعصاب قابو میں رکھے۔ قریب ہی پہلے دہشت گرد کی لاش پڑی تھی۔ اس کی اے کے 47 گن اور میگزین بھی سامنے ہی پڑے تھے۔ انسپکٹر عمران نے پھرتی سے وہ گن اور میگزین سنبھالے اور پھر اپنی پوزیشن سنبھال لی۔ انہوں نے پھر بذریعہ وائرلیس باہر اطلاع بھجوائی کہ مزید اسلحہ اور کمک بھجوائی جائے۔

ادھر طویل مقابلے نے حملہ آوروں کے اعصاب شل کردیئے تھے۔ تنگ آکر ایک دہشت گرد اپنی کمین گاہ سے باہر نکلا اور پولیس پر دستی بم پھینکنا چاہا۔ مگر انسپکٹر عمران تو اسی موقع کی تاک میں بیٹھے تھے۔ انہوں نے نشانہ باندھ کر گولی چلائی، تو اس نے حملہ آور کا بھیجا اڑا دیا۔دو دہشت گردوں کی موت نے سبھی جوانوں کے حوصلے بلند کردیئے۔ اب لگتا تھا کہ ہوسٹل میں ایک دہشت گرد ہی رہ گیا ہے۔ وجہ یہ کہ صرف ایک جانب ہی سے وقتاً فوقتاً فائرنگ ہورہی تھی۔

اچانک انسپکٹر عمران نے دیکھا کہ تیسرا دہشت گرد فرار ہونے کی کوشش کررہا ہے۔ وہ اپنے جوانوں سمیت اس کے تعاقب میں دوڑ پڑے۔ ہوسٹل کے پچھواڑے جری جوانوں نے اسے بھی ٹھکانے لگادیا۔ اس طرح تمام حملہ آور جہنم رسید ہوگئے۔

افغان حکمران ہوش کریں
جب یہ آپریشن پایہ تکمیل کو پہنچا، تو پولیس اور فوج کے سبھی افسروں نے بہترین کارکردگی اور بہادری دکھانے پر انسپکٹر عمران اور ان کے جوانوں کو خراج تحسین پیش کیا۔ جب سوشل میڈیا کے ذریعے ان کا کارنامہ عام ہوا، تو عوام نے بھی انہیں خوب سراہا اور اظہار مسرت کیا۔ ایسے ہی محب وطن اور فرض شناس لوگ ملک و قوم کے اصل ہیرو ہیں۔

جب ہوسٹل میں فائرنگ بند ہوگئی، تو فوج اور پولیس کی ٹیمیں ہر کمرے کی تلاشی لینے لگیں۔ یہ عین ممکن تھا کہ کوئی بزدل دہشت گرد کہیں چھپا بیٹھا ہو۔ تاہم عمارت حملہ آوروں سے پاک پائی گئی۔ زندہ بچ جانے والے سبھی طلبہ اور دیگر لوگوں کو بحفاظت نکال لیا گیا۔

پشاور کے زرعی تربیتی مرکز پر حملہ اس امر کا ثبوت ہے کہ افغانستان میں چھپے بیٹھے تحریک طالبان کے لیڈر پاکستان دشمن قوتوں خصوصاً بھارتی خفیہ ایجنسی را کے مالی اور لاجسٹک تعاون سے پاکستانی حکومت اور قوم پر حملے کررہے ہیں۔ یہ وقت کا تقاضا ہے کہ افغان حکومت تحریک طالبان کے لیڈروں کے خلاف ٹھوس کارروائی کرے اور انہیں اپنی سرزمین پر دہشت گردی نہ کرنے دے۔ اگر افغان حکومت نے کوئی ٹھوس سرگرمی نہ دکھائی، تو پھر مجبوراً پاکستانی سکیورٹی فورسز کوئی انتہائی قدم اٹھاسکتی ہیں۔ ظاہر ہے، قومی سلامتی کو درپیش خطرات سے نپٹنے کے لیے بعض اوقات ٹیڑھی انگلیوں سے بھی گھی نکالنا پڑ جاتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔