کیا آج کسی کو وفاداران پاکستان کا احساس ہے؟

جواد اکرم  ہفتہ 16 دسمبر 2017
بنگلہ دیش میں محصورین پاکستان کی حالت زار کا ذکر کریں تو ان کی تکالیف لفظوں میں بیان کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

بنگلہ دیش میں محصورین پاکستان کی حالت زار کا ذکر کریں تو ان کی تکالیف لفظوں میں بیان کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

ماہ دسمبر ہر سال پاکستان کی تاریخ پر لگے شدید ترین زخموں کو تازہ کردیتا ہے۔ سقوط ڈھاکہ ایک ایسا المیہ ہے جسے کوئی بھی محب وطن پاکستانی چاہے بھی تو بھلا نہیں سکتا۔ کیا ہوا؟ کیوں ہوا؟ کون کتنا قصور وار تھا؟ کون غدار تھا؟ کون اقتدار کا لالچی تھا؟ اس پر بہت بحث ہوچکی لیکن نہیں ہوئی تو یہ بحث کہ کون کتنا محب وطن تھا؟

یہ محب وطن، وفادارانِ پاکستان وہ بنگالی اور بہاری مہاجرین تھے جو نہ صرف آخر دم تک مشرقی پاکستان کو علیحدہ ہونے سے بچانے کےلیے مکتی باہنی اور ہندوستانی فوجوں سے پاکستانی فوج کے شانہ بشانہ لڑتے رہے، مرتے رہے، بلکہ سقوط ڈھاکہ کے بعد بھی آج تک بنگلہ دیش میں ہر طرح کا شدید ترین ظلم برداشت کرتے چلے آرہے ہیں لیکن آج بھی ان کی زبان پر ایک ہی نعرہ ہے: ’’پاکستان زندہ باد!‘‘

1971 کی جنگ کے بعد مکتی باہنی نے نہ صرف ان وفاداران پاکستان کو بے دردی سے قتل کیا بلکہ بے شمار عورتوں کا دامنِ عصمت تار تار بھی کیا۔ بہاری مسلمانوں کو جنگ کے بعد بنگلہ دیش نے انتہائی غلیظ کیمپوں میں زندگی گزارنے پر مجبور کردیا جہاں آج تک وہ کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ کچھ بہاری مہاجرین کو حکومت پاکستان نے جنگ کے بعد پاکستان منتقل کیا تھا لیکن بعد میں آنے والے حکمرانوں نے اندرونی مسائل کا رونا رو کر باقی رہ جانے والے، لاکھوں کی تعداد میں، ان پاکستانیوں کو بھلا دیا۔

بہاری مہاجرین کے علاوہ جن لوگوں نے اسلام کے نام پر قائم ہونے والے ملک پاکستان کو ٹوٹنے سے بچانے کےلیے اپنا سب کچھ قربان کیا وہ زیادہ تر جماعت اسلامی کے رہنما اور کارکن تھے۔ بنگلہ دیش جماعت اسلامی کے مطیع الرحمٰن نظامی، میر قاسم علی، علی احسن محمد مجاہد، عبدالقادرملا، محمد قمرالزماں اور بنگلہ دیش نیشنل پارٹی کے صلاح الدین قادر چوہدری، یہ وہ رہنما ہیں جنہیں حالیہ برسوں میں شیخ مجیب الرحمٰن کی بیٹی، شیخ حسینہ واجد نے، پاکستان سے وفاداری کی سزا دیتے ہوئے، ان کے بڑھاپے میں پھانسی چڑھا دیا۔ حکومت پاکستان نے ان پھانسیوں پر احتجاج کیا تو غیر تو غیر، ملک کے اندر موجود انسانی حقوق کے علمبرداروں نے بھی اس احتجاج کے خلاف واویلا شروع کردیا۔ مطیع الرحمٰن کی پھانسی کے بعد تو ترکی نے بھی احتجاج کرتے ہوئے اپنا سفیر بنگلہ دیش سے واپس بلا لیا تھا۔ ان رہنماؤں کے علاوہ بے شمار جانثاران اور بھی ہیں جن کا ذکر کرنا چند سطروں میں ممکن ہی نہیں۔

محصورین پاکستان کی حالت زار کا ذکر کریں تو ان کی تکالیف لفظوں میں بیان کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔ یہ پاکستانی انتہائی تنگ و تاریک، غلیظ، پر ہجوم کیمپوں میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ بنگلہ دیشی شہریت نہ ہونے کی وجہ سے یہ تعلیم حاصل نہیں کرسکتے۔ کوئی سرکاری ملازمت حاصل نہیں کرسکتے۔ ان کے کوئی حقوق نہیں۔ یہ انتہائی کم اجرت پر سخت ترین اور خطرناک ترین کام کرنے پر مجبور ہیں۔ کچھ سال پہلے بنگلہ دیشی حکومت نے تھوڑے سے محصورین پاکستان کو بنگلہ دیشی شہریت دی لیکن لاکھوں محصورین اب بھی اس آس پر زندہ ہیں کہ پاکستان گزشتہ 38 سال سے جہاں تیس سے چالیس لاکھ افغان بھائیوں کو پناہ دے سکتا ہے، وہاں ان چار سے پانچ لاکھ پاکستانیوں کو بھی ایک دن وطن بلا لے گا۔

لیکن انتہائی افسوس اور دکھ کی بات یہ ہے کہ 2015 میں پاکستانی دفتر خارجہ یہ اعلان کر چکا ہے کہ باقی رہ جانے والے محصورین، حکومت پاکستان کی ذمہ داری ںہیں بلکہ بنگلہ دیش کی حکومت کی ذمہ داری ہیں۔ اب یہ محصورین پاکستان جائیں تو جائیں کہاں؟ کیا اب بھی کسی کو ان کی پاکستان سے وفاداری پر شک ہے؟ 1971 سے 2017 تک چھیالیس سال بیت گئے۔ اب تو ان وفاداران پاکستان کی تیسری نسل بھی ہوش سنبھال چکی۔ جب وہ اپنے بزرگوں سے پوچھتے ہوں گے کہ وہ کیسا دیس ہے جس کےلیے کل تم اور آج ہم قربان ہورہے ہیں تو وہ نجانے کیا سوچ کر چپ ہوجاتے ہوں گے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لئے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

جواد اکرم

جواد اکرم

مصنف سیاسی، سماجی، قومی اور بین الاقوامی امور کے تجزیہ نگار ہیں جبکہ انہوں نے بین الاقوامی تعلقات میں ماسٹرز کیا ہوا ہے۔ ان سے ای میل ایڈریس [email protected] اور ٹوئٹر ہینڈل @jawad5677 پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔