شام کا بحران حل کرنے کی کوششیں بے نتیجہ

ایڈیٹوریل  اتوار 17 دسمبر 2017
 شام کے بحران پر پیرس میں بھی مذاکرات ہو چکے ہیں ۔ فوٹو/ اے ایف پی/ فائل

شام کے بحران پر پیرس میں بھی مذاکرات ہو چکے ہیں ۔ فوٹو/ اے ایف پی/ فائل

شام کے داخلی بحران کے حل کی کوششیں کامیاب ہوتی نظر نہیں آ رہیں۔ اقوام متحدہ کے جن حکام کو اس مسئلہ کا حل نکالنے کا کام سونپا گیا تھا انھوں نے اس حوالے سے مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے شام کی حکومت پر عدم تعاون کا الزام عاید کیا ہے اس کے ساتھ ہی روس کو بھی مداخلت کا ذمے دار قرار دیا ہے۔

سوئٹزر لینڈ کے دارالحکومت جنیوا میں ہونے والے امن مذاکرات کے تازہ دور میں بتایا گیا ہے کہ اس سات سال کے عرصے پر پھیلے بحران کے نتیجے میں ساڑھے تین لاکھ سے زیادہ افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ امن مذاکرات کے آٹھ دور ہو چکے ہیں جن کے بارے میں اقوام متحدہ کے مصالحت کار اسٹافن ڈی مستورا نے بتایا ہے کہ شامی بحران کے بنیادی پہلوؤں پر تو بات ہی نہیں ہوئی جس کی وجہ سے مجھے مایوسی ہوئی ہے اور اس کی ذمے داری شام کی حکومت پر عاید ہوتی ہے جس نے مذاکرات میں شامل ہونے سے انکار کر کے قیام امن کا ایک سنہری موقع کھو دیا ہے۔

مستورا کی زیرنگرانی مذاکرات کے سات دور ہو چکے ہیں مگر ان کا کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوا۔ ان کی زیرنگرانی متحارب قوتوں نے ایک بار بھی مذاکرات میں شرکت نہیں کی ورنہ کامیابی کی کچھ امید پیدا ہو سکتی تھی۔ شامی صدر بشارالاسد کو مذاکرات میں شرکت کی بار بار دعوت دی گئی جو انھوں نے ہر بار مسترد کر دی۔ اقوام متحدہ کے زیراہتمام ہونے والے مذاکرات کے متوازی روس کے زیراہتمام مذاکرات بھی ہو رہے ہیں مگر ان کا بھی کوئی مثبت نتیجہ نکلتا نظر نہیں آ رہا۔

واضح رہے شام کے بحران پر پیرس میں بھی مذاکرات ہو چکے ہیں۔ پیرس مذاکرات کے نگران کریم بطار نے کہا ہے کہ روس کے زیراہتمام ہونے والے مذاکرات ایک اعتبار سے ’’بستر مرگ‘‘ پر پڑے ہوئے مریض کے مترادف ہیں جو جلد ہی دم توڑ جائیں گے۔ روس نے شام کے مسئلہ کے حل کے لیے 2015ء میں مذاکرات میں شمولیت اختیار کی تھی جس دوران بشارالاسد حکومت کو ہتھیار بھی فراہم کیے گئے جس کی وجہ سے شام کا باغیوں پر قدرے غلبہ ہو گیا۔

مبصرین کے مطابق باغیوں کو ایران کی پشت پناہی حاصل ہے۔ مذاکرات شروع کرانے میں ترکی نے بھی اپنا کردار ادا کیا ہے۔ سفارتکاروں نے بتایا ہے کہ روس کے زیراہتمام بحراسود کے تفریحی مقام پر اگلے برس مذاکرات کا نیا دور منعقد ہو گا جس کے نتیجے میں بشار حکومت پر دباؤ میں کمی کا امکان ہے لیکن جہاں تک مذاکرات کی کامیابی کا تعلق ہے تو اس کی وجہ ابھی تک نمایاں نہیں ہوسکی۔

اب اقوام متحدہ کے مذاکرات کار مسٹر مستورا نے روسی صدر ولادی میر پیوٹن پر زور دیا ہے کہ وہ بشارالاسد کو اقوام متحدہ کے زیراہتمام ہونے والے مذاکرات میں شرکت پر مجبور کریں تاکہ شامی بحران کا کوئی ممکنہ حل برآمد کیا جا سکے۔ انھوں نے کہا کہ مقامی سطح پر فائر بندی پر عمل درآمد کرانا بنیادی اقدامات میں شامل ہے۔ شام میں اسٹیک ہولڈرز کا تو کچھ نہیں بگڑ رہا لیکن عام آدمی تباہ ہو گیا ہے‘ شام کا بحران اسی وقت حل ہو سکتا ہے جب متحارب فریق خود احتسابی کا مظاہرہ کریں اور غیرملکی قوتوں کا آلہ کار نہ بنیں۔

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔