سانحہ آرمی پبلک اسکول، 3 سال بیت گئے

ایڈیٹوریل  اتوار 17 دسمبر 2017
پاک فوج، رینجرز، پولیس، لیویز، ایف سی اور انٹیلی جنس اداروں سمیت شہریوں نے جانیں قربان کیں ۔ فوٹو : فائل

پاک فوج، رینجرز، پولیس، لیویز، ایف سی اور انٹیلی جنس اداروں سمیت شہریوں نے جانیں قربان کیں ۔ فوٹو : فائل

16دسمبر 2014ء پشاور سمیت ملکی سیاسی، سماجی، عسکری اور قومی تاریخ کا ایک انتہائی المناک باب ہے، جب تحریک طالبان پاکستان کے دہشتگردوں نے تمام انسانی اقدار، اسلامی تعلیمات اور ریاستی رٹ کو روندتے ہوئے آرمی پبلک اسکول پر حملہ کیا، جس میں144افراد شہید ہوئے جس میں 132 معصوم طالب علم، اساتذہ، معلمات اور اسکول کے ملازمین شامل تھے۔

ملکی تاریخ کی اس ہولناک اور انتہائی ظالمانہ و بزدلانہ واردات نے پورے ملک کے ضمیر کو جھنجھوڑ کے رکھ دیا جب کہ سیاسی و عسکری قیادت نے مکمل ہم آہنگی کے ساتھ اس عزم کا اظہارکیا کہ اب آخری دہشتگرد کے خاتمہ تک جنگ جاری رہے گی، چنانچہ آپریشن ضرب عضب جو کچھ عرصہ سے جاری تھا اور اس میں شمالی و جنوبی وزیرستان میں دہشتگردوں کے خفیہ ٹھکانوں کو تہس نہس کردیا گیا تھا، ان کے کمانڈر ہلاک اور بارود خانے، سرنگیں، غار، اسلحہ فیکٹریاں تباہ کی جاچکی تھیں، اس لیے آرمی پبلک اسکول کے خلاف حملہ دہشتگردوں کے شدید ردعمل کا شاخسانہ قرار دیا گیا اور اس میں پوری قوم نے سیاسی و عسکری قیادت کے ساتھ مکمل یکجہتی کا بے مثال ثبوت دیا، نیشنل ایکشن پلان بنا، ملک گیر آپریشنز شروع ہوئے جس میں دہشتگردوں کو چن چن کر ان کے سلیپنگ سیلز اور خفیہ ٹھکانوں سے نکال کر مارا گیا۔

سانحہ آرمی پبلک اسکول کو آج 3 سال بیت چکے ہیں۔ میڈیا کے مطابق اس دوران 1584 دہشتگرد گرفتار کیے گئے جب کہ 167 ایسے خطرناک دہشتگرد بھی گرفتار یا مارے جاچکے ہیں جن کے سروں کی قیمت مقرر کی گئی تھیں۔ 16 دسمبر 2014ء کو آرمی پبلک اسکول پر حملے کے بعد قومی سیاسی وعسکری قیادت کی ہدایت پر مستقبل میں ایسے واقعات سے نمٹنے کے لیے نیشنل ایکشن پلان کے تحت اب تک 10 لاکھ مکانات کی تلاشی لی گئی جب کہ بغیر دستاویزات کے کرائے پر رہنے والے 36 ہزار افراد کے خلاف مقدمات درج ہوئے۔

عوامی مقامات پر سیکیورٹی کے انتظامات نہ کرنے پر 7 ہزار سے زیادہ افراد کے خلاف مقدمات درج کیے گئے ہیں۔ ملک میں غیر قانونی طور پر رہائش پذیر 35 ہزار سے زیادہ افغانیوں کو گرفتار کرکے بے دخل کیا گیا ہے۔ فرقہ وارانہ سرگرمیوں میں ملوث ہونے کے شبے میں5221 افراد کی تاحال نگرانی کی جارہی ہے، صوبے میں تقریباً 39 ہزار سرچ آپریشنز کرکے تقریباً 6 لاکھ سے زیادہ مشکوک اور مشتبہ افراد کو گرفتار کیا گیا۔ تاہم اے پی ایس سانحہ کی شدت، الم ناکی اور معصوم بچوں کی بہیمانہ ہلاکت سے عوام نے جس صدمہ اور غصہ کا اظہار کیا اس کے پیش نظر لازم تھا کہ دہشتگردی کے خلاف زیروٹالرنس کی پالیسی اختیار کی جاتی، بلاشبہ سیکیورٹی حکام نے بلاامتیاز کارروائی کی۔

پشاور قتل عام کے بعد پاک فوج کے افسروں اور جوانوں سمیت مادر وطن کی سلامتی پر جان نثار کرنے والے شہریوں کی قربانیوں کے بے شمار چراغ روشن ہیں، مگر دہشتگردوں کو سرِ دار لٹکانے کے باوجود ان کی باقیات ابھی تک وارداتوں میں سیکیورٹی حکام کو چکمہ دے کر اہداف تک پہنچ جاتی ہیں، واضح رہے دہشت گردوں کے سامنے نہتے طالب علم سیسہ پلائی ہوئی دیوار بنے رہے اور انھوں نے ساتھیوں کو بچانے کے لیے جام شہادت نوش کیا، جو اس بات کی دلیل ہے کہ دہشتگردی کے خلاف ابھی جنگ مزید شدت کے ساتھ لڑی جانی چاہیے۔

سانحہ آرمی پبلک اسکول کے شہداء کی تیسری برسی کے موقع پر وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ 16دسمبر (دہشتگردی کے حوالہ سے) ملکی تاریخ میں یوم سیاہ کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔ وزیراعظم نے کہا کہ پاکستانی قوم جیسی قربانیاں شاید ہی کسی دوسری قوم نے دی ہوں۔ دیگر سیاسی رہنماؤں کی جانب سے بھی اس سانحہ کی یاد میں اس بات پر زور دیا گیا کہ دہشتگرد، ان کے ماسٹر مائنڈز اور سہولت کاروں کی اکثریت ماری جاچکی ہے، مگر ان کے زخمی کیڈر ابھی زندہ ہیں اور ان کی بچی کچھی طاقت کو یکجا ہونے کی مہلت نہیں ملنی چاہیے۔

ضرورت اس امر کی ہے ارباب اختیار سنجیدگی سے اپنے کردار اور کارکردگی کا محاسبہ کریں، دو ٹوک سیاسی عزم و ارادہ اور غیر مشروط کارروائی کے عزم پر قائم رہنے کا عہد کریں تاکہ ملک سے دہشتگردی کے خاتمہ میں چاروں صوبوں کے عوام، قانون نافذ کرنے والے ادارے اور سیاسی جماعتوں کے اشتراک و تعاون سے ملک دہشتگردی کے ناسور اور عفریت سے پاک ہوسکے۔

حقیقت یہ ہے کہ دہشتگردی کے خلاف قربانیوں کی کہکشاں سب نے سجائی ہے، پاک فوج، رینجرز، پولیس، لیویز، ایف سی اور انٹیلی جنس اداروں سمیت شہریوں نے جانیں قربان کیں، ملکی معیشت اور جمہوری نظام کو متعدد بار شدید دھچکے لگے، سیاسی مصلحتیں بھی جاری رہیں، اچھے برے طالبان کے مخمصہ نے دہشتگردوںکی خاموش حمایت اور سہولت کاری کے دروازے بھی کھولے، دہشتگردوں سے مذاکرات کیے گئے مگر نتیجہ کچھ برآمد نہیں ہوا۔

اب ایک مشترکہ سٹریٹجی، فالٹ فری میکنزم تیار ہو، قومی عزم کے ساتھ دہشتگروں کے خلاف عملی کارروائیوں کی راہ میں کسی چیز کو رکاوٹ نہیں بننا چاہیے، جب کہ سیاسی و دینی جماعتیں، ریاستی ادارے، سیکیورٹی حکام اور سول سوسائٹی کو دہشتگردی کے خاتمہ، نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد، اور انتہاپسندی کے مکمل خاتمہ کے عہد کی از سر نو تجدید کرنی چاہیے۔

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔