لہو لہو دسمبر…

شیریں حیدر  اتوار 17 دسمبر 2017
Shireenhaider65@hotmail.com

[email protected]

تین سال پہلے… 16 دسمبر کا دن عام انداز میں شروع ہوا- پہلا پیریڈ ختم ہوتے ہی پرنسپل صاحبہ کے دفتر سے بلاوا آیا، وہاں پہنچ کر ٹیلی وژن اسکرین پر جو مناظر نظر آئے ان پر یقین نہ آرہا تھا… کوئی ابہام سے ابہام کی کیفیت تھی، پشاور میں آرمی پبلک اسکول پر دہشت گردوں کا حملہ- ہاہ!! کیا مقام چنا تھا بد بختوں نے ، اتنا طاقت ور بننے والا دشمن کس پر وار کر رہا تھا؟ جن کے سامنے تن کر کھڑے ہونے کی جرات نہ تھی، ان کے بچوں پر یوں سفاکانہ حملہ کر کے ان کی کمر توڑنے کا گھناؤنا منصوبہ بلاشبہ کسی انتہائی شیطانی ذہن کی اختراع تھا- چند لمحوں میں ہی اسکول کے تینوں نمبروں پر اور اسکول کی انتظامیہ کے ذمے داروںکے موبائل ٹیلی فونوں کی گھنٹیاں خطرے کے الارم کی طرح بجنے لگیں- جو بھی ٹیلی وژن آن کر رہا تھا، نہ صرف وہ خود خوفزدہ ہو رہا تھا بلکہ ہر جاننے والے کو پوری طرح خوفزدہ کر رہا تھا- وہ سب اسکول کے حفاظتی انتظامات سے غیر مطمئن نظر آتے تھے اور اپنے بچو ں کو واپس اپنے گھر میں، اپنی نظر کے سامنے اور اپنی پناہ میں لے جانا چاہتے تھے-

ایک ایسے ادارے میں ، جو اس ادارے سے سیکڑوں کلومیٹر کی مسافت پر تھا، جہاں اس وقت قیامت بپا تھی- ہمارے بچوں کے والدین بھی اسی طرح اپنے بچوں کو لے کر بھاگ رہے تھے جیسے کہ حملہ کہیں قریب ہی ہوا ہو- ہاں قریب ہی تو تھا!! ہر وہ سانحہ جو آپ کے اعتماد کو متزلزل کر دے، خوف میں مبتلا کر دے، دھڑکنوں کو اتھل پتھل کر دے، وہ ہمارے قریب نہیں بلکہ ہمارے اندر بپا ہوتا ہے- بے چین نظروں کو ٹیلی وژن اسکرین پر فقط وہ مناظر نظر آ رہے تھے جس میں صرف اس اسکول کا بیرونی علاقہ دکھایا جا رہا تھا، اندر کیا ہو رہا تھا، اسے جاننا نہ ہم سیکڑوں کلو میٹر دور بیٹھے ہوئے لوگوں کے لیے ممکن تھا اور نہ ان روتی بلکتی ماؤں کے لیے کہ جن کے لال اندر گولیوں سے بھن رہے تھے- کتنے ہی معصوم، جنھوں نے کبھی دہشتگرد لفظ کے مطلب کو بھی نہ سمجھا تھا، جنھیں صرف یہ سبق پڑھایا جاتا تھا کہ بچے معصوم ہوتے ہیں، پیارے اور کلیوں جیسے نازک ہوتے ہیں- انھیں کیا معلوم کہ ایک دن ان کی صفوں میں چند سفاک لوگ گھس آئیں گے اور ان پر یوں تڑ تڑ گولیوں کی برسات کر دیں گے- اسکول کا چپہ چپہ جہاں اس کے قہقہے اور خوشبو بکھری تھی، وہاں قدم قدم پر ان کا لہو، چیخیں اور کراہیں بس جائیں گی-

سکو ل کے باہر وہ دیواروں کے ساتھ لپٹ لپٹ کر چیخ رہے تھے جن کے جگر گوشے اور پیارے اس عمارت کے اندر قید ہو گئے تھے- انھیں اندر بلکہ عمارت کے قریب بھی جانے سے روکا جا رہا تھا کیونکہ اس سے نہ صرف کمانڈوز کے آپریشن میں رکاوٹ پڑتی بلکہ یہ ان سب کی زندگیوں کے تحفظ کا بھی معاملہ تھا- وہ زندگیاں جو بچ تو گئیں مگر ان میں سے روح ختم ہو گئی، جینے کی لگن مر گئی، جینا مشکل ہو گیا، ہر سانس غم کی کتنی تہوں سے ابھر کر سینے سے خارج ہوتی اور پھر واپس دفن ہو جاتی ہے- وہ جو اس عمارت کے باہر اس امید پر کھڑے اور بلک بلک کر اندر جانے کی اجازت مانگ رہے تھے، انھیں کیا معلوم تھا کہ اندر جا کر جو نظارہ منتظر نگاہ تھا، وہ باہر کھڑے ہو کر سسکنے اور بلکنے سے بھی برا تھا- انھیں اپنے پیاروں کو دیکھنا نصیب ہوتا یا نہیں… مگر جو نظارے ہم سے ٹیلی وژن اسکرین پر نہ دیکھے جارہے تھے وہ انھیں اپنی نظر کے سامنے دیکھنے والے تھے- لہو لہان، جوتے… لنچ باکس، بستے، کتابیں، کاپیاں ، کرسیاں ، میز، تختہ سیاہ، دیواریں ، فرش… اسی پر بس نہیں، انھیں وہ سب کچھ بھی دیکھنا پڑا جو وہ کبھی نہیں دیکھنا چاہتے تھے- ان کی لٹی ہوئی متاع جان!! ان کا سرمایہ، ان کی دولت ، ان کا آج اور ان کا مستقبل… ان کے خوابوں کی تعبیریں ، سب کچھ لہو لہان تھا- کون ہے جو ایسا نظارہ دیکھنا چاہے گا، اپنے جن پھول جیسے بچوں کو اپنے ہاتھوں سے سنوار کر علی الصبح اپنے گھروں سے حصول علم کے لیے بھیجا تھا، انھیں کیا معلوم تھا کہ انھیں دوبارہ انھیں ویسی صبح میسر نہ آنے والی تھی-

اسکول کی پرنسپل طاہرہ قاضی، گیارہ اساتذہ، بینش عمر، فرحت بی بی، حفصہ خوش، ہاجرہ شاری، سعدیہ گل خٹک، سحر افشاں ، صائمہ زرین، شہناز نعیم، صوفیہ حجاب، محمد سعید، نواب علی- لیبارٹری کے انچارج مدثر خان اور پرویز اختر ، ہیڈ کلرک محمد شفیق ، ایک کلرک اکبر زمان ، ایک ڈرائیور احسان اللہ، چوکیدار محمد بلال، مالی محمد حسین اور ظاہر شاہ ، نائب قاصد محمد سمیع، سپرٹنڈنٹ سجاد علی،لانس نائیک محمد الطاف، نائیک ندیم الرحمن نے بہادری اور شجاعت کی مثالیں قائم کرتے ہوئے ، کتنے معصوموں کی جانیں بچائیں اور اپنی جانیں نچھاور کر دیں – ہماری نظروں سے یہ سب اوجھل ہوگئے ہیں مگر یہ ہم سب کے دلوں میںآج بھی زندہ ہیں، ان کی روحیں پرندے بن کر سیدھی جنت کو گامزن ہوئیں اور یہ اپنی یادیں اس دنیا میں چھوڑ گئے-

طالب علموں میں عبداللہ غنی نواز، عدنان ارشد خان، احمد علی شاہ، احمد مجتبی، عمار اقبال، ارباب صدیق اللہ، ارحم خان، اسد عزیز، اویس احمد، باقر علی خان، باسط علی سردار، بلال علی، فہد حسین، فہد احمد،فضل الرحیم، گل شیر، حامد علی خان ، حامد سیف، حمزہ کامران، حا رث نواز، حسنین شریف خان، حیات اللہ، ہمایوں اقبال، محمد فرقان حیدر، محمد معظم علی، مبین اسلم قریشی، محمد اویس ناصر، محمد غسا ن خان ، حمزہ حماد عزیز، محمد حارث، محمد خوشنود زیب، محمد محسن مرتضی، محمد سلمان، محمد شہہیر خان، محمد طیب فواد، محمد عزیر خان، محمد واصف علی خٹک، ننگیال طارق، رضوان سریر خان ، صاحبزادہ عمر خان، سیف اللہ درانی، شہزاد اعجاز، شاہ زیب، شیر نواز، شہود عالم، سید حسنین علی شاہ، تنویر حسین، عمر ارشد، اسامہ بن طارق، وہاب الدین، یاسر اللہ، زرغام مظہر، ذیشان شفیق، ضیاء الاسلام ، آمش سلمان، ابرار حسین، عادل شہزاد، عدنان حسین، احمد الہی، علی عباس، عاطف الرحمن، اذان توریالے، حمزہ علی کاکڑ، محمد سہیل سردار، ماہیر رضوان غازی، ملک تیمور، محمد عالیان فوزان، محمد عبداللہ ظفر، محمد علی خان، محمد علی رحمن، محمد عمار خان، محمد شفقت، محمد وقار، مزمل عمر صدیقی، ندیم حسین، نوراللہ درانی، آفا ق احمد، سعد الرحمن شاہ، شاہ فہد، شہباز علی، شاہ موویل طارق، سہیل اسلم، سید ذوالقرنین، عزیر احمد، ذیشان علی، اسفند خان، بہرام احمد خان، فرحان جلال، حیدر امین، حسن زیب، حذیفہ آفتاب، محمد عمر حیات، ملک عثمان طاہر، مبین شاہ آفریدی، محمد اظہر نصیر، محمد صاحبان، محمد طاہر، محمد یسین، محمد ذیشان آفریدی، اسامہ ظفر، رفیق رضا بنگش، شایان ناصر، شیر شاہ، سید عبداللہ شاہ ثانی، عثمان صادق، ذیشان احمد، عبدلاعظم آفریدی، ایمن خان، عمران علی، اسحاق امین، محمد ابرار زاہد، مہر علی اعظم، محمد داؤد، محمد عمران، محمد زین اقبال، شفیق الرحمن، یاسر اقبال، ثاقب غنی، وسیم ا قبال اور خلود بی بی- ننھے شہیدوں کی یہ طویل فہرست، آج بھی دل کو خون کے آنسو رلا دیتی ہے-

کہتے ہیں کہ ایک باپ کے کندھے ٹوٹ جاتے ہیں جب اسے اپنی اولاد کاجنازہ اٹھانا پڑے، ’’smallest coffins are the heaviest ‘‘ اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا- یہ جنازہ ایک بچے کا نہیں ہوتا بلکہ ایک پوری نسل کے نمائندے کا جنازہ ہوتا ہے، جسے ابھی اپنے ماں باپ کے سپنوںمیں حقیقت کا رنگ بھرنا تھا، جس نے ابھی اپنی عمر کی چند ہی بہاریں دیکھی ہوتی ہیں- اس ننھی سی کونپل کو بالخصوص جب کوئی بے دردی سے یوں نوچ لے تو ا س کے حوالے سے سارے خواب کرچیاں بن کر ماں باپ کی آنکھوں کو عمر بھر جلاتے رہتے ہیں- ایسے سانحات ان والدین کے لیے ہی نہیں بلکہ پوری قوم کے لیے ایسا المیہ ہیں جن کی کسک کبھی ختم نہ ہونے والی ہے-

ماہ دسمبر کو اگر ملکی حالات کے تناظر میں، سیاسی طور پر بھی اور حادثات کے تناظر میں دیکھا جائے تو چند دن بچتے ہیں جب اس کے کیلنڈر پر کوئی لال یا کالا داغ نہیں ہوتا – اس ماہ میں ہمیشہ ایسے بڑے بڑے سانحے ہوئے ہیں جن میں ناقابل تلافی نقصانات ہوئے اور ان کا کوئی نعم البدل نہیں مل سکتا- اس سال بھی اس مہینے کا آغاز پشاور کے ایک اور تعلیمی ادارے میں لہو سے ایک نئی تاریخ رقم کر گیا- سولہ دسمبر 2014 کو ہونے والا یہ واقعہ ملک کے ہر تعلیمی ادارے کا نقشہ ہی بدل گیا- والدین اپنے بچوں کو اسکولوں میں غیر محفوظ سمجھنے لگے اور حکومت کو انھیں مطمئن کرنے کے لیے تمام سرکاری اور غیر سرکاری اسکولوں کو سخت ترین حفاظتی اقدامات کرنے کا حکم دیا-

تمام اسکولوں کی بیرونی دیواریں مضبوط اور بلند کرنا، ان پر خار دار تاریں لگانا، سیکیورٹی کیمروں کی تنصیب اور اضافی گارڈز کی بھرتی کو یقینی بنانے کے لیے احکامات جاری کیے گئے اور ان پرکسی حد تک عمل درآمد بھی ہوا مگر کیا یہ سب کچھ کرنے کے بعد بھی ایسے سانحات کا وقوع پذیر ہونا ختم ہوا؟ اگر نہیں تو اس کے اسباب کیا ہیں؟ نظام میں موجود سقم دور کرنے کی بہت اہم ضرورت ہے تا کہ پھر کسی سانحے کے نتیجے میں کوئی گود نہ اجڑے اور بالخصوص سانحہء پشاور جیسا سانحہ کہ جس کے نتیجے میں چشم فلک نے اس شہر میں ایک ساتھ اتنے جنازے دیکھے ہوں گے کہ ماضی میں اس کی مثال کوئی نہیں ہو گی، اللہ ہمیں مستقبل میں بھی ایسے نظاروں سے محفوظ رکھے- اس سانحے کے معصوم شہیدوں کی لحد پر اللہ تعالی کی ساری رحمتوں کا نزول ہو- آمین

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔