ایک اہم سوال کا جواب

ڈاکٹر نوید اقبال انصاری  اتوار 17 دسمبر 2017
apro_ku@yahoo.com

[email protected]

ایک اہم سوال جو بدلتی ہوئی عالمی صورتحال یا واقعات اور مسلمانوں کے حوالے سے کیا جاتا ہے، یہ سوال کیا ہے اور اس کا جواب کیا ہے؟ راقم کے خیال میں کچھ حقائق جاننے کے بعد ہی زیادہ بہتر طریقے سے سمجھ میں آسکتا ہے۔

قیام پاکستان سے پہلے کی ایک بلیک اینڈ وائٹ فلم بڑی مشہور ہوئی، جس میں ایک ماں اپنے بیٹے پر گولی اس لیے چلا دیتی ہے کہ وہ کسی لڑکی کے ساتھ غلط عمل کرتا ہے۔ یہ منظر دیکھنے والوں کو بڑا جذباتی کردیتا ہے اور فلم بین اس کی بڑی تعریف بھی کرتے ہیں۔ پاکستان کی پنجابی فلموں میں ایک معروف اداکار اکثر ہیرو کا کردار ادا کرتے ہوئے کسی بدمعاش کے آگے ڈٹ جاتا ہے اور تن تنہا اس بدمعاش اور اس کے ٹولے سے نمٹتا ہے، بلکہ کبھی کبھار تو وہ خالی ہاتھ ہی دشمن کی گولیوں کی برسات کا مقابلہ کرتے ہوئے دکھائی دیتا تھا، مگر مظلوم افراد اور اخلاقیات کا ساتھ دیتے ہوئے اسے کسی کی پرواہ نہیں ہوتی تھی۔

اسی طرح پاکستان کی ماضی کی اردو فلموں میں بھی ایسے ہی منظر دکھائی دیتے تھے، مثلاً معروف اداکار وحید مراد جیسا پتلا دبلا ہیرو بھی جب کسی لڑکی کو خطرناک غنڈوں میں گھرا ہوا پاتا ہے تو وہ کسی مرد آہن کی طرح خالی ہاتھ اس لڑکی کو بچانے کے لیے غنڈوں سے جا ٹکراتا ہے اور پھر جب غنڈے بھاگ جاتے ہیں تو سینما ہال میں بیٹھے ہوئے فلم بین تالیاں بجا کر خوشی کا اظہار کرتے ہیں۔

اداکار ندیم کی ایک فلم ’زندگی‘ بڑی کامیاب گزری ہے، اس فلم میں اداکار ندیم جب ایک عرصے بعد اپنے آبائی علاقے میں پہنچتا ہے تو اسے معلوم ہوتا ہے جرائم پیشہ عناصر کا ایک منظم اور بڑا گروہ منشیات اور جوئے کے اڈے کا کاروبار کر رہا ہے اور اس قدر طاقتور ہے کہ کوئی بھی اس سے ٹکر لینے کو تیار نہیں۔ اتفاق سے جب ہیرو ندیم کا اس گروہ سے آمنا سامنا ہوتا ہے تو ندیم باوجود دوستوں اور گھر والوں کے سمجھانے کے، اس گروہ سے ٹکرا جاتا ہے، یہاں تک کہ اس کا اکلوتا بیٹا اس لڑائی میں مارا جاتا ہے، مگر ندیم آخری سانس تک اس گروہ سے لڑتا ہے اور اس گروہ کے سرغنہ کو ختم کرکے ہی دم لیتا ہے۔

پاکستان ٹیلی ویژن پر ایک انگلش فلم سیریز ’سکس ملین ڈالر مین‘ کے نام سے ہر ہفتے پیش کی جاتی تھی اور عوام میں بے حد مقبول تھی۔ ہر ہفتے پیش کی جانے والی اس فلم کی کہانی میں مرکزی کردار سکس ملین ڈالر مین کسی نہ کسی مظلوم کی مدد کرتا اور ظلم کرنے والوں کے خلاف ڈٹ کر مقابلہ کرتا تھا۔ اسی طرح کے اور بھی کئی کردار انگلش فلموں کے ایسے ہیں کہ جن کا نام ذہن میں آتے ہی یہ تصور آتا ہے کہ وہ مظلوموں کی مدد کے لیے اپنی جان خطروں میں ڈال کر مظلوموں کی مدد کرتے ہیں۔ ’بائیونک بوائے‘، ’سپرمین‘ اور ’ٹارزن‘ وغیرہ کے تخیلاتی کردار بھی یہی کچھ کہانی بیان کرتے ہیں۔

’بالی ووڈ‘، ’لولی ووڈ‘ یا ’ہالی ووڈ‘ ہی کی بات نہیں، دنیا بھر میں جب جب بھی جہاں کہیں بھی فلم، تھیٹر اور ڈرامے بنائے گئے، پیش کیے گئے یا فلمیں بنائی گئیں اور وہ خواہ کمرشل ہوں یا نہ ہوں، سب میں ایک پیغام مشترک نظر آتا ہے کہ اچھی قوتیں ہمیشہ بدی کی قوتوں کو ختم کرنے کی کوشش کرتی ہیں یا مظلوموں کی مدد کرکے انصاف کا بول بالا کرنے کی کوشش کرتی ہیں اور یہ کوششیں بلامعاوضہ ’خیر‘ کے نام پر ہوتی ہیں۔یہ معاملہ صرف آرٹ یا فلموں اور ڈراموں تک ہی محدود نہیں ہے، بحیثیت مجموعی یہ انسانی فطرت بھی ہے۔

امریکا بھی جب کسی ملک پر بمباری کرکے لوگوں کو ہلاک کرتا ہے تو یہ جواز پیش کرتا ہے کہ وہ دنیا کو خطرناک اور ظالم قسم کے لوگوں سے نجات دلانے کے لیے یہ سب کچھ کر رہا ہے، خواہ حقیت اس کے برعکس ہی کیوں نہ ہو۔ امریکا کو بھی احساس ہے کہ رائے عامہ مظلوموں کے ہی ساتھ ہوتی ہے، ظالموں کے ساتھ نہیں۔ دنیا کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو کہیں ہمیں ہندوستان میں بادشاہ کا ایسا خادم نظر آتا ہے جو ایک بچے کو شیر سے بچانے کے لیے اپنی جان خطرے میں ڈال دیتا ہے، خالی ہاتھ شیر کے سامنے آکر بچے کو محفوظ کردیتا ہے، کہیں کوئی سپہ سالار سمندر پار کرکے ایک مظلوم لڑکی کی فریاد پر پوری سلطنت سے جنگ کرنے پہنچ جاتا ہے۔

بات یہ ہے کہ حق اور باطل کی ہمیشہ سے جنگ رہی ہے اور باطل سے ٹکرانے کے لیے نفع اور نقصان کو نہیں دیکھا جاتا، اصول کو دیکھا جاتا ہے۔ دنیا کی تاریخ یہی بتاتی ہے۔ اس کے باوجود اگر دنیا میں کہیں ظلم ہو اور اس پر آواز بلند کی جائے، خاص کر کہیں مسلم برادری پر ظلم ہو اور اس پر کوئی آواز بلند کرے تو نہ جانے کیوں یہ بات کی جاتی ہے اور یہ سوال اٹھایا جاتا ہے کہ ’کسی غیر کی آگ‘ میں ہم کیوں کودیں؟ کوئی یہ کہتا ہے کہ ’’کیا دنیا کے سارے مسلمانوں کے دکھ درد کا ٹھیکا ہم نے ہی لے رکھا ہے؟‘ ایک ممبر پارلیمنٹ نے تو ایوان میں بھی یہ بات کہہ دی کہ فلسطین کے مسئلے پر ہمیں کیا؟ یہ ہمارا مسئلہ نہیں۔

ہمارے ہاں ایسے دانشوروں کی کوئی کمی نہیں جو واقعی بہت روشن خیال ہیں اور دنیا کے ہر مسئلے پر آواز بھی بلند کرتے ہیں مگر جب کبھی بنگلہ دیش، روہنگیا وغیرہ میں مسلمانوں پر مظالم کا مسئلہ آتا ہے تو فوراً یہ سوال اٹھایا جاتا ہے کہ کیا سارے جہان کے مسلمانوں کا ٹھیکا پاکستان نے اٹھا رکھا ہے؟بات یہ ہے کہ حکمت عملی پر ضرور بحث ہونی چاہیے مگر یہ سوال کرنا کہ دنیا کے مسلمانوں پر ظلم کے خلاف پاکستان کیوں آواز بلند کرے؟ پہلے اپنے گھر کو کیوں نہ دیکھے؟ قطعی غلط اور غیر منطقی ہے۔

ظلم کے خلاف آواز اٹھانا انسانی فطرت ہے اور دینی لحاظ سے تو یہ ایمان کے تقاضوں میں شمار ہوتا ہے۔ فتح مکہ کے بعد اسلامی ریاست کا قیام اور پھر اس کی وسعت کیوں کی گئی؟ علما کے نزدیک اس وسعت کا مقصد ہی یہ تھا کہ زمین پر انصاف کا نظام قائم کیا جائے اور ظلم کے نظام کا خاتمہ کیا جائے۔ چنانچہ آپ ﷺ کی وفات کے بعد بھی اسلامی ریاست کی وسعت کا کام جاری رہا تاکہ زمین پر دور دور تک انصاف کا نظام قائم کیا جاسکے اور اسی مقصد کے لیے جان و مال کی قربانیاں دی گئیں اور علما کے نزدیک آج بھی زمین پر انصاف کا نظام قائم کرنا ایک مسلمان کا مشن ہونا چاہیے۔

چنانچہ اس نقطہ نظر سے اب دنیا بھر میں کہیں بھی ظلم ہو بحیثیت مسلم ہمیں انصاف کی بات تو کرنا ہوگی اور ناانصافیوں پر احتجاج بھی کرنا ہوگا۔ اور یہ کوئی انوکھی بات نہ ہوگی، یہ بات تو دنیا بھر کی قومیں بھی کرتی ہیں، دنیا بھر کا میڈیا بھی کرتا ہے، فلمیں اور ڈرامے و افسانے لکھنے والے بھی کرتے ہیں اور یہی تعلیم دیتے ہیں کہ ظلم کے خلاف آواز بلند کرو اور ظلم کے خلاف ڈٹ جاؤ۔

راقم کو اس وقت پی ٹی وی کے ایک ڈرامے کا وہ منظر اور اس کے ڈائیلاگ یاد آرہے ہیں کہ جب ایک لڑکا گھر میں داخل ہوتا ہے، اس کے سر پر پٹی لپٹی ہوئی ہوتی ہے اور وہ باپ کے پوچھنے پر بتاتا ہے کہ کسی لڑکی کو کوئی آوارہ لڑکا چھیڑ رہا تھا، اس نے لڑکی کی مدد کی تو سر پر چوٹیں آئیں۔ باپ غصے سے بیٹے کو مخاطب کرکے کہتا ہے کہ ’تمہیں پرائی آگ میں کودنے کی کیا ضرورت تھی؟‘ اس پر لڑکا جواب دیتا ہے کہ ’ابا بات پرائی آگ کی نہیں، میرے سامنے ظلم ہوتا رہے اور میں خاموش دیکھتا رہوں، آخر غیرت بھی کوئی چیز ہوتی ہے‘۔ کیا ہماری غیرت کا معیار دہرا ہے؟ آئیے اس اہم مسئلے پر غور کریں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔