جمہوریت کا حسن

عبدالقادر حسن  اتوار 17 دسمبر 2017
Abdulqhasan@hotmail.com

[email protected]

ان دنوں ہماری سیاست نگر نگر گھوم پھر رہی ہے کبھی یہ اسلام آباد میں تو کبھی دبئی میں اور اگلے ہی دن یہ پتہ چلتا ہے کہ ہمارے سیاستدان اپنے پسندیدہ مقام لندن میں جلوہ افروز ہو گئے ہیں اور پاکستان کی تقدیر کے فیصلے اپنے سابق حکمرانوں کی راج دھانی میں بیٹھ کر کیے جا رہے ہیں۔

لندن اتنا پسندیدہ مقام ہے کہ ہمارے بیشتر سیاستدانوں کے گھر وہاں کے مختلف علاقوں میں موجود ہیں ۔کبھی کبھار میرا بھی دل چاہتا ہے کہ لندن میں محل یا اس کے مہنگے ترین علاقے میں کوئی فلیٹ بیشک نہ بھی ہو لیکن کسی کونے کھدرے میں ایک کمرہ ضرور ہو اور میں بھی فخریہ ان لوگوں میں شامل ہو جاؤں جن کی جائیدادیں لندن میں موجود ہیں۔ لیکن میں اس سے انکار کبھی نہیں کروں گا بلکہ اپنے اخباری ذریعہ سے اس کی اطلاع ضرور دوں گا۔

ایک دفعہ میں راولپنڈی میں ایک ٹیکسی میں سفر کر رہا تھا تو میں نے ڈرائیور سے پوچھا کہ تمہاری گاڑی باہر سے تو بڑی پھٹیچر لگتی ہے لیکن اندر سے آرام دہ ہے تو اس نے جواب دیا کہ یہ انگریز کے مکان کی طرح ہے جو باہر سے تو بدصورت دکھائی دیتا ہے لیکن اندر داخل ہوں تو نہایت آرام دہ ہوتا ہے۔ اسی طرح آپ جب لندن میں ہوں تو باہر سے بڑی بڑی عمارتیں آپ کی توجہ اپنی جانب مبذول نہیں کراتیں لیکن جب آپ ان کے اندر داخل ہوں تو ان کی زیبائش و آرائش دیکھ کر انسان دنگ رہ جاتا ہے۔

آج کل میاں نواز شریف لندن میں ہی قیام پذیر ہیں اس لیے ہماری سیاست کا رخ بھی اکثر لندن کی جانب ہی رہتا ہے اور وہیں سے ہدایات لے کر حکومت چلائی جاتی ہے۔ ہمارے چھٹی پر موجود وزیر خزانہ بھی ملک کو بیچ  منجدھار چھوڑ کر لندن پہلے تو لندن کے ایک اسپتال کے بستر پر جا کر لیٹ گئے ہیں اور اپنی ’بیماری‘ کے باعث وطن واپسی سے گریز کر رہے ہیں لیکن شنید ہے کہ ان کو عالمی پولیس کے ذریعے واپس لانے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔

دیکھتے ہیں کہ وہ کب تک پاکستان واپس پہنچتے ہیںیااپنے لندنی ڈاکٹروں کو رام کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ یہی ایک اُمید ان کے پاس ہے کہ ان کے ڈاکٹر ان کو سفر سے منع کر دیں ورنہ یہاں تو ان کے استقبال کے لیے ’نیب‘ نے اپنی مکمل تیاری کر رکھی ہے۔

یہ بحث بھی جاری ہے کہ ملک میں آئندہ انتخابات کب ہوں گے کیا موجودہ حکومت سینیٹکے الیکشن تک برقرار رہے گی یا اس سے پہلے ہی اس کا بوریا بستر گول کر دیا جائے گا۔ یہ ایک ایسی بحث ہے جس کا کوئی نتیجہ نہیں نکلنے والا سب کی خواہشیں ہیں، اندازے ہیں اور ان خواہشوں کے آگے بند باندھنے کے لیے لندن میں نواز لیگ کے اجلاس بھی ہو رہے ہیں اور خبریں ہیں کہ کسی صورت میں بھی ہتھیار نہیں ڈالے جائیں گے بلکہ بھر پور مزاحمت کی جائے گی۔

وزیر اعظم بار بار یہ اعلان کر رہے ہیں کہ اسمبلیاں اپنی مدت پوری کریں گی اور انتخابات اپنے مقررہ وقت پر ہی ہوں گے یہی ایک بات ہے جو اس سارے عمل کو مشکوک بنا رہی ہے کہ ملک کا اعلیٰ ترین عہدیدار کچھ اور بات کر رہا ہے جب کہ اسمبلی کے اسپیکر کو اسلام آباد میں سب کچھ اچھا دکھائی نہیں دے رہا۔ اگر حقیقت پسندانہ بات کی جائے تو مجھے کوئی صورت نظر نہیں آتی کہ حکومت وقت سے پہلے ختم ہو جائے گی۔

قومی اسمبلی میں ن لیگ اپنی بھر پور طاقت کے ساتھ دو تہائی اکثریت کی حامل ہے اور ابھی تک اس کے اسمبلی ممبران اس کے ساتھ کھڑے ہیں، صوبہ پنجاب میں بھی واضح اکثریت کے ساتھ ن لیگ حکومت کر رہی ہے، بلوچستان میں بھی اس کی مخلوط حکومت قائم ہے، باقی دو صوبوں سندھ میں پیپلز پارٹی اور خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف کی حکومتیں قائم ہیں۔

ابھی تک بھر پور کوششوں کے باوجود نواز لیگ میں پھوٹ نہیں ڈالی جا سکی اور ان کے اندر سے ہی کوئی ایسا گروہ تیار نہیں کیا جا سکا جو فارورڈ بلاک کی صورت میں سامنے آئے۔ وزیر اعظم کو عدم اعتماد کا بھی سامنا نہیں، اس تمام  صورتحال کو مدنظر رکھا جائے تو صرف ایک ہی صورت بن سکتی ہے کہ وزیر اعظم خود ہی اپنی اسمبلی توڑ دیں اور نئے انتخابات کا اعلان کر دیا جائے جو کہ ظاہر ہے وہ کسی صورت میں بھی نہیں کریں گے۔

دوسری طرف اگر دیکھیں تو آئندہ انتخابات سے قبل ایک مخصوص مدت میں اگر حکومت مخالف پیپلز پارٹی صوبہ سندھ کی اسمبلی اور تحریک انصاف خیبر پختونخوا کی اسمبلی توڑ دیتی ہے تو آئینی تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے ضمنی انتخابات کرانے پڑیں گے اور یہ مدت بھی سینیٹ الیکشن کے بعد ہی پوری ہو رہی ہے اس لیے اگر ملک کے دو صوبوں کی اسمبلیاں توڑ بھی دی جائیں تو اس میں نقصان پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کا ہی ہوگا اور وہ سینیٹ الیکشن میں نئی نمائندگی سے محروم ہو جائیں گی۔

اس وقت سارا زور اس بات کے لیے لگایا جارہا ہے کہ سینیٹ الیکشن سے پہلے کسی طرح نواز لیگ کی حکومت کو چلتا کر دیا جائے تا کہ وہ اگر آئندہ انتخابات کے بعد حکومت نہ بنا سکے تو سینیٹ میں بھی اس کی اکثریت نہ ہو اور جو بھی پارٹی حکومت بنائے اگر وہ پورے ملک میں اکثریت حاصل کر لیتی ہے تو ظاہر ہے کہ سینیٹ میں اس کے اراکین کی تعداد بھی زیادہ ہو گی اس کی حکومت شاہانہ ہوگی جس کو کسی بھی طرف سے کوئی آئینی رکاوٹ نہیں ہو گی۔

موجودہ سینیٹ میں پیپلز پارٹی واضح اکثریت کے ساتھ موجود ہے اور جب اور جس مسئلے پر چاہتی ہے حکومت کو آنکھیں دکھا دیتی ہے، یعنی آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ ملک میں کسی حد تک ایک چیک اینڈ بیلنس کا نظام چل رہا ہے اور حکومت من مانی نہیں کر سکتی اور اس کو اپنی مرضی کے فیصلوں کے لیے ملک کی دوسری بڑی سیاسی جماعت کی تائید کی ضرورت ہوتی ہے۔

اگر اس نکتہ نظر سے دیکھا جائے تو یہ بات بڑی آسانی کے ساتھ سمجھ آ جانی چاہیے کہ اگر آئندہ انتخابات میں نواز لیگ شکست سے دوچار ہو جاتی ہے تو وہ سینیٹ میں واضح اکثریت کے ساتھ موجود ہو گی اور انتخابات کے بعد معرض وجود میں آنے والی نئی حکومت کو اپنی من مانی نہیں کرنے دے گی جو  کہ ملکی معاملات کے نہایت ضروری ہے کہ کوئی ایسا جمہوری ادارہ بھی موجود ہو جو حکومت وقت کے درست فیصلوں پر لبیک کہے اور غلط فیصلوں کی منظوری نہ دے۔ یہی جمہوریت کا حسن ہے جس کو گہنانے کی کوشش جاری ہے دیکھتے ہیں یہ کوششیں کتنی کامیاب ہوتی ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔