کتابیں لکھ کر کرکٹ کا قرض چکا رہا ہوں

اقبال خورشید  اتوار 17 مارچ 2013
امپائرنگ کے شعبے کی مایۂ ناز شخصیت،  محبوب شاہ  سے ایک یادگار مکالمہ۔ فوٹو: فائل

امپائرنگ کے شعبے کی مایۂ ناز شخصیت، محبوب شاہ سے ایک یادگار مکالمہ۔ فوٹو: فائل

دھوپ پردوں سے چھن کر کمرے میں داخل ہوتی، اور خاموشی سے گفتگو کا حصہ بن جاتی۔

گفتگو، جس کے ایک موڑ پر ستھرے ذوق کے حامل اُس نستعلیق انسان کی آنکھیں چمکتیں، اُجلے الفاظ کا چنائو ہوتا، اور اَن سُنے واقعات کا دریا بہنے لگتا۔

یہ امپائرنگ کی دنیا کی مایۂ ناز شخصیت، محبوب شاہ کا ذکر ہے، جن کی کہانی کی روانی سامع کو کسی اور دنیا میں لے جاتی ہے۔ انٹرنیشنل امپائر کی حیثیت سے وہ ایک قابل احترام ہستی ہیں۔ پہلے پاکستانی امپائر ہیں، جس کی صلاحیتوں سے ورلڈ کپ فائنل میں استفادہ کیا گیا۔ آئی سی سی کے پینل کا حصہ بننے والے اولین پاکستانی امپائر بھی ہیں۔ شمار کرکٹ میں جدید ٹیکنالوجی کی حمایت کرنے والے ابتدائی ماہرین میں ہوتا ہے۔

ریٹائرمینٹ کے بعد بھی خود کو مصروف رکھا۔ قوانین کے موضوع پر کتابیں لکھی، اور کمال یہ ہے کہ بین الاقوامی زبان کے بجائے اپنی مادری زبان کا انتخاب کیا۔ اِس وقت وہ ایشین کرکٹ کونسل سے منسلک ہیں۔ گذشتہ دنوں اِس منفرد شخصیت سے گلستان جوہر میں اُن کی رہایش گاہ پر طویل ملاقات ہوئی، جس کی روداد قارئین کی خدمت میں پیش کی جا رہی ہے۔

سوال: آپ نے کئی ممالک کا دورہ کیا۔ امپائرنگ کے نقطۂ نگاہ سے آپ پاکستان کا دیگر ممالک سے کس طرح موازنہ کرتے ہیں؟

محبوب شاہ: باہر، خصوصاً مغرب میں کرکٹ کا جو ماحول ہے، اُس کا ہمارے ہاں تصور بھی محال ہے۔ اِس کھیل کو دیکھنے کے بھی آداب ہیں۔ وہاں تماشائی پڑھے لکھے ہوتے ہیں، اُنھیں قوانین کا پتا ہوتا ہے۔ امپائرنگ کے لحاظ سے میں نیوزی لینڈ اور انگلینڈ کے تجربے سے بہت لطف اندوز ہوا۔ وہاں امپائر کو عزت دی جاتی ہے۔ ہمارے ہاں صورت حال مختلف ہے۔ کل کی طرح آج بھی امپائر کو دوسرے درجے کی مخلوق سمجھا جاتا ہے۔ کھلاڑیوں اور انتظامیہ کا مجموعی رویہ بہت ہی افسوس ناک ہوتا ہے۔ کچھ امپائرز کی عزت ضرور ہے، مگر بہ طور امپائر نہیں، اُن کی سماجی حیثیت کی وجہ سے اُن کا احترام کیا جاتا ہے۔

سوال: آپ نے ہندوستان میں بھی امپائرنگ کی۔ 87ء کے ورلڈ کپ فائنل میں آپ امپائر تھے، وہ تجربہ کیسا رہا؟

محبوب شاہ: مجموعی طور پر یہ تجربہ بہت اچھا رہا۔ میری پیدایش دہلی کی ہے، شاید اس وجہ سے بھی ہندوستان میں میری پزیرائی ہوئی۔ ورلڈ کپ فائنل سے تو خوش گوار یادیں وابستہ ہیں۔ یہ بڑا دل چسپ واقعہ ہے۔ سیمی فائنلز ہوچکے تھے۔ فائنل ککلتا میں ہونا تھا۔ اُس وقت ہم دہلی میں تھے۔ چُوں کہ میچ کے لیے دو ہی امپائر چاہییں تھے، اِس لیے باقیوں کو واپس بھیجنے کی تیاری ہو رہی تھی۔ ہم سامان باندھ چکے تھے۔ پھر اطلاع ملی کہ تمام امپائرز کو ورلڈ کپ فائنل دِکھانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ اِس طرح ہم کلکتا پہنچ گئے۔ پاکستان سے چار امپائر تھے۔ ہمیں ایک معمولی سے ہوٹل میں ٹھہرایا گیا۔

امان اﷲ میرے ساتھ والے کمرے میں تھے۔ یہ میچ سے دو دن پہلے کا واقعہ ہے۔ رات میں نے خواب دیکھا کہ امان اﷲ مجھے فائنل میں امپائرنگ کے لیے منتخب ہونے پر مبارک باد دے رہے ہیں۔ جب بیدار ہونے کے بعد میں نے اخبار دیکھا، تو حیران رہ گیا، فائنل کے لیے جن امپائرز کا اعلان ہوا تھا، اُن میں میرا نام بھی شامل تھا۔ میں نے فوراً امان اﷲ کو بلایا، اور اُنھیں اپنے خواب سے آگاہ کیا۔ تو اُنھوں نے کہا، بھئی، تم نے خواب نہیں دیکھا، میں نے تمھیں فون کیا تھا، تم اُس وقت سو رہے تھے۔ یعنی غیریقینی اور ناامیدی کا یہ عالم تھا کہ میں اُن کے فون کو خواب سمجھ بیٹھا۔

سوال: 87ء میں ورلڈ کپ جیتنے والی آسٹریلوی ٹیم نے اُسی برس پاکستان کا دورہ کیا تھا، سیریز کے دو ٹیسٹ میچز میں آپ ہی نے امپائرنگ کا فریضہ انجام دیا؟

محبوب شاہ: وہ قصّہ بھی دل چسپ ہے۔ ورلڈ کپ فائنل کے بعد جب آسٹریلوی کپتان، ایلن بورڈر سے میچ امپائرنگ کے متعلق پوچھا گیا، تو اُنھوں نے بہت تعریف کی۔ پاکستان کے دورے کے موقعے پر بھی جب ایلن بورڈر سے سیریز میں امپائرنگ کے بارے میں سوال کیا گیا، تو اُنھوں نے کہا: ’جب تک محبوب شاہ موجود ہیں، ہمیں کوئی فکر نہیں!‘ بیان تو انھوں نے یہ دیا، مگر اُن کی حکمت عملی کچھ اور تھی۔

کراچی میں ٹیسٹ میچ تھا، جو میری زندگی کا مشکل ترین میچ ثابت ہوا۔ میرے ہر فیصلے پر آسٹریلوی کھلاڑی ایسا تاثر دیتے کہ فیصلہ غلط ہے، لیکن میں مطمئن تھا۔ ٹیسٹ میچ کے دوران ہی جب مجھے پر لعن طعن ہورہی تھی، مجھے ایک آسٹریلوی صحافی کا فون آیا، جس نے مجھے بتایا کہ وہاں کے اخبارات میرے خلاف خبروں سے بھرے ہوئے ہیں۔ میں نے یہی جواب دیا کہ مجھے اِس کی پروا نہیں، میں اپنے کام سے مطمئن ہوں۔ اُس نے مجھ سے ہونے والی گفت گو اپنے اخبار میں چھاپ دی۔ آسٹریلوی میری امپائرنگ سے اتنے متنفر تھے کہ کراچی ٹیسٹ کے بعد انھوں نے مجھے بہ طور امپائر منفی صفر نمبر دیے۔

خیر، اگلا میچ فیصل آباد میں تھا، مگر وہاں ایسا کوئی واقعہ نہیں ہوا۔ وہ ایسا کیوں کر رہے تھے، اِس کا اندازہ مجھے تب ہوا، جب سیریز کے دوران ہی ایک آسٹریلوی یونیورسٹی کے پروفیسر کا خط مجھے موصول ملا۔ اُن صاحب نے لکھا: ’آپ کے خلاف جو کچھ ہو رہا ہے، وہ ہم دیکھ رہے ہیں، اور ہنس رہے ہیں۔ آسٹریلیا کی موجودہ ٹیم ورلڈ کپ تو جیت گئی، مگر یہ پاکستان کو ہرانے کے قابل نہیں تھی، تو اپنی عزت رکھنے کے لیے اُنھوں نے پاکستان کے بہترین امپائر کو اپنے نشانے پر رکھ لیا، مگر آپ فکر نہیں کریں، ہم آپ کے ساتھ ہیں۔‘ اُس خط سے مجھے بہت حوصلہ ملا۔

سوال: مشکل میچز کی بات کریں، تو یقیناً پاکستان اور ہندوستان کے میچ میں بہت دبائو ہوتا ہوگا؟

محبوب شاہ: بالکل۔ 78ء کی سیریز میں تو دبائو کی وجہ سے میں نے امپائرنگ کو خیرباد کہنے کا فیصلہ کر لیا تھا، مگر شجاع صاحب کے سمجھانے پر فیصلہ بدل دیا۔ دیکھیں، میچ جتنا تنائو بھرا ہوتا ہے، امپائر کے لیے اتنا ہی فائدہ مند ہوتا ہے۔ اِس سے اُسے سیکھنے کا موقع ملتا ہے۔

سوال: ریفرل سسٹم کی بابت آپ کی کیا رائے ہے؟

محبوب شاہ: پہلے یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اس سسٹم کی ضرورت کیوں پیش آئی۔ ہر نظام عدل شہادت پر مبنی ہوتا ہے۔ کرکٹ میں بھی یہی معاملہ ہے، شہادت کی بنیاد پر فیصلہ دیا جاتا ہے۔ اور قابل بھروسا شہادت اُس واقعے کی ہوتی ہے، جس کے آپ شاہد ہوں۔ اگر آپ شاہد نہیں، تو آپ مشاورت پر فیصلہ کرتے ہیں۔ تو ریفرل سسٹم بھی ایسا ہی ہے۔ اگر کوئی بیٹسمین ورلڈ ریکارڈ بنانے کے قریب ہے، اور اُسے اِس وجہ سے آئوٹ قرار دے دیا جائے کہ امپائر واقعے کو سمجھ نہیں سکا، تو یہ سراسر زیادتی ہے۔ اِسی لیے ریفرل سسٹم کا آغاز ہوا۔

سوال: تو آپ اِس کی کُلی طور پر حمایت کرتے ہیں؟

محبوب شاہ: جب آئی سی سی نے ریفرل سسٹم سے متعلق میری رائے طلب کی، تو میں نے اس کی بھرپور حمایت کی تھی، حالاں کہ اس وقت اِسے تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا تھا، کہا جا رہا تھا کہ اِس سے فیلڈ امپائر کی سُبکی ہوگی۔ دیکھیں، اگر عدالت عالیہ آپ کے خلاف فیصلہ دے دے، اور آپ اِس سے مطمئن نہ ہوں، تو آپ Review کی اپیل کرسکتے ہیں۔ اسی طرح کرکٹ میں بھی کوئی Review کرنے والا ہونا چاہیے۔ تو میں اِس کا حامی ہوں، البتہ ایک بات ہے، ایل بی ڈبلیو کی جو ٹیکنالوجی ہے، میں اِس سے سو فی صد مطمئن نہیں۔ کیمرا جس زاویے سے دیکھتا ہے، اور امپائر جس زاویے پر کھڑا ہوتا ہے، اُس میں تھوڑا فرق ہے۔

سوال: ایک رائے ہے کہ اگر ٹیکنالوجی غالب آگئی، تو فیلڈ امپائرز کا کردار ختم ہو جائے گا؟

محبوب شاہ: نہیں، ختم نہیں ہو گا۔ دیکھیں، ٹیکنالوجی پر بات کرنے کے لیے میں خود کو یوں کوالیفائیڈ سمجھتا ہوں کہ جب آئی سی سی کے تحت ٹیکنالوجی کے استعمال کے موضوع پر انگلینڈ میں امپائرز کی پہلی میٹنگ ہوئی تھی، تو میں اُس میں شامل تھا۔ میں جدید ٹیکنالوجی کی حمایت کرنے والے اولین امپائرز میں سے ہوں، جب کہ میرے ساتھی اس کے خلاف تھے۔ دیکھیں، گذشتہ چند برس میں ٹیکنالوجی کا استعمال بڑھا ہے، مگر فیلڈ امپائر کی اہمیت آج بھی قائم ہے۔ دراصل انسان کو انسان ہی قابو کرسکتا ہے، مشین نہیں۔ قوانین کا اطلاق امپائر ہی کر سکتا ہے۔

سوال: 2006 میں، پاکستان اور انگلینڈ کے درمیان اوول میں ہونے والے ٹیسٹ میچ میں ایک بڑے تنازعے نے جنم لیا۔ آپ کی اِس پر کیا رائے ہے؟

محبوب شاہ: اوول ٹیسٹ میں ڈیرل ہیئر کا فیصلہ دُرست تھا۔ غلطی پاکستانی کھلاڑیوں کی تھی۔ امپائر کے خلاف احتجاج کا یہ طریقہ نہیں۔ احتجاج کا دُرست طریقہ قوانین میں موجود ہے۔ اُس وقت انگلینڈ کو فاتح ٹھہرایا گیا، مگر بعد میں اُس میچ کو ڈرا کہہ دیا گیا۔ میں آپ کو بتائوں، آپ فیصلہ تبدیل نہیں کرسکتے۔ میچ ڈرا نہیں ہوا، انگلینڈ ہی اُس میچ کا فاتح ہے۔

سوال: آپ فرما رہے ہیں کہ ڈیرل ہیئر کا فیصلہ دُرست تھا، مگر ہم نے دیکھا کہ اس واقعے کے بعد ڈیرل ہیئر شدید تنقید کی زد میں آگئے، اُنھیں ایلیٹ پینل سے الگ کر دیا گیا، اور یہ تاثر ابھرا کہ پاکستان اخلاقی محاذ پر جیت گیا ہے؟

محبوب: دیکھیں، ڈیرل ہیئر کا معاملہ یہ تھا کہ پاکستان اور ہندوستان کو اُن پر تحفظات تھے۔ یہی معاملہ سری لنکا کا بھی تھا، مرلی دھرن کے تنازعے کی وجہ سے۔ تو ایشین ٹیمیں اُسے پسند نہیں کرتی تھیں۔ پھر وہ اپنی تکنیک میں تھوڑا سخت گیر بھی تھا، مگر سخت تو وہ دیگر ٹیموں کے لیے بھی تھا۔ الغرض، اُس میچ میں سامنے آنے والے مسئلے کا ایک بیک گرائونڈ تھا۔

سوال: ہمارے ہاں بین الاقوامی کرکٹ نہیں ہو رہی۔ کیا اِس کا اثر پاکستانی امپائرز پر بھی پڑ رہا ہے؟

محبوب شاہ: بالکل پڑ رہا ہے۔ میں معذرت کے ساتھ کہنا چاہوں گا کہ ہمارے ہاں اچھی امپائرنگ میں کسی کو دل چسپی نہیں، سودمند امپائرنگ میں سب کی دل چسپی ہے، یعنی ایسی امپائرنگ جو آپ کے کام آئے۔ آرگنائزر اس امپائر کو پروموٹ کریں گے، جو اُن کا فیورٹ ہوگا، اور امپائر کوشش کرے گا کہ وہ اُن کے من پسند افراد کی فہرست میں شامل ہو جائے۔ اِس وقت ڈومیسٹک میچز میں ہونے والی امپائرنگ کئی مسائل کا شکار ہے۔

سوال: اِن مسائل کا حل کیا ہے؟

محبوب شاہ: معیار بہتر کرنے کے لیے تدبیر کرنی ہوگی۔ امپائرز کی تعلیم و تربیت پر توجہ دینی ہوگی۔ اُن کی امیج بہتر کرنی ہوگی۔ میرٹ کو اپنی ترجیح بنانا پڑے گا۔

سوال: سینئرز میں کس امپائر نے آپ کو متاثر کیا؟

محبوب شاہ: شجاع الدین صاحب۔ وہ دہلی میں فرسٹ کلاس کرکٹ کھیلا کرتے تھے۔ ریٹائر ہونے کے بعد اُنھوں نے ہندوستان ہی میں امپائرنگ شروع کر دی تھی، پھر یہاں آگئے۔ یعنی وہ پاکستان کے پہلے کوالیفائیڈ امپائر تھے۔ وہ میرے رول ماڈل ہیں۔

سوال: ہم عصروں میں کسے سراہتے ہیں؟

محبوب شاہ: کافی لوگ ہیں۔ ڈکی برڈ، شکیل خان اور شکور رانا کی کمپنی بہت اچھی ہوا کرتی تھی۔ ڈیرل ہیئر اپنی تکنیک کے لحاظ سے بہت اچھا امپائر تھا۔

سوال: کئی امپائرز نے اپنی تکنیک، خصوصاً سگنلز دینے کے انداز میں اختراعات کیں، جس سے اُنھیں شناخت کیا جانے لگا۔ ڈیوڈ شیفرڈ اپنی ٹانگوں کو مخصوص حرکت دیتے تھے، بلی باؤڈن انگلی ٹیڑھی کرکے فیصلے صادر کرتے ہیں۔ اِس طریقے کی بابت آپ کیا کہیں گے؟

محبوب شاہ: یہ رویہ فقط ایک بات ظاہر کرتا ہے کہ آپ نے قوانین پڑھے ہی نہیں، خصوصاً وہ حصہ، جو سگنلز سے متعلق ہے۔ امپائر قوانین کو تبدیل نہیں کرسکتا۔ ڈیوڈ شیفرڈ جو Move کرتے تھے، اُس کا کھیل سے کوئی تعلق نہیں تھا، اُن کے سگنلز دینے کا طریقہ غلط تھا۔ بلی بائوڈن کا بھی یہی معاملہ ہے۔ اُس کا طریقہ بالکل غلط ہے۔ اُس کی تکنیک کا امپائرز کی محفلوں میں مذاق اڑایا جاتا ہے۔ آئوٹ دینے کا طریقہ ہے کہ امپائر انگشت شہادت سر سے اوپر اٹھائے۔ اب اگر انگلی ٹیڑھی کر کے آئوٹ دیا جائے، اور میں پچ پر ہوں، تو پویلین لوٹنے کے بجائے میں وہیں کھڑا رہوں گا۔ میرے نزدیک اِس طرح منفرد نظر آ کر شناخت حاصل کرنے کی کوشش انتہائی افسوس ناک ہے۔

سوال:ٹی 20 کرکٹ کے بارے میں آپ کا کیا تجزیہ ہے؟

محبوب شاہ: پہلے میں اِسے کرکٹ نہیں سمجھتا تھا، مگر بعد میں غور کیا، تو اندازہ ہوا کہ بیٹسمین اندھا دھند نہیں کھیلتے، اِس کے لیے اُنھوں نے نئی تکنیک وضع کی ہے۔ اِسی طرح بولر کو لائن اینڈ لینتھ کا خیال رکھنا پڑتا ہے۔ فیلڈنگ میں بھی بہتری آئی ہے۔ تو اب میں اِسے کھیل کا حصہ ماننے لگا ہوں۔

سوال: یہ عام خیال ہے کہ ٹی 20 کرکٹ، ٹیسٹ کرکٹ کو نگل لے گی؟

محبوب شاہ: نہیں، ایسا نہیں ہوگا۔ دیکھیں ٹیسٹ کرکٹ، دراصل کلاسیکل کرکٹ ہے۔ جیسے کلاسیکی موسیقی سُننے والے ہیں، اِسی طرح ٹیسٹ کرکٹ کے شایقین بھی موجود ہیں۔ ٹی 20 کرکٹ شروع ہونے کے بعد ٹیسٹ میچز میں کوئی خاص کمی واقع نہیں ہوئی۔ دراصل ون ڈے اور ٹی 20 میچز ٹیسٹ کرکٹ کو سپورٹ کرتے ہیں، کیوں کہ ٹیسٹ کرکٹ کے مقابلے میں اِن میں پیسا زیادہ ہے۔

سوال: کبھی کسی کھلاڑی نے آپ پر غالب آنے کی، فیصلے پر اثر انداز ہونے کی کوشش کی؟

محبوب شاہ: سچ تو یہ ہے کہ تمام کھلاڑی، کسی نہ کسی سطح پر ایسا کرتے تھے، یا کرتے ہیں۔ یہ ایک حکمت عملی تھی، مگر میری کبھی کسی سے تلخ کلامی نہیں ہوئی۔ پھر میری تکنیک یہ تھی کہ میں اس وقت کھلاڑیوں کے رویے کو نظرانداز کرتا تھا، جب تک وہ قانون کے دائرے میں ہوں۔ میرے کیریر میں خوش گوار لمحات زیادہ آئے۔

سوال: تو خوش گوار لمحات ہی کی بات کرتے ہیں۔ کئی کھلاڑیوں کی اپیلیں آپ نے رد کی ہوں گی۔ ایسا کون تھا، جس نے ہمیشہ مثبت ردعمل ظاہر کیا؟

محبوب شاہ: پاکستانی ٹیم میں عمران خان ایک ایسا کھلاڑی تھا، جس سے میری زیادہ بات چیت نہیں تھی۔ مگر میں جب بھی اُس کی اپیل رد کرتا، وہ ہمیشہ مثبت ردعمل دیتا۔ اور اپنے اشاروں اور رویے سے یہ تاثر دیتا کہ میرا فیصلہ دُرست تھا۔

سوال: کیا ہوم سیریز میں ٹیم کا کپتان یا کوئی اور کھلاڑی مطلوبہ نتائج کے لیے امپائر پر اثرانداز ہونے کی کوشش کرتا ہے؟

محبوب شاہ: اس قسم کے واقعات ہم سنتے آئے ہیں، مگر ذاتی طور پر مجھے ایسا کوئی تجربہ نہیں ہوا۔

سوال: میچ فکسنگ ایک وبا بن گئی ہے۔ ماضی میں فقط کھلاڑی الزامات کی زد میں تھے، مگر اب امپائرز کو بھی اِس میں ملوث قرار دیا جانے لگا ہے؟

محبوب شاہ: اِس طرح کی خبریں تو ہیں، مگر میں اُنھیں کُریدتا نہیں ہوں۔ البتہ سوچتا ہوں، جہاں سے دھواںاٹھتا ہے، وہاں آگ بھی لگی ہوتی ہے۔ کچھ نہ کچھ ہوگا، جب ہی تو لوگ بات کرتے ہیں۔ اِسی وجہ سے اینٹی کرپشن یونٹ کام کر رہا ہے، جس کے قوانین کا اطلاق کیا جائے، تو کبھی ایسا مسئلہ نہ ہو۔

سوال: کتابیں لکھنے کا خیال کیوں کر سُوجھا؟

محبوب شاہ: میری تعلیم، پیشہ ورانہ سفر، فرسٹ کلاس کیریر، تینوں قابل ذکر ہیں، مگر مجھے امپائرنگ کی وجہ سے شناخت ملی۔ ریٹائرمینٹ کے وقت میں نے خود سے عہد کیا تھا کہ کرکٹ کا قرض امپائرنگ لٹریچر تخلیق کر کے چُکائوں گا۔ میں نے اپنی مادری زبان کا انتخاب کیا، حالاں کہ اکثریت کی رائے تھی کہ مجھے انگریزی میں لکھنا چاہیے۔ خیر، 86ء میں میری پہلی کتاب ’’قوانین کرکٹ‘‘ شایع ہوئی، جو ایم سی سی کی ایک کتاب “Laws of Cricket” کا ترجمہ تھی، جو میں نے شجاع صاحب سے لے کر پڑھی تھی۔ یہی سوچ کر اِس کام کا بیڑا اٹھایا کہ ہمارے لوگ اِس سے راہ نمائی حاصل کریں۔ اور یہ کتاب واقعی بہت کار آمد ثابت ہوئی۔ پھر میں نے پی سی بی کے لیے ایک کتاب لکھی، جس کا نام بھی ’’قوانین کرکٹ‘‘ ہی تھا۔ وہ 2000 میں شایع ہوئی۔

سوال: مزید کتابوں پر بھی کام کر رہے ہیں؟

محبوب شاہ: تین کتابوں کے مسودے مکمل ہیں۔ دیکھیں، وہ کب چھپتی ہیں۔ ان کی اشاعت کا انحصار اسپانسرز پر ہے۔ اُن میں سے ایک کتاب قوانین سے متعلق ہے۔ یہ اردو میں لکھی جانے والی واحد کتاب ہے، جسے ایم سی سی نے منظور کیا ہے۔ دوسری کتاب میں مَیں نے اِن قوانین کی تشریح کی ہے۔ ایک کتاب امپائرنگ کی تکنیک کے بارے میں ہے۔ دراصل کتابیں لکھ کر میں کرکٹ کا قرض چُکا رہا ہوں۔

سوال: اِس وقت آپ ایشین کرکٹ کونسل (اے سی سی) سے منسلک ہیں۔ اپنی ذمے داریوں کے بارے میں کچھ فرمائیں؟

محبوب شاہ: میں اے سی سی کے تین امپائرز پر مشتمل ’’پینل آف ریسورس پرسنز‘‘ کا رکن ہوں، جس کا کام ایشیا کی ’’نان ٹیسٹ پلیئنگ کنٹریز‘‘ کے امپائرز کو تربیت فراہم کرنا ہے۔ دیکھیں، امپائرنگ میں آنے کے بعد میں نے اپنی توجہ قوانین پر مرکوز رکھی۔ یہی وجہ ہے کہ اُس زمانے میں بھی اگر کہیں کوئی تنازع جنم لیتا، تو میری تشریح قبول کی جاتی۔ بیرون ملک ہونے والے پروگرامز میں بھی میں نے شرکت کی۔ ہمارے ہاں اُس زمانے میں انٹرنیشنل کرکٹ کونسل کا ڈویلپمنٹ آفس ہوا کرتا تھا، اُس کے ساتھ کام کیا۔ 2000 میں یہ ادارہ اے سی سی کی سرپرستی میں آگیا، تو اُن کے ساتھ کام کرنے لگا۔

سوال: آپ نے انتہائی مصروف زندگی گزاری۔ کیا گھر والوں کو وقت دے پائے؟

محبوب شاہ: امپائرنگ کے شعبے میں میری کام یابی کی بڑی وجہ میری بیگم تھیں۔ اُنھوں نے میرا بھرپور ساتھ دیا۔ میں نے برسوں چُھٹی کا دن گھر پر نہیں گزارا۔ ہفتے اور اتوار کے روز میچ ہوا کرتے تھے۔ میری غیرموجودگی میں بیگم ہی گھر سنبھالتی تھیں۔

سوال اچھے امپائر کے لیے بنیادی شرط کیا ہے؟

محبوب شاہ: یک سوئی۔ جب آپ تمام باتوں سے بے پروا ہو کر گیند پر اپنی توجہ مرکوز کرنا سیکھ لیتے ہیں، تب ہی خود کو اچھا امپائر ثابت کر سکتے ہیں۔

سوال: امپائرنگ کی جانب آنے والے نوجوانوں کو کیا مشورہ دینا چاہیں گے؟

محبوب شاہ: دیکھیں، آج امپائرنگ کے شعبے میں بہت اسکوپ ہے۔ نوجوانوں کو اِسے بہ طور ایک مضمون لینا چاہیے۔ میرے خیال میں اوپن یونیورسٹیز کو امپائرنگ کے کورسز شروع کرنے چاہییں۔ اِس عمل سے اس شعبے کو تقویت ملے گی۔

دو بھائیوں میں بڑے سید محبوب علی شاہ 1938 میں محلہ لال کنواں، دہلی میں پیدا ہوئے کہ ننھیال وہیں آباد تھا، البتہ شعور کی آنکھ محلہ شمس گنج میں کھولی۔ اُن کے والد، سید احمد علی شاہ شہری حکومت کے محکمے میں ملازم تھے۔ والد مزاجاً بہت شفیق تھے۔ یاد نہیں پڑتا کہ کبھی اُنھوں نے ڈانٹ ڈپٹ کی ہو۔ بچپن میں اُن کی گنتی شرمیلے بچوں میں ہوتی تھی۔ لوگوں کا سامنا کرتے ہوئے گھبراتے تھے۔

جُوں جُوں تقسیم کے دن قریب آتے گئے، دہلی میں کشیدگی بڑھتی گئی۔ یہی کشیدگی اُنھیں شمس گنج سے قرول باغ لے گئی، مگر چند ماہ بعد حالات اتنے بگڑ گئے کہ بے سروسامانی کی حالت میں وہ علاقہ چھوڑنا پڑا۔ اگلے چند روز ننھیال میں گزرے۔ پھر ہمایوں کے مقبرے پر لگے کیمپ کا رخ کیا۔ ٹرین کے راستے، اندیشوں کے سائے میں سفر کرتے ہوئے لاہور پہنچے۔ ابتداً پھوپھا کے گھر ٹھہرے۔ پھر کرایے پر ایک مکان لے لیا۔ زیور وغیرہ بیچ کر بہ مشکل وہ دن کاٹے۔ کراچی آنے کے بعد لارنس روڈ میں مقیم ایک رشتے دار کے ہاں ڈیرا ڈالا۔ دو برس کی تگ و دو کے بعد بالآخر اُن کے والد سٹی کورٹ میں ملازم ہوگئے۔

لاہور کے زمانے میں محبوب شاہ نے چشتیہ اسکول میں داخلہ لے لیا تھا۔ کراچی آنے کے بعد حالی مسلم ہائی اسکول کا حصہ بن گئے، جہاں نہ تو کوئی کمرہ تھا، نہ ہی بینچ۔ ینگ مسلم ویمن ایسوسی ایشن کے دفتر کے احاطے میں، درخت کے نیچے بیٹھ کر پڑھا کرتے تھے۔

والد کو ملازمت تو مل گئی، مگر قلیل تن خواہ میں رہایش کا انتظام کرنا ممکن نہیں تھا۔ سو، اُنھوں نے اپنے بیوی بچوں کو کوئٹہ بھجوا دیا، جہاں اُن کے برادرنسبتی مقیم تھے۔ محبوب شاہ نے پِٹ مینز کمرشل کالج، کوئٹہ، سے 53ء میں میٹرک کیا۔ دو برس گورنمنٹ کالج کوئٹہ میں زیرتعلیم رہے۔ پھر کراچی چلے آئے، اور اردو کالج کا حصہ بن گئے۔ اُس زمانے میں وہ والد کے ساتھ نمایش کے علاقے میں سرکاری ٹینٹ میں رہا کرتے تھے۔ کئی دن وہیں بیتے۔ 58ء میں گریجویشن کرنے کے بعد 61ء میں جامعہ کراچی سے اکنامکس میں ماسٹرز کیا۔ اِسی عرصے میں ایل ایل بی کا مرحلہ طے کیا۔

پیشہ ورانہ سفر کا آغاز بہ طور انکم ٹیکس انسپکٹر کیا، مگر ملازمت مزاج سے میل نہیں کھاتی تھی، سو اس محکمے سے الگ ہو کر پبلک سروس کمیشن کا امتحان دیا، اور 62ء میں منسٹری آف انڈسٹریز سے بہ طور ’’اسٹیٹسٹیکل انویسٹی گیٹر‘‘ منسلک ہوگئے۔ 71ء تک وفاقی حکومت کے تحت کام کرتے رہے۔ اگلے پانچ برس حکومت سندھ کے لیے خدمات انجام دیں، اسسٹنٹ ڈائریکٹر انڈسٹریز، سندھ کا عہدہ سنبھالا۔ 76ء میں اسٹیل مل سے بہ طور ڈپٹی مینیجر منسلک ہوگئے، جس کے استحکام میں کلیدی کردار ادا کیا۔ 98ء میں وہاں سے بہ طور جنرل مینیجر ریٹائر ہوئے۔  64ء میں اُن کی شادی ہوئی۔ خدا نے ایک بیٹی، دو بیٹوں سے نوازا۔ بیگم کا انتقال ہوچکا ہے۔ بیٹی کا بیوہ ہونا زندگی کا سب سے کرب ناک واقعہ تھا۔ اس سانحے سے اُن کا خاندان تاحال ابھر نہیں سکا ہے۔

پسند ناپسند کی بات ہو، تو محبوب شاہ موقعے کی مناسبت سے لباس کا انتخاب کرتے ہیں۔ سردی کے موسم سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ کھانے میں کوئی خاص پسند نہیں۔ مہدی حسن اور لتا کی آواز بھاتی ہے۔ فلموں میں اُنھیں ’’آن‘‘ اور ’’مغل اعظم‘‘ اچھی لگیں۔ دلیپ کمار کی صلاحیتوں کے معترف ہیں۔ شاعری میں غالب، فیض اور پروین شاکر کے مداح ہیں۔

دہلی ہی کے زمانے میں کرکٹ کا شوق پروان چڑھا۔ کراچی آنے کے بعد مارٹن روڈ کی سڑکوں پر کرکٹ کھیلی، مگر جب اُن کی ایک زور دار ’’شاٹ‘‘ نے فٹ پاتھ پر بیٹھے ایک بچے کو زخمی کر دیا، تو گلی محلوں میں کرکٹ کھیلنا ترک کر دی، اور گلی ڈنڈا کھیلنے لگے۔ البتہ معروف صحافی، حلیم احمد کے پی آئی بی کلب آنا جانا رہا۔ کوئٹہ کے زمانے میں اِس کھیل سے حقیقی معنوں میں آشنا ہوئے۔ میٹرک کے امتحانات کے بعد خاصا وقت میسر تھا، جو اُنھیں ریس کورس گرائونڈ لے جاتا، جہاں کوئٹہ اسٹاف کالج کے طلبا پریکٹس کیا کرتے تھے۔ وہاں کچھ عرصے وہ فیلڈنگ کرتے رہے۔ ’’ترقی‘‘ ہوئی، تو بالر ہوگئے۔ چند ہی روز میں ٹھیک ٹھاک کھلاڑی بن گئے۔

اُن دنوں کی یادیں تازہ کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں،’’اُس وقت میرے پاس پتلون نہیں تھی۔ پھر کوئٹہ میں پتلون پہننے کا رواج بھی نہیں تھا، سب شلوار قمیص پہنا کرتے، مگر ریس کورس گرائونڈ میں ہر کھلاڑی پتلون پہن کر پریکٹس کیا کرتا تھا، جس کی وجہ سے مجھے بڑی شرمندگی ہوتی۔ تو کسی نہ کسی طرح میں نے اپنے لیے ایک پتلون کا انتظام کر لیا۔‘‘ گورنمنٹ کالج کوئٹہ کی کرکٹ ٹیم تک رسائی سہل ثابت ہوئی۔ کچھ ہی عرصے میں اُس کے کپتان ہوگئے۔ اور پھر اُن کی زندگی میں ایک موڑ آیا۔

تفصیلات کچھ یوں ہیں کہ اُن دنوں اردو کالج کراچی کی ٹیم کوئٹہ آئی ہوئی تھی، جس کا شمار جامعات کی مضبوط ترین ٹیموں میں ہوتا تھا۔ محبوب شاہ نے اُن کے ساتھ ایک میچ رکھا۔ اُن سمیت بیش تر کھلاڑی غریب گھرانوں سے تھے۔ جیب سب کی خالی تھی، اور مہمان ٹیم کے طعام کا انتظام کرنا تھا۔ جب اِس ضمن میں اُنھوں نے کالج کے پرنسپل سے بات کی، تو اُنھوں نے ڈانٹ کر بھگا دیا۔

خیر، کسی نہ کسی طرح، بھاگ دوڑ کرکے یہ مسئلہ حل کیا۔وہ میچ محبوب شاہ کے نام رہا۔ جہاں شان دار سینچری اسکور کی، وہیں چھے وکٹیں بھی لیں، جس کی بدولت اُن کا کالج میچ کا فاتح ٹھہرا۔ اردو کالج جیسی ٹیم کو شکست دینا کسی عجوبے سے کم نہیں تھا۔ یہ خبر اگلے روز اخبارات کی زینت بن گئی۔ اس بار پرنسپل صاحب بالکل الگ انداز میں ملے۔ اُن کی خوب حوصلہ افزائی کی، کالج فیس بھی معاف کر دی گئی۔ کہتے ہیں،’’سچ تو یہ ہے کہ اُس ایک میچ نے میری زندگی بدل دی!‘‘

اب ایک نئے سفر کا آغاز ہوا۔ بلوچستان کرکٹ ایسوسی ایشن کی جانب سے قائد اعظم ٹرافی کے مقابلوں میں شرکت کی۔ سینٹرل زون کی نمایندگی کرتے ہوئے پاکستان کے دورے پر آنے والی ہندوستانی ٹیم کے خلاف میدان میں اترے۔ پرفارمینس دیکھتے ہوئے اردو کالج نے اُنھیں اپنے ادارے کا حصہ بننے کی پیش کش کر دی، جسے اُنھوں نے بہ خوشی قبول کیا۔ اردو کالج کی جانب سے انٹرکالجیٹ ٹورنامینٹ میں 250 رنز ناٹ آئوٹ کی منفرد اننگز کھیلی، جو اُس وقت یونیورسٹی کی سطح پر ایک ریکارڈ تھا۔ پھر کراچی یونیورسٹی کی ٹیم میں منتخب ہوئے، انٹریونیورسٹیز ٹورنامینٹ میں اپنی ٹیم کو فتح دلوائی۔

جلد ہی کراچی کی ٹیم کا حصہ بن گئے، جس کی نمایندگی کرتے ہوئے قائد اعظم ٹرافی میں 14 رنز کے عوض 6 وکٹیں لے کر ریکارڈ قائم کیا۔ کسٹوڈین ڈیپارٹمنٹ سے بھی چند برس کھیلتے رہے۔ سٹی جم خانے سے طویل وابستگی رہی۔ ٹیسٹ امپائر، شجاع الدین اُس ٹیم کے کپتان تھے۔ مشتاق محمد اور انتخاب عالم سمیت کئی باصلاحیت کھلاڑی اُس کا حصہ تھے۔ اُسی زمانے میں محبوب شاہ نے کراچی سٹی کی سینئر لیگ کھیلی، جس میں اُن کی اوسط 150 رہی۔ 61ء تک وہ سٹی جم خانہ سے کھیلتے رہے۔ ٹیسٹ کیپ سے فقط چند قدموں کا فاصلہ رہ گیا تھا کہ ایک انجری اُنھیں میدانوں سے دُور لے گئی۔

واقعہ کچھ یوں ہے کہ ایک میچ کے دوران اُن کا گُھٹنا مڑ گیا۔ آپریشن کروانا پڑا۔ صحت یاب ہونے کے بعد جب ڈاکٹر سے پوچھا، دوبارہ کرکٹ کھیلنے کے کتنے فی صد امکانات ہیں؟ تو جواب ملا، 50/50۔ کہتے ہیں،’’کرکٹ میرا جنون نہیں تھا، پہلی ترجیح تعلیم اور کیریر تھے، تو رسک لینے کے بجائے کرکٹ کو خیرباد کہہ دیا۔‘‘

یہ 65ء کا ذکر ہے۔ کرکٹ کو خیرباد کہے پانچ برس بیت گئے تھے کہ ایک روز لالوکھیت دس نمبر کے پُل سے گزرتے ہوئے نیچے گرائونڈ پر نظر پڑی، جہاں سٹی جم خانہ کی ٹیم موجود تھی۔ شوق میدان تک لے گیا۔ کھیلنے کی پیش کش قبول نہیں کی، تو شجاع صاحب نے یہ کہتے ہوئے امپائرنگ کی ذمے داری سونپ دی کہ ’’کچھ دیر کے لیے کھڑے ہو جائو، میچ امپائر ابھی آتا ہی ہوگا!‘‘ محبوب شاہ کے بہ قول،’’جبر کرکے پورے دن دھوپ میں کھڑا رہا۔ اصول و ضوابط کا علم نہیں تھا، پھر اِس شعبے میں دل چسپی بھی نہیں تھی۔‘‘ میچ کے بعد وہ تو گھر لوٹ آئے، مگر یہ بات مشہور ہوگئی کہ ایک نیا امپائر میدان میں آگیا ہے۔ چند روز بعد ایک کلب میچ میں امپائرنگ کرنے کی دعوت موصول ہوئی، نہ چاہتے ہوئے بھی چلے گئے۔

البتہ چند میچز کے بعد یہ احساس ستانے لگا کہ اِس شعبے کے بارے میں کچھ معلومات اکٹھی کی جائیں۔ قوانین سے متعلق چند کتابیں پڑھیں۔ بہ قول اُن کے،’’کتابیں پڑھ کر مجھے بہت غصہ آیا۔ میں یونیورسٹی کا کپتان رہا تھا، پڑھا لکھا تھا، اور مجھے ہی قوانین کا اندازہ نہیں تھا۔‘‘ مطالعے نے سنجیدگی پیدا کی۔ دھیرے دھیرے سوچ تبدیل ہونے لگی۔ چند واقعات بھی اِس کا سبب بنے۔ بتاتے ہیں، ایک بار تماشائیوں کو ٹیسٹ امپائر، عمر خان سے بدتمیزی کرتے دیکھا، تو دل برداشتہ ہو کر اِس شعبے کو خیرباد کہنے کا فیصلہ کرلیا۔

اُس موقعے پر شجاع صاحب نے سمجھایا کہ میدان چھوڑنے کے بجائے اپنے حقوق کے لیے صحیح طریقہ اختیار کیا جائے۔ یہ طریقہ خاصا منفرد تھا۔ اُن کی تحریک پر کراچی کے تمام امپائرز نے ہڑتال کر دی، اور کراچی کرکٹ ایسوسی ایشن کے سامنے اپنے مطالبات رکھے۔ پہلا مطالبہ تو یہی تھا کہ امپائرنگ کو ایک معزز شعبہ تسلیم کیا جائے۔ ’’ہم نے کہا، امپائرنگ ’پیشہ‘ نہیں، بلکہ ’شوق‘ ہے۔ ایک میچ کے عوض امپائر کو فقط پانچ روپے ملتے ہیں۔ تمام امپائر پڑھے لکھے اور شریف لوگ ہیں، جو شوق کی خاطر یہ کام کرتے ہیں، تو اُن کا احترام کیا جائے۔‘‘ مطالبات مان لیے گئے۔ پانچ روپے کو معاوضے کے بجائے ’’کنوینس الائونس‘‘ کہا جانے لگا۔

امپائرز کی بات بھی سُنی جانے لگی۔پھر ایک اور واقعہ ہوا۔ ایک روز ملاقات کراچی کرکٹ ایسوسی ایشن کے نائب صدر، ایم ایم بخشی سے ہوئی، جنھوں نے بڑے ہی دل چسپ انداز میں یہ پیش گوئی کی کہ تم بہت جلد ٹیسٹ امپائر بننے کا اعزاز حاصل کروگے۔ یہ سن کر اُنھیں بڑی راحت ملی۔ ’’میں نے سوچا، دنیا میں کوئی ایک شخص تو ہے، جو یہ سمجھتا ہے کہ میں ٹیسٹ امپائر بن سکتا ہوں، تو مجھے اُسے مایوس نہیں کرنا چاہیے۔‘‘71ء میں کرکٹ بورڈ نے فرسٹ کلاس امپائرز کا جو پینل تشکیل دیا، محبوب شاہ اُس میں شامل تھے۔ یوں وہ فرسٹ کلاس مقابلوں میں فیصلے صادر کرنے لگے۔ اُن ہی دنوں انٹرنیشنل الیون ایک امدادی میچ کے لیے پاکستان آئی۔ محبوب شاہ اُس میچ کے امپائر تھے۔

سری لنکا کی اے ٹیم پاکستان آئی، تو ایک غیرسرکاری ٹیسٹ میچ کا انعقاد ہوا۔ اِس بار بھی اُنھیں ہی اپیلوں کے فیصلے کرنے کا اختیار سونپا گیا۔ مارچ 75ء میں، جب ویسٹ انڈیز نے پاکستان کا دورہ کیا، تو کراچی میں ہونے والے میچ سے بہ طور ٹیسٹ امپائر اپنے کیریر کا آغاز کیا۔ 78ء میں ہندوستانی ٹیم دورے پر آئی، تو لاہور اور کراچی ٹیسٹ میں اُن کی صلاحیتوں سے استفادہ کیا گیا۔ آنے والے برسوں میں تسلسل کے ساتھ یہ ذمے داری سنبھالی، یہاں تک کہ 81ء میں انگلینڈ میں ہونے والے کائونٹی میچز میں بھی امپائرنگ کی۔ 94ء میں جب آئی سی سی نے پہلا ’’انٹرنیشنل پینل فور امپائرز‘‘ تشکیل دیا، تو محبوب شاہ اور خضرحیات اُس کا حصہ بننے والے اولین پاکستانی تھے۔

اُسی برس پہلی بار بیرون پاکستان کسی ٹیسٹ میچ میں امپائرنگ کا فریضہ انجام دیا۔ مارچ 97ء تک وہ اِس حیثیت میں مصروف رہے۔ آخری بار ہیملٹن میں ایکشن میں نظر آئے، جہاں نیوزی لینڈ اور سری لنکا مدمقابل تھے۔ مجموعی طور پر 28 ٹیسٹ میچز میں امپائرنگ کی۔ 32 ون ڈے میچز میں اُنھوں نے فیصلے صادر کیے۔ پہلی بار اکتوبر 76ء میں، سیال کوٹ میں پاکستان اور نیوزی لینڈ کے درمیان ہونے والے میچ میں امپائرنگ کی۔ دسمبر 96ء میں آخری بار کسی ون ڈے میچ میں یہ ذمے داری سنبھالی۔ دو ورلڈ کپ مقابلوں میں اپیلوں کا فیصلہ کرنے کا اختیار اُن کے پاس تھا۔ پہلی بار 87ء کے ورلڈ کپ میں ایکشن میں نظر آئے۔ کلکتا میں ہونے والے فائنل میں اُن ہی کی صلاحیتوں پر بھروسا کیا گیا۔ 96ء کے ورلڈ کپ میں بھی اُن کی مہارت سے استفادہ کیا گیا۔ فائنل میں وہ تھرڈ امپائر تھے۔

یہ امر خاصا دل چسپ ہے کہ بہ طور ٹیسٹ امپائر اپنے کیریر کا آغاز کرنے سے دو روز پہلے تک وہ اِس معاملے سے یک سر لاعلم تھے!

بتاتے ہیں، میچ سے دو روز قبل شجاع صاحب اِس غیرمتوقع خبر کے ساتھ اُن کے گھر آئے کہ اُنھیں اور محبوب شاہ کو کراچی ٹیسٹ میں امپائر مقرر کیا گیا ہے۔ یہ خبر خوش گوار اثرات کی حامل تھی، مگر اِس سے چند مسائل بھی نتھی تھے۔ بہ قول اُن کے، عام طور سے ’’پلیئنگ کنڈیشنز‘‘ میں امپائر کے لیے سفید کوٹ، ٹائی، سفید ہیٹ اور کالی پتلون کی شرط ہوتی تھی۔ ’’کالی پتلون میرے پاس تھی نہیں، اور دوسرے روز ’کشمیر ڈے‘ کی چھٹی تھی۔ یعنی کسی سے مانگ بھی نہیں سکتا تھا، کیوں کہ آلٹریشن کا کوئی امکان نہیں تھا۔‘‘ خوش قسمتی سے تحریری صورت میں جو ’’پلیئنگ کنڈیشنز‘‘ ان تک پہنچیں، اُن میں فقط سفید ہیٹ کا ذکر تھا، جس کا کسی نہ کسی طرح انتظام کر لیا۔

میچ والی صبح جی کڑا کیا، خاکستری (Gray) رنگ کی پتلون زیب تن کی، اور میدان میں پہنچ گئے۔ کسی نے اعتراض نہیں کیا، مگر اگلے ہی روز ایک اور مشکل آن پڑی۔ پتلون اِس طرح پھٹ گئی کہ سلنے کا کوئی امکان نہیں رہا۔ اُنھوں نے خاموشی سے کتھئی رنگ کی پتلون پہن لی، اور فیصلے صادر کرنے کا سلسلہ جاری رہا۔ الغرض پاکستان کی فتح پر منتج ہونے والا وہ میچ محبوب شاہ کے لیے خوش گوار یادیں چھوڑ گیا۔

پہلا ون ڈے میچ: ایک تلخ تجربہ

بہ طور امپائر اپنے پہلے ون ڈے میچ سے شاہ صاحب کی تلخ یادیں وابستہ ہیں۔ کہتے ہیں،’’سیالکوٹ میں میچ تھا۔ گیسٹ ہائوس میں ہمارے ٹھہرنے کا انتظام کیا گیا۔ جب میں وہاں پہنچا، تو میرے ساتھ انگریزی زبان کے تین پاکستانی کومنٹیٹرز بھی تھے، جو اپنی گفت گو میں میرے لباس پر پھبتیاں کَس چکے تھے۔ خیر، استقبالیے سے پتا چلا کہ صرف دو کمرے ہیں۔ ہم چار افراد تھے۔ ہم سے کہا گیا کہ دو ایک کمرے میں ٹھہر جائیں، دو دوسرے کمرے میں۔

جن صاحب کو میرے ساتھ کمرہ شیئر کرنا تھا، اُنھوں نے حقارت سے مجھے دیکھا، اور انگریزی میں کہا، ’نہیں، ہم تینوں ایک ہی کمرے میں رہ لیں گے!‘ اُن کے رویے سے مجھے شدید صدمہ پہنچا۔‘‘میچ کے اختتامی لمحات بھی کرب ناک ثابت ہوئے۔ ’’آخری اوور تھا۔ پاکستان کو جیتنے کے لیے دو تین رنز چاہیے تھے۔ لانس کینز بولر تھا۔ اب کپتان اور بولر آپس میں باتیں کر رہے ہیں کہ امپائر پاکستانی ہے، کہیں زبردستی گیند کو نوبال نہ دے دے۔ بالر نے کپتان سے کہا، وہ گیند کریز کے پیچھے سے کرے گا، تاکہ نوبال کا امکان ہی نہ رہے۔ یعنی بے اعتباری کا یہ عالم تھا۔ اُس روز مجھے بہت شرمندگی ہوئی۔ ‘‘

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔