پتھر…جو ہائی ٹیک صنعت کے لیے ہیرے ہیں

محمد اختر  اتوار 17 مارچ 2013
فوٹو: فائل

فوٹو: فائل

آج کل نوجوانوں میں ویڈیو گیم ’’کال آف ڈیوٹی، بلیک آپریشنز پارٹ ٹو‘‘ بہت مقبول ہے۔

اس گیم میں 2025 کا زمانہ دکھایا گیا ہے۔ گیم میں تصوراتی زندہ لاشوں “Zombies”  کے ساتھ لڑائی کے علاوہ امریکا اور چین کے درمیان قیمتی پتھروں “rare earth”  کے لیے جنگ کو پیش کیا گیا ہے۔ (rare earth)  اصل میں ایسے پتھروں کو کہتے ہیں جن میں کیمیائی عناصر والی دھاتوں کے ذرے موجود ہوتے ہیں۔

یہ کیمیائی دھاتی عناصر آج کی جدید دنیا میں اسمارٹ فون سے لے کر سپرکمپیوٹرز اور ہوائی جہازوں سے لیکر ہتھیاروں تک لاتعداد اشیاء کی تیاری میں استعمال ہوتے ہیں۔ان کے بغیر یہ جدید اشیاء تیار کرنا ممکن نہیں۔مذکورہ بالا ویڈیو گیم کے آغاز میں ایک کردار اسمارٹ فون کی طرف اشارہ کرکے لیکچر دیتا ہے اور شرکاء سے rare earth دھاتوں کے بارے میں پوچھتا ہے: ’’یہ تمام قیمتی پتھر اب کس کی اجارہ داری میں ہیں؟‘‘ پھر وہ خود ہی کہتا ہے: ’’چین کی۔۔۔‘‘

یہ تو محض ایک ویڈیو گیم ہے لیکن اگر اس میں سے Zombies کو نکال دیا جائے تو یوں لگتا ہے کہ مستقبل میں اسی قسم کا منظر نامہ بننے جارہا ہے جو کہ اس ویڈیو گیم میں دکھایاگیا ہے۔ rare earth کیمیائی دھاتی عناصر محض ویڈیو گیم کا حصہ نہیں بلکہ حقیقت میں وجود رکھتے ہیں اور قیمتی ٹیکنالوجیز کی تیاری میںان کا استعمال بنیادی اہمیت رکھتا ہے۔

قارئین آپ کو بتاتے چلیں کہ ہمارا ہمسایہ ملک چین rare earth پیدا کرنے والا دنیا کا سب سے بڑا ملک ہے اور اس شعبے میں اس کی اجارہ داری قائم ہے۔2010ء میں چین کی جانب سے جب اعلان کیا گیا کہ وہ ان rare earth کی برآمد کو کم کررہا ہے تو ترقی یافتہ صنعتی دنیا میں ہلچل مچ گئی تھی۔ایک ٹریلین یعنی دس کھر ب ڈالر مالیت کی ہائی ٹیکنالوجی انڈسٹری rare earth کے بغیر نہیں چل سکتی کیونکہ یہ ان کی تیاری کا لازمی جز فراہم کرتے ہیں۔

بڑی بڑی کنزیومر کمپنیوں کو خوف ہے کہ اگر ان دھاتوں کی ذخیرہ اندوزی کرلی گئی تو وہ کمپیوٹرسکرینز ، لائٹ بلب اور دیگر چیزیں کیسے تیار کریں گی۔ہتھیارتیار کرنیوالی امریکی کمپنیاں فکرمند ہیں کہ اگر انھیں یہ جز نہ ملا تو وہ ابرامز ٹینک اور ٹوما ہاک کروز میزائل کیسے تیار کریں گی۔امریکی رکن کانگریس ڈونلڈ منزولو کا کہنا ہے کہ اس بحران کا پھیلائو بہت وسیع ہے اور سنجیدہ کوششیں کرکے ہی اس بحران سے بچا جاسکتا ہے۔ اس طرح پرنسٹن یونیورسٹی کے اکانومسٹ اور نوبل انعام یافتہ پال کروگمین کا کہنا ہے کہ چین نے مذکورہ نایاب دھاتی پتھروں کے حوالے سے اجارہ داری قائم کرلی ہے۔

’’ٹائم‘‘ میگزین کی رپورٹ کے مطابق اگرچہ چین کی جانب سے نایاب پتھروں کی برامدآت میں کمی کے باوجود ابھی اس طرح سے ان کی قلت دیکھنے میں نہیں آئی جسے تشویشناک قرار دیا جاسکے۔ لیکن اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ مستقبل میں یہ مسئلہ شدت اختیار کرسکتا ہے۔اس وقت کساد بازی کی عالمی صورت حال کے باعث ان کی طلب ویسے ہی کم ہے۔امریکا اور جاپان کی کمپنیوں نے ایسی کوششیں شروع کردی ہیں جن کے تحت ان نایاب پتھروں کا ٹیکنالوجی میں استعمال کم کیا جارہا ہے لیکن اس کے باوجود چین کوٹے کے مطابق ان کی برآمد نہیں کررہا۔

rare earth کی تھوڑی سی مزید وضاحت

یہ نایاب پتھر حقیقت میں نایاب نہیں ہوتے۔زمین کے اندر یہ بکثرت پائے جاتے ہیں لیکن انھیں rare earth اس لیے کہا جاتاہے کیونکہ انھیں زمین کی زیریں چٹانوں سے بڑی مشکل سے نکالا جاتا ہے۔عالمی سطح پر ان کی مارکیٹ کی مالیت صرف دو ارب ڈالر سالانہ ہے جو کہ امریکا میں چیونگم کی فروخت سے حاصل ہونے والی کُل آمدن سے بھی کم ہے۔ لیکن اس کے باوجود یہ بہت اہم ہیں۔ الی نوائس سے تعلق رکھنے والی امریکی ماہر گیرتھ ہیچ کا کہنا ہے کہ یہ دھاتی پتھر ٹیکنالوجی کی تیاری میں لازمی عنصر ہیں۔مثال کے طور پر چند ٹکے مالیت کا دھاتی عنصر نیوڈائمیم neodymiumاگر نہ ہو تو آپ کی سو ڈالر مالیت کی کمپیوٹر ہارڈ ڈرائیو کام نہیں کرسکتی۔اس طرح اگر دس بیس ڈالر مالیت کا دھاتی عنصر ڈسپروشیم dysprosium نہ ہو تو آپ کی پچیس ہزار ڈالر مالیت کی ٹویوٹا پریاس کا چلنا ممکن نہیں۔

ان نایاب پتھروں سے دھاتی عناصر کو نکالنا ایک انتہائی پیچیدہ اور ماحولیات کے لیے ایک نقصان دہ عمل ہے ۔لاس ویگاس کے جنوب میں مائونٹین پاس نامی علاقے میں صرف ایک کان دنیا کو ان نایاب عناصر کی فراہمی کا سب سے بڑا ذریعہ تھی۔1960 سے لیکر 1980 کی دہائی تک اس کی اجارہ داری قائم تھی۔ لیکن جب قیمتیں گریں اور ماحولیات کو نقصان آمدن سے زیادہ بڑھ گیا تو ان کی پیداوار بھی کم کردی گئی۔لیکن اس کے جواب میں 1980ء کی دہائی میں ہی چین نے اس کا فائدہ اٹھایا اور ان پتھروں کی پیداوار بڑھا دی۔

چین کو اپنی سستی لیبر اور نئی اقتصادی اصلاحات سے بھی اس کا حوصلہ ملا تھا۔1986ء تک چین ان پتھروں کی پیداوار میں امریکا سے آگے نکل گیا۔ چین کے اس وقت کے عظیم لیڈر ڈینگ ژیائو پنگ نے 1992ء میں اس انڈسٹری کو اور ترقی دی اور اپنی قوم پر زور دیا کہ وہ ان پتھروں کی پیدوار کی اپنی صلاحیت کا بھرپور فائدہ اٹھائیں۔2002ء میں امریکا کی طرف سے مائونٹین پاس کی کانیں مکمل طور پر بند کردی گئیں ۔ اب دنیا کو ان نایاب پتھروں کی پچانوے فیصد سپلائی چین کررہا ہے۔

کئی سال تک دنیا اس بات پر خوش تھی کہ ماحولیات کے لیے اس نقصان دہ اور مشکل کام کو چین نے اپنے ذمے لے لیا ہے۔لیکن جب ماحولیات کے حوالے سے خدشات بہت بڑھ گئے تو چین نے بھی ان پتھروں کی پیدوار میں احتیاط کے دامن کو تھامنا شروع کردیا اور ان کی پیداوار کم کردی۔اب چین ایک ایسی صنعت سے کم فائدہ اٹھانے پر تیار نہیں جس پر اس کی مکمل اجارہ داری ہے۔ 2006ء میں چین نے ان پتھروں کی برآمد کا کوٹہ کم کردیا جو کہ اس کی مختلف کمپنیوں کے پاس تھا۔ 2010ء میں اس نے کوٹہ مزید چالیس فیصد کم کردیا۔اس طرح دنیا میں اس کی قلت ہوگئی۔

پھر چین کی طرف سے ایک انتہائی ڈرامائی قدم اٹھایا گیا۔ اس نے جاپان کو ان پتھروںکی فراہمی روک دی۔اس کی وجہ چین کا مشرقی چین کے سمندر میں واقع جزائر کی ملکیت کے حوالے سے جاپان کے ساتھ تنازعہ تھا۔ان پتھروں کے ایک جاپانی ماہر اور کمپنی مالک نک کوٹاکی کا کہنا ہے کہ دراصل چین نے جان لیا تھا کہ وہ جاپان کو ان پتھروں کی فراہمی روک کر اسے ایک سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کرسکتا ہے کیونکہ جاپان چین سے ان پتھروں کا سب سے بڑا خریدار تھا۔

چین کو جواب

اس واقعے کے بعد سرمایہ کاروں اور تجارتی اداروں نے چین سے باہر ان نایاب پتھروں کے ذرائع تلاش کرنے کے لیے سرجوڑ لیے۔کولوریڈو کی ایک امریکی کمپنی ’’مولی کارپ‘‘ نے مائونٹین پاس میں واقع کان دوبارہ کھولنے کے لیے پانچ سو ملین ڈالر کی سرمایہ کاری کی۔ صرف ایک سال کے اندر اس کمپنی کے شیئرز کی قیمت چھ گنا بڑھ گئی۔دوسری جانب ٹورنٹو کے ایک ماہرڈونلڈ بوبر نے  Avalon rare earth کے نام سے کمپنی بنائی جس میں rare earth کے الفاظ خاص تجارتی مقاصد کے لیے شامل کیے گئے۔

ان کا کہنا ہے کہ بظاہر یہ ایک مضحکہ خیز صورت حال لگتی ہے کہ آپ نے ایک کمپنی کے نام میں rare earth  کا لفظ شامل کیا اور آپ کا کاروبار ایک دم اوپر کی طرف جانے لگا۔لیکن بات صرف اتنی ہے کہ سرمایہ کاری کرنے والے دوسرے گروپ ان پتھروں کی ا ہمیت کے بارے میں جانتے ہیں۔ڈونلڈ بوبر کی کمپنی ایوالون ریر ارتھ 2017 میں اپنی کانوں سے ان کی پیدوار کی امید رکھتی ہے۔ان کا کہنا ہے کہ ان پتھروں کے لیے سرمایہ بڑے پیمانے پر حرکت میں ہے۔سیکڑوں کمپنیاں ان دھاتی عناصر والے پتھروں کے حصول کے لیے سرمایہ کاری میں اضافہ کررہی ہیں۔

تاہم اس سارے معاملے میں جاپان کا مسئلہ برقرار ہے۔جاپان اپنے لیے دوتہائی نایاب پتھر چین سے خریدتا ہے جس کی وجہ سے اس کی معیشت زیادہ خدشات سے دوچار ہے۔جاپان کی معیشت کا چینی نایاب پتھروں پر انحصار امریکا کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہے۔جاپان میں خصوصی مقناطیس اور دیگر جدید اجزاء تیار کرنے والی کمپنیوں کو بڑے پیمانے پر ان کیمیائی عناصر والے پتھروں کی ضرورت ہوتی ہے۔لیکن اس کے پاس ان پتھروں کا ذخیرہ بہت کم ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جاپانی حکومت اپنی عظیم الیشان ہائی ٹیک صنعت کو درپیش بحران سے اس قدر خوفزدہ ہوئی کہ اس نے دھاتی پتھروں کے چین سے باہر ذخائر کی تلاش، دھاتی پتھروں کے متبادل اجزاء کی تیاری اور ری سائیکلنگ کو بہتر بنانے میں جاپانی کمپنیوں کی مدد کے لیے ایک ارب ڈالر کی سبسڈی دے دی۔

بڑے پیمانے پر اس میدان میں سرمایہ کاری بارآور ہورہی ہے۔اب جاپان کے بڑے مینو فیکچررز ،جن میں سے ایک ’’سومی ٹومو‘‘ بھی ہے جو کہ ٹویوٹا سے منسلک ایک کمپنی ہے، جلد اس قابل ہوجائیں گے کہ اپنی rare earth کی 35 فیصد طلب کو چین سے باہر سے پورا کرسکیں۔یہ کامیابی ان کو قازقستان اور بھارت میں ان پتھروں کی تلاش کے لیے بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کے نتیجے میں ملے گی۔ان پتھروں کے ایک امریکی ماہر جیک لفٹن کا کہنا ہے کہ چین دھاتی پتھروں کو جاپان پر دبائو ڈالنے کے لیے استعمال کررہا ہے۔لیکن لگتا ہے کہ اس کو کامیابی نہیں ہورہی بلکہ الٹا جاپان نے اس کا متبادل تلاش کرنے کی کوششیں تیز کردی ہیں۔

پیداوار کے نئے طریقوں سے بھی جاپان کا ان کیمیائی دھاتی عناصر والے پتھروں پر انحصار کم ہورہا ہے۔اس وقت جاپان کی پالش کی صنعت میں ان پتھروں بالخصوص سیریم کا استعمال سب سے زیادہ ہے لیکن ان کے متبادل جیسے ایلومینا کے استعمال کے ذریعے جاپانی کمپنیوں نے مذکورہ پتھروں پر انحصار کو پندرہ فیصد تک گھٹا لیا ہے۔اس کے لیے مزید حل بھی تلاش کیے جارہے ہیں۔ نسان کمپنی نے نومبر میں اعلان کیا کہ اس نے نئی قسم کے مقناطیس تیار کرلیے ہیں جو اس کی لیف ہائی برڈ گاڑی میں استعمال ہونے والی الیکٹرک موٹروں میں 40فیصد کم ڈسپروشیم استعمال کریں گے۔

اس کے علاوہ ان دھاتی پتھروں کے لیے ری سائیکلنگ کے عمل کو ممکن بنانے کی ٹیکنالوجی بھی آخری مراحل میں ہے۔ مقناطیس تیار کرنے والی ایک کمپنی شن زو کیمیکلز تائیوان میں ایک پلانٹ لگار ہی ہے جہاں بے کار ہائی برڈ گاڑیوں ، مختلف آلات اور کمپیوٹر ہارڈ ڈرائیوز سے ان پتھروں میں پائے جانے والے دھاتی کیمیائی عناصر کو الگ کیا جائے گا اور ان کو نئے سرے سے استعمال کیاجائے گا۔ ہٹاچی کمپنی نے بھی ایسے آلات تیار کرلیے ہیں جن کے ذریعے ہارڈ ڈرائیوز ، کمپریسرز ا ور ائیرکنڈیشنڈز سے ان دھاتی عناصر کو زیادہ تیزی کے ساتھ الگ کیا جاسکتا ہے۔

ان پتھروں کی عالمی مارکیٹ بہت چھوٹی ہے ، اس لیے باقی دنیا کے لیے خاصا مشکل ہوگا کہ چین کے اس صنعت پر غلبے سے نکلنے کے لیے جاپان سے کوئی سبق حاصل کرے۔تاہم اس سے بھی زیادہ قابل غور بات یہ ہے کہ یہ سب کچھ ایک ایسے دور میں ہورہا ہے جب بہت سی حکومتیں سائنس و ٹیکنالوجی پرتحقیق کے لیے اخراجات کو کم کررہی ہیں۔ مسٹر کوٹاکی کا کہنا ہے کہ جاپان کی تیزی سے خود کو ڈھالنے کی صلاحیت اس کو اس میدان میں کامیاب بنارہی ہے۔ان کا کہنا ہے کہ چین نے جاپان کو ’’انڈر ایسٹی میٹ‘‘ کیا حالانکہ ہمارے پاس بے شمار آئیڈیاز اور ردعمل کی صلاحیت موجود ہے۔

یقینی طور پر یہ ساری صورت حال قیاس آرائیوں کے ماہرین (قیاس آرائیاں کرکے سرمایہ کاری کو اٹھانے یا گرانے کے ماہرین) کے لیے اچھی نہیں۔اس وقت کئی نایاب پتھروں کی قیمتیں گرچکی ہیں۔اس طرح ان پتھروں میں سرمایہ کاری کے لیے کان کن کمپنیوں نے جو بلبلہ بنایا تھا ، وہ پھٹ چکا ہے۔گذشتہ سال مولی کارپ کے حصص کی قیمتوں میں دوتہائی کمی دیکھنے میں آئی جس کی وجہ ان پتھروں کی قیمتوں میں کمی کے علاوہ سیکیورٹی اینڈ ایکسچینج کمیشن کی جانب سے تحقیقات بھی ہیں۔ کمپنی تحقیقاتی اداروں کے ساتھ تعاون کررہی ہے۔

طلب میں کمی اور رسد کے نئے ذرائع سامنے آنے کے باوجود چین اس کا بھی ردعمل ظاہر کرنے سے رکنے پر تیار نہیں۔وہ ان پتھروں پر اپنی اجارہ داری برقرار رکھنے کے لیے ہرممکن کوشش کر رہا ہے۔اندرون منگولیا میں ان پتھروں کی پیدوار کرنے والی چین کی سرکردہ کمپنی انر منگولیا بائوٹس اسٹیل ریر ارتھ گروپ نے گزشتہ دو ماہ سے پیداوار بند کر رکھی ہے جس کا مقصد قیمتوں کو اوپر لے کر جانا ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ عالمی معیشت کے بحال ہونے کی صورت میں ان پتھروں کی قیمتیں ایک بار پھر اوپر جاسکتی ہیں تاہم قیمتوں کے حوالے سے جو ہلچل 2010 اور 2011 میں پیدا ہوئی تھی ، اس کا شاید امکان نہ ہو۔ویڈیو گیم ’’call of duty‘‘ میں جس طرح کمانڈوز اس بحران کو ختم کرنے کے لیے کوشاں دکھائی دیتے ہیں ، اسی طرح حقیقی دنیا میں بھی سرمایہ کار، تجارتی ادارے ، سائنسدان اور پالیسی ساز اس بحران سے نکلنے کیلئے سرجوڑ کر بیٹھے ہیں ۔

نایاب پتھروں کی انوکھی خصوصیات

قارئین ، ان پتھروں میں کیا کچھ پایا جاتا ہے ، آئیے آپ کو اس کے بارے میں تھوڑا سا بتاتے ہیں۔ مثال کے طور پر ایک پتھر میں گاڈولنیم gadolinium نامی کیمیائی عنصر پایا جاتا ہے جو کہ ایم آر آئی ٹیسٹوں میں کنٹراسٹ کی فراہمی کے لیے ضروری ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ یہ ایک ایسا جز بھی ہے جو انڈسٹریل گارنٹس کی تیاری میں استعمال ہوتا ہے۔اس طرح ایک پتھرسے ٹیربیم terbium  نامی کیمیائی عنصر ملتا ہے جو سبزی مائل چمک پیدا کرتا ہے اور ایسے الائے تیار کرنے میں مدد دیتا ہے جو مقناطیسی میدان میں پھیلتے ہیں اور سونر آلات میں استعمال ہوتے ہیں۔

اس طرح کیمیائی عنصر ہولمیم holmium بھی ان پتھروں سے ہی ملتا ہے جو کہ انتہائی طاقتور مقناطیس کا بنیادی عنصر ہوتا ہے اور ان کا استعمال میڈیکل لیزر میں ہوتا ہے۔ سیریم cerium نامی عنصر بھی ان پتھروں کا حصہ ہوتا ہے جو کہ مائع کرسٹل ڈسپلے کی پالش کے علاوہ سیمی کنڈکٹرز اور کیمیائی عمل انگیزی میں استعمال ہوتا ہے۔یورو پیم europium نامی کیمیائی عنصر جو کہ ایکس رے ٹوموگرافی میں استعمال کیاجاتا ہے، انہی پتھروں سے نکالا جاتا ہے۔ ڈسپروشیم نامی dysprosium کیمیائی عنصر بھی ان پتھروں سے ہی حاصل کیا جاتا ہے ا ور یہ انتہائی سرد حالت میں بھی مقناطیسی طاقت برقرار رکھتا ہے اوراس کو ایٹمی پلانٹس کے کنٹرول راڈز میں استعمال کیا جاتا ہے۔

یاد رہے کہ ایک کیمیائی عنصرسے مراد ایسا خالص کیمیائی مادہ ہے جو ایک ہی قسم کے ایٹم پر مشتمل ہوتا ہے جن کو اس کے ایٹمی نمبر کے حساب سے ممیز کیا جاتا ہے جوکہ اس کے نیوکلیئس میں پروٹونز کی تعداد کے مطابق ہوتا ہے۔ یعنی اگر نیوکلیئس میں 10 نیوٹران ہیں تو اس کاایٹمی نمبر بھی 10 ہوگا۔یہ ٹوٹل 17 کیمیائی عناصر ہیں جو ان rare earth پتھروں سے حاصل ہوتے ہیں۔آئیے ذیل میں ان 17 کیمیائی عناصرکے بارے میں تفصیل سے پڑھتے ہیں:

1 –     Scandium سکینڈیم کا ایٹمی نمبر 21 اور اس کی علامت Sc ہے۔یہ پہلا ریر ارتھ عنصر ہے جو سکینڈے نیویا سے ملا اور اسی مناسبت سے یہ سکینڈیم کہلاتا ہے۔اس کو ایرو سپیس آلات کے لائٹ ایلومینیم سکینڈیم الائے ، مرکری لیمپس اور دیگر ہائی ٹیک آلات میں استعمال کیا جاتا ہے۔

-2      Yttrium وائی تریم کا ایٹمی نمبر 39 اور کیمیائی علامت       Y ہے۔ یہ سویڈن کےYtterby, گائوں سے ملنے کے باعث Yttrium کہلایا۔یہ مائیکروویو فلٹرز، انرجی پچانے والے لائٹ بلبوں کے علاوہ ہائی ٹمپریچر سپرکنڈکٹرز ، وائی تریم فولادی گارنٹس اور ٹی وی فاسفور کے علاوہ مختلف چیزوں میں استعمال ہوتا ہے۔

-3      Lanthanum لینتھانم کا ایٹمی نمبر 57 اور علامت La ہے۔اسے یہ نام یونانی لفظ lanthanei سے ملا ہے جس کا مطلب ہے ’’چھپا ہوا‘‘ ۔ یہ انڈکس گلاسز ، فلنٹ ، ہائیڈروجن اسٹوریج ، بیٹریز الیکٹراڈز ، کیمرہ لینز اور آئل ریفائنریز میں عمل انگیزی کے لیے استعمال ہوتا ہے۔

4  –    Cerium سیریم کا ایٹمی نمبر 58 اور علامت سی ای ہے۔ یہ ننھے سیارے سیرس کے نام پر سیریم کہلایا۔ یہ کیمیائی آکسیڈائزنگ ایجنٹ ، پالشنگ پائوڈر ، شیشے اور سرامکس میں زرد رنگ، کیمیائی عمل انگیزی اور لائٹرز میں استعمال ہوتا ہے۔

5 – پراسیوڈائمیمPraseodymium کا ایٹمی نمبر 59 اور علامت Pr ہے۔اسے یہ نام یونانی الفاظ prasios معنی ہلکا سبز اور didymos معنی جڑواں سے ملا ہے۔اس کومقناطیسوں ، لیزر، کاربن آرک لائٹنگ ، شیشے اور انیمل میں رنگ ، ویلڈنگ عینکوں اور دیگر جدید آلات کی تیاری میں استعمال کیاجاتا ہے۔

6  -نیوڈائمیم Neodymiumکا ایٹمی نمبر 60 اور علامت Nd ہے۔یہ بھی مقناطیسوں ، لیزر، شیشوں اور سرامکس میں عنابی رنگ کے علاوہ سرامک کیپیسٹرز میں استعمال ہوتا ہے۔

– 7پرومیتھیمPromethium کا ایٹمی نمبر 61 اور علامت Pm ہے۔ یہ یونانی دیوتا Titan Prometheus کے نام پر پرومیتھیم کہلایا۔اس کا استعمال ایٹمی بیٹریز میں ہوتا ہے۔

8  -سماریم        Samarium کا ایٹمی نمبر 62 اور کیمیائی علامت Sm  ہے۔اس کو یہ نام سائنسدان واسیلی سمارسکی بائیخووٹس کے نام پر دیا گیا جس نے اسے دریافت کیا تھا۔ اس کا استعمال مقناطیسوں ، لیزر ، نیوٹران کیپیسٹرز اور دیگر آلات میں ہوتا ہے۔

9 -یوروپیم Europium ، اس کا ایٹمی نمبر 63 اور کیمیائی علامت Eu ہے۔اسے یہ نام براعظم یورپ پر دیا گیا۔اسے سرخ اور نیلی فاسفورس ، لیزر ، مرکری لیمپوں اورNMR ریلیکسیشن ایجنٹوں میں استعمال کیا جاتا ہے۔

10 –   گاڈولینیم Gadolinium ، اس کا ایٹمی نمبر 64 اور کیمیائی علامت Gd ہے۔اسے یہ نام سائنسدان جوہان گاڈولن کی یاد میں دیا گیا جس نے اس عنصرکو دریافت کیا تھا۔اس کا استعمال مقناطیسوں ، ہائی ریفرا ایکٹو انڈکس گلاسز ، صنعتی گارنٹس، لیزر ، ایکس رے ٹیوبز ، کمپیوٹرمیموریز ، نیوٹران کیپچرز ، ایم آر آئی کنٹراسٹ ایجنٹ اور این ایم آر ریلیکسیشن ایجنٹوں میں کیا جاتا ہے۔

-11    ٹیربیمTerbium کا ایٹمی نمبر65 اور کیمیائی علامت Tb ہے، اسے یہ نام سویڈن کے گائوں Ytterby پر دیا گیا جہاں سے دریافت ہوا تھا۔اس کا استعمال سبز فاسفورس ، لیزر ، لیمپوں اوردیگر اشیاء میں ہوتا ہے۔

12 -ڈسپروشیم Dysprosium کا ایٹمی نمبر 66 اور علامت Dy ہے۔ اس کا نام یونانی لفظ dysprositos سے لیا گیا جس کا مطلب ’’نایاب‘‘ ہے۔ اسے بھی مقناطیسوں اور لیزر کی تیاری میں استعمال کیاجاتا ہے۔

13 -ہولمیمHolmium کا ایٹمی نمبر 67 اور علامت Ho ہے۔اسے یہ نام سویڈن کے شہر اسٹاک ہولم پر دیا گیا جس کے قریب سے یہ دریافت ہوا تھا۔اسے لیزر میں استعمال کیا جاتا ہے۔

14 – ایربیمErbium کا ایٹمی نمبر68 اور علامت Er ہے۔ اسے بھی سویڈن کے گائوں Ytterby کی مناسبت سے یہ نام دیا گیا جہاں سے یہ ملا تھا۔یہ لیزر اور وناڈیم اسٹیل میں استعمال ہوتا ہے۔

15 – تھولیمThulium  کا ایٹمی نمبر 69 اور علامت Tm ہے۔ اسے یہ نام دیومالائی شمالی خطے تھول کی مناسبت سے دیا گیا۔ یہ پورٹیبل ایکس رے مشینوں میںاستعمال ہوتا ہے۔

16 – وائی ٹربیمYtterbium کا ایٹمی نمبر 70 اور علامت Yb ہے۔ یہ بھی سویڈن کے گائوں Ytterby کے قریب سے دریافت ہوا تھا۔یہ انفرا ریڈ لیزر ، کیمیکل ریڈیوسنگ ایجنٹوں میں استعمال ہوتا ہے۔

17 – لوٹیٹیم Lutetium کا ایٹمی نمبر 74 اور علامت Lu ہے۔ اسے یہ نام لوٹیٹیا شہر کے نام پر دیا گیا جو بعد میں پیرس بنا۔ یہ ٹوموگرافی ، PET  سکین ڈیٹیکٹرز اور انڈکس گلاسز میں استعمال ہوتا ہے۔

یہ نایاب پتھر حقیقت میں نایاب نہیں ہوتے،زمین کے اندر یہ بکثرت پائے جاتے ہیں لیکن انہیں Rare Earth اس لیے کہا جاتاہے کیونکہ انہیں زمین کی چٹانوں سے بہت مشکل سے نکالا جاتا ہے،عالمی سطح پر ان کی مارکیٹ کی مالیت صرف دو ارب ڈالر سالانہ ہے جو کہ امریکا میں چیونگم کی فروخت سے حاصل ہونے والی کُل آمدن سے بھی کم ہے، لیکن اس کے باوجود یہ بہت اہم ہیں، الی نوائس سے تعلق رکھنے والی امریکی ماہر گیرتھ ہیچ کا کہنا ہے کہ یہ دھاتی پتھر ٹیکنالوجی کی تیاری میں لازمی عنصر ہیں، مثال کے طور پر چند ٹکے مالیت کا کیمیائی دھاتی عنصر نیوڈائمیم Neodymiumاگر نہ ہو تو آپ کی سو ڈالر مالیت کی کمپیوٹر ہارڈ ڈرائیو کام نہیں کرسکتی، اس طرح اگر دس بیس ڈالر مالیت کا دھاتی عنصر ڈسپروشیم Dysprosium نہ ہو تو آپ کی پچیس ہزار ڈالر مالیت کی ٹویوٹا پریاس کا چلنا ممکن نہیں

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔