اعتراف علم کا ایک انداز

ڈاکٹر یونس حسنی  پير 18 دسمبر 2017

سرسید احمد خان 17 اکتوبر 1817 کو دہلی میں پیدا ہوئے۔ 2017 سرسید کی پیدائش کا دو سوواں سال ہے۔ چنانچہ برصغیر پاک و ہند کے علاوہ دنیا بھر میں جہاں بھی اردو والے آباد ہیں انھوں نے سرسید کی ملی خدمات اور ادبی فتوحات کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے اپنے وسائل کے مطابق سرسید کی دو سو ویں سالگرہ منائی، سیمینار منعقد ہوئے، ادبی نشستیں ہوئیں اور طرح طرح سے سرسید کو خراج تحسین پیش کیا۔

جامعہ کراچی نے بین الاقوامی سطح پر جشن منایا۔ متعدد ممالک سے اردو کے علما مدعو کیے گئے، ملک بھر سے فضلا کو مدعو کیا گیا اور ایک ایک دن میں کئی کئی نشستوں میں علما نے اپنے مقالات پیش کیے۔ تین دن تک جامعہ کراچی میں جشن کا سماں رہا۔

سرسید یونیورسٹی نے بھی ظاہر ہے اس موقع پر شاندار تقریبات منعقد کرنے کا پروگرام بنایا۔ سرسید یونیورسٹی کو اس کا حق بھی حاصل تھا اور یہ ان کا فرض بھی تھا کیونکہ یہ یونیورسٹی سرسید کے نام پر اور علی گڑھ کی اسپرٹ کے مطابق بنائی گئی تھی۔ مگر کچھ ناگفتہ بہ حالات کی بنا پر سرسید یونیورسٹی بروقت یہ تقریب منعقد نہ کرسکی۔

ڈاکٹر رضیہ حامد برصغیر میں اردو تحقیق و تنقید میں اپنا اہم نام بناچکی ہیں۔ وہ ایک رسالہ نکالتی ہیں ’’فکر و آگہی‘‘ اور اس خصوصی نمبروں کے ذریعے اردو کی خدمت انجام دیے جا رہی ہیں۔ وہ بھوپال کی رہنے والی ہیں، اس لیے بھوپال کے حکمرانوں، ادیبوں، شاعروں اور دانش وروں پر وقیع علمی کام کرچکی ہیں۔ اکتوبر 2017 میں انھوں نے سرسید کا دو صد سالہ نمبر شایع کیا اور اس میں اپنے پرچے میں شایع ہونے والے مضامین کے علاوہ مختلف جہات میں سرسید کی کاوشوں پر مشتمل مضامین مرتب کیے۔ وہ اس پرچے کی رونمائی سرسید یونیورسٹی میں کروانا چاہتی تھیں۔

ایک طرف سرسید یونیورسٹی کا پروگرام منسوخ ہوا تو دوسری طرف ڈاکٹر رضیہ حامد اور ان کے شوہر ڈاکٹر سید محمد حامد کو ویزا ملنے میں تاخیر ہوئی اور جب وہ یہاں پہنچیں تو ساری بساط ہی الٹ ہوچکی تھی۔

اس موقع پر شگفتہ فرحت اور ان کے شوہر اویس ادیب انصاری کی رگ حمیت جاگ اٹھی۔ ان کا خیال تھا کہ ڈاکٹر رضیہ کی محنت اور ان کا اس طرح ہمارے ملک آنے کی کھگیڑ جھیلنا رائیگاں نہ جائے گا۔ ان کی ادبی کاوش تو بہرحال زندہ رہنے والی چیز ہے مگر تقریبات کا یوں التوا ہوجانا ان کی مایوسی کا سبب ہوسکتا ہے۔

اویس ادیب انصاری ایک جادوگر قسم کی چیز ہیں۔ وہ کام پر لگ گئے اور وہ جس کام پر لگ جائیں اسے پایہ تکمیل تک پہنچا کے رہتے ہیں۔ شگفتہ ان کی ہمت بندھاتی رہتی ہیں۔ اویس ادیب انصاری نے عبدالقادر سومرو کو اس بھاری پتھر کو اٹھانے کے لیے اپنا ہم کار بنا لیا۔ سومرو نے اپنی وسیع القلبی کا مظاہرہ کیا اور اکادمی کا ہال، انتظامیہ اور جو کچھ وہ کرسکتے تھے کرنے کا وعدہ بھی کیا اور اسے پورا بھی کیا۔

انصاری صاحب نے اپنے وسیع تعلقات کو استعمال کرتے ہوئے عجیب انتظامات کیے۔ ڈاکٹر رضیہ حامد کے اعزاز اور ان کے دو صد سالہ سرسید نمبر کی رونمائی کے لیے جو تقریب انتہائی عجلت میں منعقد کی اس کے لیے انھوں نے جہاں شرکت کرنے والوں کی ایک قابل لحاظ تعداد فراہم کردی بلکہ مسند صدارت پر جہاں کو خوش آمدید کہنے کے لیے ایک چانسلر، دو وائس چانسلر اور شہر کی بعض مقتدر علمی شخصیات کو بلا ہی لیا۔

اس تقریب میں سرسید یونیورسٹی کے چانسلر جاوید انوار، وفاقی جامعہ اردو کے وائس چانسلر ڈاکٹر ظفر اقبال، ہمدرد یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر حکیم عبدالحنان اور درجن بھر اصحاب علم نے شرکت کی اور ڈاکٹر رضیہ حامد کو ان کی کاوش پر مبارکباد دی۔

مقررین نے ڈاکٹر رضیہ حامد کی کاوش پر روشنی ڈالی اور ان کی علمی خدمات کا اعتراف و اظہار کیا۔ متعدد انجمنوں کی طرف سے مہمانوں کی گل پاشی کی گئی۔ تقریب کے بعد مہمانوں کی ضیافت کا انتظام تھا جس کا سہرا عبدالقادر سومرو کے سر تھا، جو اکادمی ادبیات پاکستان کی سندھ شاخ کے ڈائریکٹر اور ایک فعال شخصیت ہیں، انھوں نے عہدہ سنبھالنے کے بعد اکادمی کو فعال کرنے کی کوشش کی ہے اور ہر ہفتے کوئی نہ کوئی ادبی نشست منعقد کرتے رہتے ہیں۔

ایک مہمان کے اعزاز میں ازخود متوجہ ہوکر بعجلت تمام کسی ادبی تقریب کا انعقاد اویس ادیب انصاری کی متحرک شخصیت کا کارنامہ ہے، اس تقریب کے باعث اہل کراچی اس ندامت سے محفوظ رہے کہ ایک غیر ملکی عالم جب سرسید کے علمی سرمائے اور ان کی علمی خدمات کو اپنے قلمی سرمائے کے ساتھ لے کر آیا تو اس کا شایان شان استقبال ہوا نہ اعتراف۔

اب ایک بڑی اور شاندار تقریب تو نہ ہوسکی لیکن ایک منتخب اور سنجیدہ تقریب میں ڈاکٹر رضیہ حامد کی کاوش کا خاطر خواہ اعتراف کیا گیا۔ پروفیسر نوشابہ صدیقی نے بڑے سلیقے سے مہمان داری کے فرائض انجام دیے۔ اسی موقع پر سرسید یونیورسٹی کے چانسلر جاوید انوار کی عنایت سے ہمیں ایک کتابچہ میسر آیا۔ اس کتابچے کا نام ’’سرسید اور ان کے رفقا و معاونین عکس یادنامہ‘‘ ہے۔ کہنے کو اس کو کتابچہ کہہ لیجیے لیکن یہ ایک مفصل کتاب ہے جو بڑے سائز کے 88 صفحات پر مشتمل ہے۔ اس کتاب میں سرسید کے علاوہ ان کے 33 ہم کاروں اور عقیدت مندوں کے حالات درج کردیے گئے ہیں۔

بظاہر یہ مختصر سے حالات ہیں مگر بڑی ذمے داری اور کاوش سے مرتب کیے گئے ہیں۔ اس کے مرتب سید ممتاز اکبر کاظمی ہیں جو خود جتنے بڑے بھوپالی ہیں اتنے ہی بڑے علی گیرین ہیں اور یہ کتاب مرتب کرکے انھوں نے علی گڑھ سے اپنی وابستگی کا حق ادا کر دیا ہے۔ کتاب علی گڑھ اولڈ بوائز ایسوسی ایشن کی جانب سے آرٹ پیپر پر نہایت اہتمام سے شایع کی گئی ہے۔ کتاب کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ اس میں سرسید کے ہم کاروں میں سے بعض کی ایسی تصاویر شایع کی گئی ہیں جو عام نہیں ہیں۔ کاظمی صاحب اس کارنامے کے لیے تحسین کے مستحق ہیں اور شاید سرسید یونیورسٹی ان کی اس کاوش کو اپنی کسی تقریب میں عام کرے گی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔