صدر کرزئی معاشی ترجیحات پر نظر رکھیں

 جمعـء 15 مارچ 2013
 افغان صدر حامد کرزئی نے وضاحتاً کہا ہے کہ افغانستان امریکا کے ساتھ اچھے تعلقات کا خواہاں ہے۔ فوٹو: فائل

افغان صدر حامد کرزئی نے وضاحتاً کہا ہے کہ افغانستان امریکا کے ساتھ اچھے تعلقات کا خواہاں ہے۔ فوٹو: فائل

وفاقی حکومت نے پاکستانی کرنسی میں زمینی راستے سے افغانستان اور وسط ایشیائی ممالک کو اشیاء برآمد کرنے کی اجازت دیدی ہے تاہم پاکستانی روپے میں افغانستان اور وسط ایشیائی ممالک کو زمینی راستے سے کی جانے والی برآمدات پر زیرو ریٹنگ،ایکسائز ڈیوٹی کا ری بیٹ اور ڈیوٹی ڈرا بیک کی سہولت نہیں دی جائے گی جب کہ افغانستان کو اَن ہائیڈرائیڈ کی برآمد پر غیر معینہ مدت کے لیے پابندی عائد کردی ہے ۔

ملکی معیشت میں استحکام اور پاک افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کے تجربات کے پیش نظر حکومت کی ملکی کرنسی کی قدر کو عالمی مارکیٹ میں مستحکم کرنے کا یہ اقدام بروقت ہے ۔ خطے میں دہشت گردی کو کنٹرول کرنے کے لیے ماہرین نے اقتصادی اور سماجی منصوبہ بندی کی ضرورت پر زور دیا ہے اور اس وقت افغانستان کو داخلی استحکام کے لیے معاشی طور پر اپنے پائوں پر کھڑا ہونا پڑیگاجب کہ پاکستانی معیشت بھی خطے کے ممالک سے اقتصادی اشتراک عمل اور کثیر جہتی معاشی ترجیحات کے ذریعے غربت کے خاتمے اور روزگار کی فراہمی کے وسیع امکانات کو حقیقت کا روپ دیے بغیر معاشی خود کفالت اور مشترکہ سرمایہ کاری کے مواقع سے استفادہ نہیں کرسکتی۔

عالمی بینک نے بھی افغان حکومت پر معدنیات کے وسیع ذخائر کی تلاش اور اس سے استفادہ کے لیے پاور انفرااسٹرکچر کو بہتر بنانے پر زور دیا ہے تاکہ غیر ملکی سرمایہ کاروں کو ترغیب مل سکے ۔ افغانستان میں توانائی کا مسئلہ اور مربوط توانائی نیٹ ورک نہ ہونے کے برابر ہے۔ اس کی تین کروڑ کی آبادی میں صرف ایک تہائی کو بجلی کی سہولت حاصل ہے۔اگرچہ صدر کرزئی نے پاور یونٹس قائم کرنے چاہے تھے مگر طالبان کے مسلسل حملوں سے وہ تباہ ہوتے رہے جس کی روک تھام کا کرزئی کو سوچنا پڑیگا۔

پاکستان کی ایکسپورٹ پالیسی آرڈرکے مطابق ایکسپورٹ اوریئنٹڈ یونٹس کی تیار کردہ اشیاء اور مینوفیکچرنگ بانڈز میں تیار ہونے والی اشیاء پاکستانی کرنسی میں زمینی راستے سے افغانستان اور وسط ایشیائی ممالک کو نہیں بھجوائی جاسکیں گی ۔ پاکستان میں تیار ہونے والی اشیاء ناقابل واپسی لیٹر آف کریڈٹ اور برآمدی آرڈرز پر غیر ملکی زرمبادلہ و قابل مبادلہ کرنسی میں زمینی اور فضائی راستے سے افغانستان و وسط ایشیائی ممالک کو برآمد کی جاسکیں گی اور ان اشیاء کی برآمد پر برآمد کنندگان کوقابل ٹیکس اشیاء پر زیرو ریٹنگ سیلز ٹیکس کی سہولت حاصل ہوگی۔

یہ مستحسن معاشی اقدامات ہیں جن کے تحت نجی طور پر افغانستان اور وسط ایشیائی ممالک کو پٹرولیم مصنوعات کی برآمد پر ڈیوٹی اور ٹیکسوں میں چھوٹ نہیں دی جائے گی اور نہ ہی ان مصنوعات پر وصول کردہ پٹرولیم لیوی ریفنڈ کی جائے گی البتہ اگر یہ پٹرولیم مصنوعات حکومتی سطح پر اوگرا کے پاس رجسٹرڈ آئل مارکیٹنگ کمپنیوں کے ذریعے بھجوائی جائیں گی تو اس صورت میںیہ زیرو ریٹنگ اور ایگزمشن کی سہولت حاصل ہوگی ۔ضرورت ان اقدامات کو دو طرفہ اعتماد اور خطے میں بدامنی اور دہشت گردی کے خاتمے میں تعاون سے مشروط کرنا چاہیے۔افغانستان پر ذمے داری زیادہ عائد ہوتی ہے کہ وہ معاشی شعبوں پر توجہ دے اور امریکا سے خوامخواہ کی کشیدگی کا سلسلہ دراز نہ کرے ۔

ان کی حالیہ تقریر پر پینٹاگان نے شدید رد عمل ظاہرکیا ہے جب کہ افغان صدر حامد کرزئی نے وضاحتاً کہا ہے کہ افغانستان امریکا کے ساتھ اچھے تعلقات کا خواہاں ہے،انھوں نے کہا کہ کابل واشنگٹن کے ساتھ دوستی چاہتا ہے لیکن یہ دوستی نو خودمختار ملکوں جیسی ہونی چاہیے، افغانستان میں غیرملکی افواج(ایساف) کے کمانڈر جنرل جوزف ڈن فورڈ نے صدر حامد کرزئی کی حالیہ تقریر کو اشتعال انگیز قرار دیاتھا اور کہا کہ ان کے اس بیان کی وجہ سے افغان فوجی بھڑک سکتے ہیں۔ اتوارکوحامد کرزئی نے امریکا اور طالبان کے خلاف سخت نکتہ چینی کرتے ہوئے کہا تھا کہ دونوں2014 ء کے بعد خوف کے خدشات کے بیج بو رہے ہیں۔

ملک بھر میں نشر ہونے والی تقریر میں ان کا کہنا تھا کہ ’طالبان کے نام پر ہونے والے بم دھماکے غیر ملکیوں کے مفاد میں تھے اور افغانستان میں ان کے مزید قیام کے حق میں تھے جو کہ ہمیں دھمکا کر انھیں افغانستان میں روکنے کے لیے کیے گئے تھے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ خطے میں ترقی،خوشحالی اور کثیر جہتی تعاون کے لیے افغانستان کسی دوسرے ملک پر مکمل انحصار کم کرے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔