پاکستان کے بارے میں ایران کیا سوچ رہا ہے ؟ 

تنویر قیصر شاہد  پير 18 دسمبر 2017
tanveer.qaisar@express.com.pk

[email protected]

پچھلے دنوں اسلام آباد میں بروئے کار ایرانی سفارتخانے کے ایک سینئر رکن سے چائے پر ملاقات ہُوئی۔ وہ ایمبیسی مذکور کے پریس سیکشن سے وابستہ ہیں۔ ملاقات کی دعوت اُن کی طرف سے آئی تھی۔ایسے شیریں لہجے میں دعوت دی گئی تھی کہ انکار ممکن ہی نہیں تھا۔ مجھے دو ایک بار ایران جانے کے مواقع میسر آئے ہیں۔

جناب آئت اللہ روح اللہ خمینی کی روحانی و سیاسی قیادت میں انقلاب ِ ایران کو آئے زیادہ دن نہیں ہُوئے تھے کہ لاہور کے کئی صحافیوں، ادیبوں اور دانشوروں کے ایک وفد کے ساتھ ہمیں بھی تہران، مشہد اور اصفہان کی سیر کا موقع ملا۔ لاہور کے ممتاز عالمِ دین حضرت مولانا قبلہ احمد علی قصوری صاحب اور کئی کتابوں کے مصنف مشہور دانشور صاحبزادہ خورشید احمد گیلانی صاحب بھی اسی وفد کا وقیع حصہ تھے۔

تہران کا بازارِ بزرگ ہو یا مشہد میں حضرت امام رضا علیہ رحمہ کا مزار شریف، ہر جگہ ہم تینوں نے اکٹھے ہی روحانی لطف اٹھایا۔ ایران میں جہاں بھی گئے،ہم تینوں ایک بڑے سے کمرے میں رہائش پذیر رہے۔ اللہ اللہ،کیا شاندار اورخوبصورت لوگ تھے یہ!! دونوں ہی اپنے ربّ کے حضور پہنچ چکے ہیں۔

یقین ہے کہ اللہ تعالیٰ نے گیلانی صاحب اور قصوری صاحب کو اپنے جوارِ رحمت میں جگہ عنایت فرمائی ہوگی۔ ایرانی مذہبی انقلاب، جس نے شہنشاہِ ایران کو دَر بدر کر کے رکھ دیا تھا، اُس وقت جوان اور منہ زور تھا۔ ایران کے ہر کوچہ و بازار میں اس کے اثرات اور نشانات واضح طور پر دکھائی اور سنائی دیتے تھے۔

عالمِ اسلام نے اس انقلاب سے بلند توقعات وابستہ کی تھیں۔ اس کا اندازہ پاکستان کی جماعتِ اسلامی کے اُس اعلیٰ سطح کے وفد سے بھی لگایا جا سکتا ہے جو قبلہ میاں طفیل محمد صاحب کی قیادت میں انقلاب کے فوراً بعد تہران پہنچا تھا تاکہ امام خمینی صاحب اور اُن کے ساتھیوں کو تہنیت دی جا سکے۔

جماعتِ اسلامی سے وابستہ محترم سید اسعد گیلانی صاحب نے انقلابِ ایران پر ایک نہایت دلکشا کتا ب بھی لکھی تھی۔ حالات مگر رفتہ رفتہ تیزی سے بدلتے چلے گئے۔ جنرل ضیاء الحق چونکہ انقلابِ ایران کے ابتدائی ایام کے دوران امریکا کے ساتھی اور اتحادی تھے، اس لیے ایران بوجوہ پاکستان کو شک اور شبہے کی نظر سے دیکھتا تھا۔ یہاں سے کئی غلط فہمیوں نے بھی جنم لیا جو آگے چل کر بگاڑ کی شکل اختیار کر گئیں۔

اگر ہم ریٹائرڈ بریگیڈئر ارشاد ترمذی صاحب (جو کچھ عرصہ ایران میں پاکستان کے دفاعی اتاشی بھی رہے)کی کتاب Profiles of Intelligence اور سابق پولیس آفیسر طارق کھوسہ صاحب کی تازہ ترین کتابThe Faltering state کا مطالعہ کریں تو کئی ایسے واقعات کی شہادت ملتی ہے جنہوں نے پاک، ایران تعلقات کو شدید زک اور نقصان پہنچایا۔

بہت عرصہ بعد جب لاہور میں ایرانی قونصل جنرل صادق گنجی اور کراچی میں ایرانی کیڈٹس کے ساتھ سانحات پیش آئے تو پاک، ایران تعلقات میں بہت تلخی آگئی تھی۔ وہ عالمی قوتیں جو پاکستان اور ایران ایسی نظریاتی اسلامی مملکتوں کے نزدیک آنے کے خلاف تھیں، یقیناً وہ بھی جلتی پر تیل چھڑک رہی تھیں۔بلکہ یوں کہنا زیادہ بجا ہوگا کہ یہی غیر ملکی طاقتیں پاکستان اور ایران میں خلیج پیدا کرنے کی سازشیں کررہی تھیں۔اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ مملکتِ خداداد میں بھڑکائی گئی وہ فرقہ وارانہ آگ اب بجھ چکی ہے۔

ایرانی سفارتکار سے ہماری حالیہ ملاقات کے دوران، کسی نہ کسی شکل میں، یہ باتیں زیر بحث آئیں۔ میرے مخاطب ایرانی مگر بہت محتاط تھے۔ وہ غالباً اِس کوشش میں تھے کہ ہم سے ایران کے بارے میں پاکستانی ذہن پڑھا اور جانا جائے جب کہ ہماری کوشش اور تمنا یہ تھی کہ تازہ ترین ماحول میں پاکستان کے بارے میں ایرانی سوچ کے بارے میں جانکاری حاصل کی جائے۔ یہ مشکل مراحل تھے۔ہمارے ہاں کہا جا رہا ہے کہ ایران کی چاہ بہار بندر گاہ، جس کے پہلے کامیاب فیز (شہید بہشتی پورٹ)کا افتتاح چند دن پہلے ہی ایرانی صدر جناب حسن روحانی نے کیا ہے،کی تعمیرو تشکیل میں بھارت نے اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کی ہے۔

ہمارے مخاطب ایرانی سفارتکار کا مگر بصد اصرار کہنا تھا کہ بھارت نے چابہار کی بندرگاہ پر اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری نہیں کی ہے۔ بظاہر یہ بات ذہن کو لگتی نہیں ہے لیکن جب متعلقہ ملک کا کوئی ذمے دار آدمی یہ بات کہے تواُسے تسلیم کرنا ہی پڑتا ہے۔ بھارت نے شہید بہشتی پورٹ کے افتتاح، جس میں بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج بھی شریک تھیں، پر خصوصی مسرت کا اظہار کرتے ہُوئے کہا ہے کہ اب پاکستان کو بائی پاس کرتے ہُوئے براہ راست افغانستان، بھارت اور ایران میں تجارت ہو سکے گی۔

واقعہ یہ ہے کہ پاکستان نے ہمیشہ ایران کا بھلا چاہا ہے اور اہلِ ایران کے بارے میں پاکستانیوں کے جذبات و احساسات ہمیشہ مثبت رہے ہیں، اپنے سگے بھائیوں کے مانند۔ ہم ایران کا یہ تاریخی احسان کبھی فراموش نہیں کر سکتے کہ تشکیلِ پاکستان کے وقت ایران ہی دنیا کا پہلا ملک تھا جس نے فوراً پاکستان کو تسلیم کیا تھا۔ جب ایران اور عراق باہم متصادم تھے، اور یہ تصادم بد قسمتی سے برسوں جاری رہا، تو یہ پاکستان تھا جس نے آگے بڑھ کر کوشش کی کہ دو مسلمان ممالک کے درمیان بہتے خون کو روکا جائے۔

صدام حسین کے زیر نگیں عراق نے بہرحال ایران سے زیادتی کی تھی۔ بجا طور پر کہا جاسکتا ہے کہ اگر انقلابِ ایران کے فوراً بعد عراق، امریکیوں کے اشارے پر، ایران پر جنگ مسلّط نہ کرتا تو ایرانی ترقی کا پہیہ زیادہ تیزی کے ساتھ گردش میں آتا۔ صدر صدام حسین مگر اُس وقت امریکیوں کے کندھے پر سوار تھے۔ وہ جان ہی نہ سکے کہ امریکی تو کبھی کسی کے سگے نہیں ہوتے۔ وہ صرف اپنے مفادات کے سگے ہوتے ہیں۔ دنیا نے پھر یہ بھی تماشہ دیکھا کہ اُسی امریکا نے جب صدام حسین کو پھانسی پر لٹکایا تو عالمِ اسلام کچھ بھی نہ کر سکا تھا۔

معزز و محترم ایرانی سفارتکار سے بات چیت کے دوران معلوم ہُوا کہ ایران بھی پاکستان سے، ہر شعبہ حیات میں، تعاون اور اعانت کا خواہشمند ہے۔ ایران نہیں چاہتا کہ پاک، ایران تعلقات میں کشیدگی برقرار رہے۔ چا بہار بندرگاہ کے پہلے فیز کے افتتاحی موقع پر پاکستان کے ایک وفاقی وزیر بھی وہاں موجود تھے۔

یہ درست ہے کہ حالیہ ایام میں ایران اور سعودی عرب کے تعلقات میں، بوجوہ، تلخی موجود ہے لیکن اِس کے باوصف پاکستان اور ایران کے باہمی تعلقات خوشگوار رکھے جاسکتے ہیں۔ اِس میں مگر سفارتی مہارت اور اخلاص درکار ہے۔ایران کو بہرحال یہ رنج ضرورہے کہ سعودی قیادت میں 41 اسلامی ممالک کا جو فوجی اتحاد معرضِ عمل میں آیا ہے، ایران کو اس سے باہر رکھا گیا ہے۔

ایران یہ بھی سمجھتا ہے کہ اگر دنیا کے باقی ممالک کے ساتھ پاکستان ایک جوہری قوت بن سکتاہے تو ایران کو بھی یہ حق ملنا چاہیے کہ وہ بھی غیر فوجی اور پُر امن ایٹمی طاقت حاصل کر سکے۔ مجھے یہ تاثر ملا کہ پاکستانی میڈیا سے ایرانی اسٹیبلشمنٹ خوش نہیں ہے۔

پچھلے سال جب ایرانی صدر جناب حسن روحانی نے پاکستان کا دَورہ کیا تو اُنہی ایام میں (دو ہفتے قبل) بھارتی خطرناک جاسوس، کلبھوشن یادیو، کو مبینہ طور پر ایران سے نکل کر بلوچستان میں داخل ہوتے ہُوئے گرفتار کر لیا گیا تھا۔ اِس حوالے سے ہمارے میڈیا میں بار بار ایران کا نام گونجتا رہا۔

ایرانی سفارتکار سے گفتگو کے دوران مجھے یہ بھی تاثر ملا، اور میرا یہ تاثر غلط بھی ہو سکتا ہے، کہ ایران کو یہ اچھا نہیں لگا تھا۔ یہ بڑے نازک مقامات ہیں۔ دونوں ممالک کی حکومتوں اور دونوں برادر اسلامی ممالک کے میڈیا کو ایک دوسرے کے نازک وحساس معاملات کو پیشِ نگاہ رکھنا چاہیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔