گنے کی فصل کو تباہی سے بچانے کے لیے مستقل بنیادوں پر اقدامات کرنا ہوں گے!!

13سے 14لاکھ چھوٹے بڑے کاشت کار پاکستان کو دنیا میں گنے کی کاشت کے لحاظ سے 5ویں بڑے ملک کا درجہ دلواتے ہیں۔ فوٹو: ایکسپریس

13سے 14لاکھ چھوٹے بڑے کاشت کار پاکستان کو دنیا میں گنے کی کاشت کے لحاظ سے 5ویں بڑے ملک کا درجہ دلواتے ہیں۔ فوٹو: ایکسپریس

گنے کی فصل کی تاریخ 5000 سال پرانی ہے ہر دور میں اس فصل نے کردار ادا کیا ہے یہ انتہائی اہم فصل نہ صرف یہ کہ غذائی ضروریات کو پورا کرتی ہے بلکہ ملکی معیشت کیلئے کثیر زرمبادلہ کے حصول کا بھی اہم ذریعہ ہے ملکی معیشت میں ایک کلیدی کردار ہے۔

گنا ملک میں ملین ایکٹر رقبے پر کاشت کی جانے والی چوتھی بڑی فصل ہے جو کہ پاکستان کی89 شوگر ملوں جن میں سے 45 پنجاب‘37سندھ‘ اور7خیبر پختونخواہ میں واقع ہیں کو خام مال فراہم کرتی ہے ۔ ان شوگر ملز میں جہاں 1لاکھ 30ہزار سے صنعتی مزدور کام کرتے ہیں وہاں ملک بھر میں بالواسطہ یا بلا واسطہ گنے کے 13سے 14لاکھ چھوٹے بڑے کاشت کار پاکستان کو دنیا میں گنے کی کاشت کے لحاظ سے 5ویں بڑے ملک کا درجہ دلواتے ہیں‘ ایک اندازے کے مطابق ملک کے قابل کاشت زرعی رقبہ کے 28 فیصد پر گنا کاشت ہوتا ہے‘ پاکستان میں کماد کی فی ایکڑ اوسط پیداوار 639من ہے جو کہ دیگر ممالک سے کئی گنا کم ہے۔

مصر‘ جنوبی افریقہ‘ آسٹریلیا‘ انڈونیشیا اور ملائشیا میں فی ایکڑ اوسط پیداوار 1800من سے زائد ہے‘ پاکستان میں بھی ایسے کاشت کار ہیں جو جدید طریقہ کاشت سے فی ایکڑ 2600 من تک فی ایکڑ گنے کی فصل حاصل کر رہے لیکن 98 فیصد گنے کے کاشت کار جدید طریقہ کاشت کے حوالے سے رہنمائی اور وسائل نہ ملنے کی وجہ سے روایتی طریقے اپناتے ہیں ‘ گنے کی فصل چونکہ سال بھر میں تیار ہوتی ہے اس لیے کاشت کار دیگر فصلیں گندم‘ کپاس‘ دھان و دیگر کاشت نہیں کر پاتے‘ اخراجات کے لحاظ سے فی ایکڑ کم پیداوار ان کو معاشی طور پر بدحال بنا دیتی ہے۔

زرعی ملک ہونے کے باوجود فصلوں کی کاشت اور ان سے حاصل ہونے والی پیداوار کے حوالے سے حکومت کی ناقص منصوبہ بندی اور شوگر مل مالکان کی ہٹ دھرمی نے انہیں کہیں کا نہیں چھوڑا‘ پچھلے پانچ سالوں کے دوران شوگر ملز نے فی من گنے کے نرخوں میں اضافہ نہیں کیا تو دوسری طرف سرے عام کم نرخوں پر گنا خرید کرنے اور ناجائز کٹوتیاں کر کے کاشت کاروں کا استحصال کرتے رہے جس وجہ سے سندھ اور پنجاب میں گنے کے کاشت کار سراپا احتجاج ہیں ‘ کوئی بھی زرعی ملک اس بات کا متحمل نہیں ہو سکتا کہ وہاں کاشتکار متنفر ہو کر گنے کی کاشت سے روگردانی کرے اور اس کی کاشت کو جرم سمجھنا شروع کر دے۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسے کون سے اقدامات اٹھائے جائیں کہ گنے کی کاشت وپیداوار بھی متاثر نہ ہو اور کاشتکار بھی مطمئن رہے اس توازن کو قائم کرنے میں حکومت وقت کا بہت کلیدی کردار ہونا چاہیے جس کا پاکستان میں شدید فقدان ہے‘ گنے کے بحران کے حوالے سے ’’ایکسپریس فورم‘‘ کا اہتمام کیا گیا جس میں کاشت کار تنظیموں کے رہنماؤں‘ شوگرملز ایسوسی ایشن اور حکومتی نمائندے نے اپنے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔

چوہدری محمود الحسن چیمہ ( ممبر پنجاب اسمبلی‘ چیئرمین سٹینڈنگ کمیٹی ایریگیشن اینڈ پاور پنجاب)

میں نے پنجاب اسمبلی میں اس بابت تحریک استحقاق پیش کی ہے لہٰذا آئندہ سیشن میں اس پر بات ہو گی۔ وزیر اعلیٰ پنجاب نے کاشت کاروں کو گنے کی ادائیگیاں نہ کرنے والی شوگر ملز کو سیل کیا‘ کاشت کاروں کو شوگر ملوں سے ان کی ادائیگیوں کی مد میں اربوں روپے دلوائے۔ پنجاب میں کاشت کاروں کو ادائیگیاں نہ کرنے والی شوگر ملز کو جرمانہ کے ساتھ ساتھ سیل بھی کیا گیا۔ محکمہ زراعت پنجاب فصلوں کی ملکی ضرورت کو سامنے رکھتے ہوئے کاشت کے اہداف جاری کرتا ہے‘ بدقسمتی سے ہمارے کاشت کار مارکیٹ میں طلب و رسد کے سسٹم کو سمجھے بغیر بھیڑ چال کا شکار ہو کر زائد فصل کاشت کر لیتے ہیں جس کی وجہ سے پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ہماری اس سے بڑی غفلت کیا ہو سکتی ہے کہ ضلع رحیم یار خان سے ملحقہ چولستان میں نہری پانی کے کم وسائل کے باوجود اڑھائی لاکھ ایکڑ  پر گنے کی کاشت کی جا رہی ہے۔کاشت کار ملی جلی فصلیں کاشت کریں تاکہ بحرانوں سے بچا جا سکے۔ موجودہ حکومت نے کسان پیکیج کے ساتھ ساتھ کھادوں پر بھی اربوں روپے سبسڈی دی‘ زرعی آلات بذریعہ قرعہ اندازی سبسڈی پر فراہمی کے ساتھ ساتھ پانی کی بچت کے لیے ڈرپ ایریگیشن‘ سولر اور سبزیوں کی کاشت کے لیے ٹنل ٹیکنالوجی بھی سبسڈی پر کاشت کاروں کو فراہم کی ہے۔

چوہدری محمد یاسین (سینئر نائب صدر انجمن کاشتکاران پنجاب )

پاکستان میں گنے کی فصل کو ’’سیاسی فصل‘‘ بھی کہا جاتا ہے کیونکہ ملک کی بیشتر شوگر ملز سیاستدانوں کی ملکیت ہیں اور ملکی معاشی پالیسیاں بھی یہی لوگ ترتیب دے رہے ہیں جو کہ انہی کے مفاد کا تحفظ کرتی ہیں۔ دنیا میں تمام کاروبار نفع اور نقصان کے پیش نظر کئے جاتے ہیں لیکن پاکستان میں چینی کی صنعت میں نقصان کا تصور بھی شوگر مالکان کیلئے ایک بھیانک خواب ثابت ہوتا ہے وہ ہر قیمت پر منافع ہی کمانا چاہتے ہیں۔  کاشتکار مروجہ کاروباری اصولوں کے تحت محنت بھی کرتا ہے اور پیسہ بھی لگاتا ہے اور عموماً نقصان برداشت کرتا ہے اور استحصال کا بھی ایندھن بنتا ہے۔شوگر کرشنگ سیزن 2017-18 تاخیر سے شروع ہونے کی وجہ سے گنے کے کھیت بروقت خالی نہیں ہو سکے‘ لاکھوں چھوٹے کاشتکار جو گندم کاشت کرنا چاہتے تھے وہ گندم کی کاشت سے بھی محروم رہے‘ اب نوبت یہ ہے کہ فصلوں کے نرخ نہ ملنے کی وجہ سے کاشت کار عرش سے فرش پر آ گرے ہیں ان کے پاس اپنے جواں بچوں کی شادیاں کرنے کے لیے بھی وسائل نہیں ہیں۔ پچھلے چار شوگر کرشنگ سیزن کی طرح اب کی بار شوگر کریشنگ سیزن 2017-18کے لیے حکومت پنجاب نے گنے کی قیمت 180روپے فی من سے نہیں بڑھائی ہے‘ دوسری جانب شوگر ملز مافیا نے کرشنگ سیزن سے قبل ہی حیلے بہانوں سے چینی کی قیمتوں میں اضافہ کردیا اور 40‘ 45 روپے فی کلو گرام والی چینی کی قیمت میں پانچ روپے فی کلوگرام تک اضافہ ہو چکا ہے۔ شوگر ملز مافیا تو اپنے مفادات کا تحفظ کرلیتا ہے لیکن مفلوک الحال کاشتکاروں کی حکومتی سطح پر کہیں شنوائی نہیں ہوتی۔ ان کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوچکا ہے۔ دوسری طرفشوگر انڈسٹری کا قیام اور وہ بھی کپاس کے علاقے میں کسی سازش سے کم نہیں‘ ملک کی سب سے بڑی ٹیکسٹائل انڈسٹری کپاس کی کاشت کے علاقوں میں شوگر ملز لگائے جانے کے بڑھتے ہوئے رجحان سے براہ راست متاثر ہوئی ہے ‘کپاس کی کاشت اور پیدوار میں ریکارڈ کمی کی وجہ کاٹن جینگ انڈسٹری اضطراب کا شکار ہے۔

 سید محمود الحق بخاری (چیئرمین آل پاکستان کسان فاؤنڈیشن)

چینی کی ایکسپورٹ پر سبسڈی کے حصول کے باوجود ستم بالائے ستم یہ کہ حکومت کے نوٹیفکیشن کے برعکس کم قیمت پر گنا خریدا جا رہا ہے جس کی وجہ سے ہر طرف گنے کی فصل کے حوالے سے کاشت کاروں میں بے چینی اور تشویش پائی جا رہی ہے اور حکومت خاموش تماشائی بنی بیٹھی ہے کاشتکار اپنے اس موقف کو لیکر پورے پنجاب اور سندھ میں احتجاج کر رہے ہیں۔ کچھ شوگر ملز سرکاری نرخ پر گنا نہیں خرید رہی ہیں بلکہ بروکر یا مڈل مین کے ذریعے کم قیمت پر کسانوں کو گنا بیچنے پر مجبور کر رہی ہیں‘ چونکہ شوگر ملز گنے کے کاشتکاروں کو براہ راست پرمٹ انتہائی سست روی سے جاری کر رہی ہیں‘ ستم ظریفی یہ بھی ہے کہ شوگر ملز میں آنے والے گنے پر 15 فیصد سے 20 فیصد کٹوتی بھی کی جا رہی ہے‘ درجنوں گنے کی ورائٹیوں کو خرید نہیں کیا جا رہا جبکہ گنے کی یہ اقسام خود شوگر ملز اور گورنمنٹ شوگر ریسرچ فارمز نے لگوائیں۔80 ء کی دہائی میں انڈیا میں اسی طرز کے بحران نے جنم لیا‘ گنے کی ہزاروں ایکڑ فصل کاشت کاروں نے جلا دی‘ معاشی تباہی سے دوچار 500 سے زائد کاشت کاروں نے قرضوں سے تنگ آ کر خودکشیاں کی‘ اب پاکستان میں بھی یہ بحران پیدا ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ سندھ اور پنجاب کے متعدد علاقوں میں کاشتکاروں نے احتجاجاً گنے کی کھڑی فصل کو نذرآتش بھی کیا اور مختلف شہروں‘ قصبوں اور دیہاتوں میں احتجاجی جلوسوں اور دھرنوں کا سلسلہ جاری ہے۔ گزشتہ دنوں سندھ کے دارالحکومت کراچی میں گنے کے کاشتکاروں نے شدید احتجاج کیا جس پر حکومت نے انتہائی بے دردی سے ریاستی طاقت کے بل بوتے پر کاشت کاروں کی گرفتاریاں کی ہیں جو قابل مذمت ہے۔ ضلع رحیم یار خان میں سال 2004-5 تک 9 لاکھ ایکڑ پر کپاس کاشت ہوتی تھی‘ پھٹی کی وسیع پیداوار کی وجہ سے ضلع میں 143کاٹن جینگ جبکہ 109کھل بنولہ اور بنولہ آئل تیار کرنے والی فیکٹریاں قائم ہوئیں‘ حالیہ چند سالوں میں نئی شوگر ملز کے قیام اور پرانی شوگر ملز کی جانب سے کرشنگ کیپسٹی بڑھائے جانے کی وجہ سے گنے کی کاشت ساڑھے چھ لاکھ ایکڑ تک بڑھ گئی ہے جبکہ کپاس کی فصل محض چار لاکھ ایکڑ پر کاشت ہو رہی ہے جس کی وجہ سے درجنوں کاٹن جینگ فیکٹریاں بند ہو گئی ہیں‘ فصلوں کی کاشت کا توازن بگڑنے سے کپاس کے بڑے کاروبار سے جڑے ہزاروں افراد روز گار سے محروم ہو کر رہ گئے ہیں جبکہ ملک میں پھٹی کی قلت 50 لاکھ کا نٹھ تک پہنچ گئی ہے اور ملکی ضرورت کے لیے ٹیکسٹائل سیکٹر بنگلہ دیش‘ بھارت اور چین کی طرف دیکھ رہا ہے اگر کپاس کے کاشت کاروں کو بہتر نرخ ملتے تو گنے کی کاشت میں اضافہ نہ ہوتا۔

چوہدری احمد علی اختر (صدر پاکستان ایگری فورم پنجاب)

سندھ اور پنجاب کی صوبائی حکومتوں نے گنے کی امدادی قیمت مقرر کرنے میں غیر معمولی تاخیر کی اور سندھ میں تقریباً ایک ماہ اور پنجاب میں تقریباً پندرہ دن کی تاخیر سے کرشنگ سیزن 2017-18ء کا آغاز ہوا‘ رحیم یار خان سمیت جنوبی پنجاب کے اضلاع میں گزشتہ سال وسطی پنجاب سے تین شوگر ملز منتقل کی گئیں تھیں ان ملز کی منتقلی کی وجہ سے تقریباً ڈیڑھ لاکھ ایکڑ پر زیادہ گنا کاشت کیا گیا تھا لیکن عدالتی کارروائی کے نتیجے میں ان ملز کی منتقلی غیر قانونی قرار پائی اور ان ملز کو  بند کرنے کا حکم جاری ہو گیا لیکن کسی نے عدالت عظمیٰ کی توجہ اس طرف مبذول نہ کرائی کہ ڈیڑھ لاکھ پر کاشت کیا گیا‘ یہ گنا جنوبی پنجاب کی موجودہ شوگر ملز کی کرشنگ کی گنجائش سے زیادہ ہے‘ شوگر ملوں کے باہر کئی کئی کلومیٹر تک لمبی لائنیں ہیں پرمٹ نہ ملنے کی وجہ سے کاشت کار سراپا احتجاج ہیں۔انہیں مارکیٹ میں چینی کے نرخ کے لحاظ سے گنے کا نرخ نہیں مل رہا ہے‘ گنے کے نرخ نہ بڑھنے کی بڑی وجہ یہ ہے کہ شوگر ملز مالکان سیاسی لوگ ہیں جبکہ ان میں سے بیشتر شوگر ملز مالکان حکومت کا حصہ بھی ہیں‘ وفاقی اور صوبائی اسمبلیوں میں بیٹھے یہ شوگر ملز مالکان گنے کے نرخ میں اضافے کی راہ میں بڑی رکاوٹ سمجھے جاتے ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ گنے کے کاشت کاروں پر ہونے والے ظلم اور زیادتی کی آواز کو دبا دیا جاتا ہے‘اس وقت کاشتکار سخت مایوسی کا شکار ہیں اور ان میں یہ سوچ تیزی سے پنپ رہی ہے کہ وہ آئندہ گنے کی کاشت ترک کر کے دوسری فصلات پر منتقل ہو جائیں اور آئندہ الیکشن میں حکمران جماعت کو ووٹ نہ دیکر اپنے ساتھ ہونے والی  زیادتیوں کا بدلہ لیں۔ کاشتکاروں میں پائی جانے والی شدید غم وغصہ کی لہر سے یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اگر فوری طور پر حکومت سندھ نے مداخلت کر کے گنے کے کاشتکاروں کی دادرسی نہ کی تو احتجاج کا یہ سلسلہ طویل اور سنگین ہوتا ہوا نظر آ رہا ہے وہ اس معاشی قتل پر بھرپور مزاحمت کے موڈ میں نظر آ رہے ہیں۔ ضلع رحیم یار خان میں شوگر ملز کی تعداد 6 ہو گئی ہے جبکہ رحیم یار خان سے ملحقہ سندھ پنجاب بارڈر پر لگنے والی شوگر ملز کو ملا کر یہ تعداد 12 پر جا پہنچتی ہے‘ شوگر انڈسٹری کا بڑھتا ہوا یہ رجحان ظاہر کرتا ہے کہ یہ کاروبار منافع بخش ہے جبکہ کہا جاتا ہے کہ شوگر ملز انڈسٹری مالکان اس قدر بااختیار بھی ہیں کہ کوئی سرکاری محکمہ بغیر اجازت شوگر ملز کے اندر نہیں جاسکتا اور نہ ہی جی ایس ٹی، مارکیٹ کمیٹی فیس یا شوگر سیس فنڈ کا حساب کتاب کرسکتا ہے۔

چوہدری محمد حسین (نمائندہ شوگر ملز ایسوسی ایشن)

گزشتہ سال کرشنگ سیزن 2016-17ء شروع ہونے سے پہلے شوگر ملز کے پاس چینی کا وافر سٹاک موجود تھا اور بین الاقوامی مارکیٹ میں چینی کی قیمت بلند ترین سطح یعنی 525-550 امریکی ڈالر فی ٹن پر فروخت ہو رہی تھی۔ اس وقت پاکستان شوگر ملز ایسوسی ایشن نے وزارت تجارت اور حکومت پاکستان سے درخواست کی کہ اس بنیاد پر کہ چونکہ نئے کرشنگ سیزن کا آغاز  ہونے والا ہے اور گنے کی فصل بھی گزشتہ سالوں کی نسبت بہت بہتر ہے لہٰذا گوداموں میں موجود اضافی چینی کو برآمد کرنے کی اجازت دی جائے‘ حکومت کو بتایا گیا کہ گنے کی ریکارڈ فصل کی بدولت ملکی ضرورت کو پورا کرنے کیلئے چینی کی کمی کا بھی کوئی اندیشہ نہیں ہے‘ لیکن وفاقی حکومت کے ذمہ دار اداروں نے شوگر ملز ایسوسی ایشن کی  اس درخواست کو خاص اہمیت نہ دی‘ 2016-17ء کا کرشنگ سیزن شروع ہو گیا اور اس کے ساتھ ہی بین الاقوامی مارکیٹ میں چینی کی قیمت تیزی سے کم ہونا شروع ہو گئی اور تقریباً 400 امریکی ڈالر کی کم ترین سطح کو چھونے لگی۔ تب جا کر حکومت نے چینی کی برآمد کی اجازت دی لیکن اس وقت تک بہت دیر ہو چکی تھی۔ شوگر ملز کیلئے ممکن نہ تھا کہ وہ چینی برآمد کر سکیں کیونکہ برآمدی قیمت فروخت چینی کی لاگت سے بھی بہت کم تھی چنانچہ حکومت کی عدم دلچسپی کی بدولت نہ صرفپاکستان ایک ارب ڈالر کے قیمتی زرمبادلہ سے محروم رہا بلکہ چینی اور گنے کا موجودہ بحران بھی اسی تاخیری فیصلے کا شاخسانہ ہے۔ گنے کی ریکارڈ فصل کی بدولت کرشنگ سیزن 2016-17ء میں پاکستان کی تاریخ میں سب سے زیادہ چینی کی پیداوار حاصل کی گئی۔ صورتحال یہ ہوگئی کہ 2015-16ء کے بچ جانے والے چینی کے سٹاک اور 2016-17ء کی ریکارڈ چینی کی پیداوار سے شوگر ملز کے گودام بھر گئے‘ یہ کل سٹاک ملکی ضرورت سے تقریباً دگنے تھے جبکہ بین الاقوامی مارکیٹ میں چینی کی قیمت نہ بڑھ سکی چنانچہ لاکھوں ٹن اضافی چینی کی پیداوار کو برآمد کرنا ناممکن ہو گیا۔ شوگر ملوں نے کاشت کاروں کو ان کی فصل کی ادائیگیاں بروقت کرنا ہوتی ہیں‘ ادائیگیوں کی رقم نہ ہونے کی صورت میں شوگر ملز کے لیے کرشنگ شروع کرنا مشکل رہا۔

عبدالصمد چوہدری (ضلعی صدر کسان اتحاد)

گنا  طویل دورانیہ تقریباً 13ماہ کی فصل ہے جس پر اخراجات دوسری فصلوں کی نسبت زیادہ ہوتے ہیں وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے کپاس اور دھان کے کاشت کاروں کو سبسڈی دی لیکن گنے کے کاشت کار محروم رہے۔ گنے کی فصل کو زائد پانی کی ضرورت پڑتی ہے یہی وجہ ہے کہ گنے کی کاشت ایریا میں ہوا میں نمی کا تناسب بڑھ جاتا ہے‘ یہ نمی خشک اور گرم مرطوب موسم کپاس کیلئے زہر قاتل ثابت ہوتی ہے‘ اس کی وجہ سے کپاس کے کھیتوں میں زررساں کیڑوں کا حملہ بڑھ جاتا ہے اور کپاس کو ان نقصان دہ کیڑوں سے بچانے کیلئے دوگنے تگنے سپرے کرنے پڑتے ہیں۔ جس کا نقصان چھوٹے کاشت کار کو اٹھانا پڑتا ہے‘ دیکھ بھال پر کثیر اخراجات کے باوجود کپاس کی مطلوبہ فی ایکڑ پیداوار حاصل نہیں ہوتی جس کی وجہ سے کاشت کار گنے کی فصل کاشت کرنے پر مجبور ہیں‘ ہر گزرتے دن کپاس کی کاشت میں کمی اور شوگر ملز میں اضافے نے کاٹن زون کو تباہ کر کے رکھ دیا ہے۔ کریشنگ کے دوران شوگر ملز کی چمنیاں کثیر مقدار میں دھواں چھوڑتی ہیں وہاں بوائلر کو ٹھنڈا رکھنے کے لیے روزانہ کروڑوں لیٹر پانی استعمال ہوتا ہے‘ چینی کی تیاری کے دوران بھاری مقدار میں کیمیکل زدہ پانی کا اخراج بھی ہوتا ہے جس کے لیے واٹر ٹریٹمنٹ پلانٹ لگائے جانے ضروری ہیں لیکن بدقسمتی سے ضلع رحیم یار خان میں شوگر ملز کی جانب سے واٹر ٹریٹمنٹ پلانٹ کی تنصیب نہیں ہو سکی ہے اور یہ زہریلا کیمیکل زدہ پانی نہروں اور سیم نالوں میں ڈالا جا رہا ہے‘ یہ نہریں زیر زمین کڑوے پانی کے علاقوں کی زمینوں کو سیراب کرتی ہیں اور ان علاقوں کی آبادیوں کے مکین پینے کے لیے یہی نہری پانی پی کر متعدی بیماریوں کا شکار ہو رہے ہیں۔n

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔