عہد عمران کا آغاز ہوا چاہتا ہے

اقبال خورشید  بدھ 20 دسمبر 2017

شہر سرد ہواؤں کے نرغے میں تھا۔ رات گہری اور طویل معلوم ہوتی تھی۔

شہر کی مصروف ترین سڑک زیب النسا اسٹریٹ اس وقت سناٹے میں ڈوبی تھی۔ فقط پٹرول پمپ پر روشنی تھی۔ کونے میں بیٹھا فقیر اپنی دن بھر کی کمائی گن رہا تھا۔ جب وہ یہ فریضہ انجام دے چکا، تو انگڑائی لے کر اٹھا اور پٹرول پمپ کے ان ملازمین کی سمت چل دیا، جو کچھ دیر سستانے کی غرض سے چادر بچھائے بیٹھے تھے، اور چائے اور مونگ پھلی سے محظوظ ہوتے تھے۔ منڈلی سے ہلکے ہلکے قہقہے اٹھ رہے تھے۔ چند الفاظ کانوں میں پڑے، تو اندازہ ہوا، عدالتی فیصلے پر تبصرے کیے جارہے ہیں۔ آیندہ انتخابات اور اگلی حکومت سے متعلق پیش گوئیاں داغی جارہی ہیں۔ اور ایک نام بار بار دہرایا جارہا ہے۔ اور یہ نام، بلاشبہ اس میں کوئی انکشاف نہیں، عمران خان کا تھا۔

سیاسی صورت حال میں ایک بڑی تبدیلی آئی ہے، ایک بڑا فیصلہ ہوا ہے، مگر کیا یہ فیصلہ خوش بختی لائے گا؟ ماضی اس ضمن میں محتاط رہنے کا مشورہ دیتا ہے۔ امیدیں باندھنے میں جلدی مت کیجیے۔ یہاں جھکڑ چلتے رہتے ہیں۔ جو روشنی دکھائی دیتی ہے، اسے التباس سمجھیں۔ میاں صاحب تین بار وزیر اعظم بنے، تین بار عہدے سے الگ کردیے گئے۔

کسی سے ان کی نہیں نبھ سکی۔ سابق آمر پرویز مشرف کا چند روز ادھر ایک ٹی وی انٹرویو دیکھا۔ انھیں میاں صاحب کے اسٹیبلشمنٹ سے الجھنے کی عادت پر مسرور پایا۔ ہمیں روشن خیالی کا پاٹ پڑھانے والے سابق آمر آج جماعت الدعوۃ اور لشکرطیبہ سے اتحاد پر راضی نظر آتے ہیں۔ حیرت ہے، کیا انھیں عسکری جدوجہد کرنے والی مذہبی جماعتوں سے اتحاد اپنی روشنی خیالی سے متصادم دکھائی نہیں دیتا۔ شاید ایم کیو ایم پاکستان اور پی ایس پی کے رویے نے انھیںاس نہج پر پہنچا دیا۔ کوئی سمجھائے، حضور، اب آپ غیرمتعلقہ ہوگئے ہیں۔ ماضی کی اچھی یادوں کے ساتھ وقت گزاریں، گولف کھیلیں، طبلہ بجائیں۔ سیاست جیسا سطحی کام، سطحی سیاست دانوں کے لیے چھوڑ دیں۔ وہ نااہل ہی اس کام کے اہل ہیں۔

15 دسمبر کو دو بڑے فیصلے آئے۔ ایک نے شہباز شریف کے لیے امکان پیدا کیا، دوسرے نے عمران خان کے لیے۔ کیا عمرا ن خان کا غیرملکی فنڈنگ کیس میں اہل قرار پانا غیر متوقع تھا؟ شاید نہیں، اگر خان نااہل ہوجاتا، تو سیاسی ڈھانچا ڈھے جاتا، جو کسی کے مفاد میں نہیں تھا۔ ہاں، جہانگیر ترین ضرور نااہل قرار پائے، مگر وہ بھی کھیل سے باہر نہیں ہوئے ہیں۔ اس ملک میں دولت مند شخص کبھی کھیل سے باہر نہیں ہوتا۔ وہ لوگ جو جہانگیر ترین کی نااہلی پر خوش ہیں، اور ان میں سے چند خود پی ٹی آئی میں ہیں، انھیں جشن منانے میں جلدی نہیں کرنی چاہیے۔ سپریم کورٹ میں اپیل دائر کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ اور یاد رہے، میاں صاحب کی مہربانی سے اب نااہل قرار دیا جانے والا شخص بھی پارٹی عہدہ اپنے پاس رکھ سکتا ہے۔ جہانگیر ترین سیکریٹری جنرل رہتے ہیں، تو کوئی دقت نہیں۔

شہباز شریف سے متعلق یہ تاثر عام ہے کہ وہ اسٹیبلشمنٹ کے لیے قابل قبول ہیں۔ ممکن ہے، یہ سچ ہو۔ کسی زمانے میں نواز شریف پر بھی نظر کرم تھی۔ انھیں بی بی کے مدمقابل لانے کے لیے ریاستی پیسہ اور وسائل دونوں ہی استعمال ہوتے تھے۔

البتہ اب پی پی پی اور ن لیگ کی باریوں میں وقفہ آنے کو ہے۔ کھیل میں نیا کھلاڑی داخل ہوچکا ہے۔ عمران خان کے لیے حالات سازگار ہیں۔ ن لیگ میں ٹوٹ پھوٹ شروع ہوچکی۔ اس پر قابو پانا میاں صاحب کے لیے ناممکن تو نہیں، مگر یہ آسان بھی نہیں ہوگا۔ وہ درجنوں افراد، جو کل تک مشرف کو چھوڑ کر ان سے آن ملے تھے، انھیں چھوڑنے میں دیر نہیں لگائیں گے۔ یہی ہماری سیاست ہے صاحب۔

طاقت اور تبدیلی کا محور اور مرکز اب بھی پنجاب ہے۔ 2013ء کے مقابلے میں اس بار پنجاب میں پی ٹی آئی کی کارکردگی بہتر رہے گی۔ کوئی 35 پنکچر نہ لگادے، اس کا بھی اہتمام کیا جائے گا۔ مگر کیا پی ٹی آئی، ق لیگ، جماعت اسلامی اور آزاد امیدواروں کا اکٹھ وہاں حکومت بنانے کی قوت رکھتا ہے؟ اس بابت حتمی طور پر کچھ کہنا مشکل۔ پنجاب میں کل کی طرح آج بھی پرو اسٹیبلشمنٹ ووٹ ہی غالب۔ جس پارٹی پر اداروں سے تصادم کا لیبل لگ جائے، اسے عوام کا اعتماد حاصل کرنے کے لیے خاصی محنت کرنی پڑتی ہے۔ یہی بات شبہاز شریف اور حمزہ شہباز میاں صاحب کو سمجھانے میں جٹے ہیں۔

پہلے بھی لکھا تھا، اگلے انتخابات میں کراچی ٹرمپ کارڈ ثابت ہوگا۔ مولانا قومی اسمبلی کی فقط 13 سیٹوں پر قومی لیڈر ہونے کے دعوے دار ہیں، ادھر ایم کیو ایم کے پاس 24 سیٹیں ہیں۔ فاروق ستار اور مصطفیٰ کمال کے اتحاد کی خواہش بے سبب نہیں۔ 2018ء کے انتخابات اس شہر کے سیاسی جمود پر ضرب لگا سکتے ہیں۔ گزشتہ دس سال میں پی پی نے اس شہر سے جو ناانصافیاں کیں، ان کی تلافی تو ممکن نہیں، البتہ بہتری کی امید ہے۔ اندرون سندھ پیپلزپارٹی مخالفت قوتیں کمزور ہیں۔ ادھر بھٹو ازم کا فی الحال کوئی توڑ نہیں۔ بلاول نے پھر سے جیالوں میں امید پیدا کردی ہے، مگر یہ قوتیں ایم کیو ایم کے ساتھ مل کر وفاق میں موجود پارٹی کی سرپرستی میں پیپلزپارٹی سے اچھا سودا کرسکتی ہیں۔ اور سودے بازی جمہوریت کا حسن ہے۔

بلوچستان کے سردار، غیر سردار سب اسی کا ساتھ دیں گے، جو مرکز میں حکومت بنائے گا۔ خیبر پختونخوا پھر پی ٹی آئی کے پاس جائے گا۔ پنجاب کا ذکر تو پہلے ہی ہوگیا، یوں صاحبو، پی ٹی آئی وفاق میں حکومت بنانے کو پوری طرح تیار ہے۔ اقتدار اور عمران خان کے درمیان فیصلہ کم ہوتا جارہا ہے۔ مگر شاید یہ اڑان ہموار ثابت نہ ہو۔

شہباز شریف کی منظر میں موجودی عمران کے لیے مستقل خطرہ ہے، اور اس خطرے کو باقی رکھنے کا اہتمام کیا جاسکتا ہے۔ شہباز شریف کا تجربہ، حمزہ شہباز کی اسٹریٹجی پنجاب میں ن لیگ کو اتنی بڑی قوت کے طور پر باقی رکھنے میں کامیاب رہے گی، جو بوقت ضرورت عمران خان کے لیے درد سر بن سکے۔ ( صاحب مسند کے لیے ایسے درد سر کا اہتمام بھی جمہوریت کا حسن ہے)

پی ٹی آئی سے کسی اور کا وزیراعظم بننا جنونیوں کو تو قبول نہیں ہوگا، مگر حقائق کی دنیا میں یہ بڑی حد تک امکانی ہے۔ اور اگر ایسا ہوا، تو قرعہ فال شاہ محمود قریشی یا اسد عمر کے نام نکل سکتا ہے۔ خیر، وزیراعظم جو بھی ہو، اقتدار کا محور خان ہی ہوں گے۔ اقتدار کی طاقت بھی ان ہی کے پاس ہوگی، تلخی بھی ان ہی کو برداشت کرنی پڑے گی۔

اب ملین ڈالر سوال یہ ہے کہ کیا میاں صاحب سیاست سے مائنس ہوچکے ہیں؟

اگر یہ اتنا ہی آسان ہوتا صاحب، تو واقعہ یہ برسوں قبل، مشرف دور ہی میں رونما ہوچکا ہوتا۔ ن لیگ کا ووٹ بینک دراصل میاں صاحب کا ووٹ بینک ہے، اور میاں صاحب کی جانشین مریم نواز میدان میں موجود ہیں۔

ممکن ہے، چند برس بعد جب شہر قائد پھر سرد ہواؤں کی زد میں ہو، رات گہری ہوگئی ہو، تب زیب النسا اسٹریٹ کے کونے پر موجود پٹرول پمپ کا عملہ پھر سستانے کو بیٹھے۔۔۔ سیاست کا موضوع پھر زیر بحث آئے۔۔۔ اور ایک نام بار بار دہرایا جائے۔۔۔ اور اس بار یہ میاںنواز شریف کا نام ہو۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔