- کرپٹو کرنسی فراڈ اسکینڈل میں سام بینک مین فرائڈ کو 25 سال قید
- کراچی، تاجر کو قتل کر کے فرار ہونے والی بیوی آشنا سمیت گرفتار
- ججز کے خط کی انکوائری، وفاقی کابینہ کا اجلاس ہفتے کو طلب
- امریکا میں آہنی پل گرنے کا واقعہ، سمندر سے دو لاشیں نکال لی گئیں
- خواجہ سراؤں نے اوباش لڑکوں کے گروہ کے رکن کو پکڑ کر درگت بنادی، ویڈیو وائرل
- پی ٹی آئی نے ججز کے خط پر انکوائری کمیشن کو مسترد کردیا
- عدالتی امور میں ایگزیکٹیو کی مداخلت کسی صورت برداشت نہیں کی جائے گی، فل کورٹ اعلامیہ
- وفاقی حکومت نے کابینہ کی ای سی ایل کمیٹی کی تشکیل نو کردی
- نوڈیرو ہاؤس عارضی طور پر صدرِ مملکت کی سرکاری رہائش گاہ قرار
- یوٹیوبر شیراز کی وزیراعظم شہباز شریف سے ملاقات
- حکومت کا بجلی کی پیداواری کمپنیوں کی نجکاری کا فیصلہ
- بونیر میں مسافر گاڑی کھائی میں گرنے سے ایک ہی خاندان کے 8 افراد جاں بحق
- بجلی 2 روپے 75 پیسے فی یونٹ مہنگی کردی گئی
- انٹربینک اور اوپن مارکیٹ میں ڈالر کی نسبت روپیہ تگڑا
- حکومت نے 2000 کلومیٹر تک استعمال شدہ گاڑیاں درآمد کرنے کی اجازت دیدی
- کراچی: ڈی آئی جی کے بیٹے کی ہوائی فائرنگ، اسلحے کی نمائش کی ویڈیوز وائرل
- انوار الحق کاکڑ، ایمل ولی بلوچستان سے بلامقابلہ سینیٹر منتخب
- جناح اسپتال میں خواتین ڈاکٹروں کو بطور سزا کمرے میں بند کرنے کا انکشاف
- کولیسٹرول قابو کرنیوالی ادویات مسوڑھوں کی بیماری میں مفید قرار
- تکلیف میں مبتلا شہری کے پیٹ سے زندہ بام مچھلی برآمد
تیسرا کنارہ (افسانوں کا مجموعہ)
کتاب کا نام: تیسرا کنارہ (افسانے)
مصنف: مدثر حسین ملک
تاریخِ اشاعت: مئی 2017
صفحات: 111
قیمت: 400 روپے
پبلشر: گفتگو پبلی کیشنز، اسلام آباد
زیرِ تبصرہ کتاب ’’تیسرا کنارا‘‘ 31 افسانوں پر مشتمل ہے جن میں سے چند قاری کے ادبی ذوق کو مہمیز کرتے نظر آتے ہیں۔ بطورِ خاص خواہش اور دعا، تیسرا کنارا، خاموش زہر، محبت کیا ہے؟ اور آخری یاد کا ذکر ناگزیر ہے۔ یہ افسانے جہاں ایک طرف زندگی کی تلخ حقیقتوں کا عکس پیش کرتے ہیں، وہیں دوسری جانب ان میں عشقِ حقیقی اور تصوف کا رنگ سامنے آتا ہے۔ مدثر حسین نے اس استعارے کو لفظی پیکر عطا کرتے ہوئے اپنے احساسات اور واردات قلبی کی شکل میں صفحۂ قرطاس پر بکھیرا ہے۔ یہی ان کے فن کا کمال ہے۔
مصنف اس کتاب کے موضوعات (تصوف،عشقِ حقیقی، انسانی نفسیات اور انسانی فطرت) کو درج ذیل ایسے بہت سے جملوں میں پرو کر خوبصورتی کا پہاڑ عبور کرتے ہیں کہ قاری لفظوں کے سحر میں کھو سا جاتا ہے:
’’وہ کون ہو سکتا ہے جو آنکھوں کی چلمن میں اس طرح آن بیٹھے کہ ہر طرف وہی نظر آئے؟ وہ کون ہو سکتا ہے جو رات کے آخری پہر دل کی وادی میں یوں قبضہ جما لے کہ پھر کسی اور کا گزر وہاں سے ناممکن ہو جائے؟ وہ تو بس خدا ہی ہو سکتا ہے۔‘‘
’’وقت تو فاتح ہے۔ دنیا کو زیر کر رکھا ہے اس نے۔ پھر بھلا تمہیں کیوں لگا کہ تم نے وقت کو شکست دے دی۔‘‘
’’موت! میں نے چونک کر اسے دیکھا۔ سورج ڈھل چکا تھا اور مغرب کے افق پر ہلکی سی لالی باقی تھی۔ ہاں موت۔ جیسے موت زندگی کی حفاظت کرتی ہے، زندگی سے محض پانچ فٹ کے فاصلے پر رہ کر…‘‘
افسانے کے فن پر بات کریں تومصنف اس معیار پر بھی پورے اترتے ہیں۔ موصوف موضوع و مقام کے مطابق زبان و بیان کا استعمال کرتے ہیں۔ ان کے افسانوں میں وحدت تاثر بھی پایا جاتا ہے۔ ان کے افسانوں کا اختتام اتنا افسانوی ہوتا ہے کہ کہانی کاغذ پر ختم ہوتے ہی قاری کے ذہن میں چلنا شروع ہوجاتی ہے۔
مدثر حسین ملک کا اندازِ تحریر مکالمانہ ہے جو اس بات کا غماز ہے کہ موصوف رچا ہوا فنی شعور رکھتے ہیں۔ ان جملہ فنی محاسن کے درمیان جو ایک بات کھٹکتی ہے وہ مصنف کا اسلوب ہے جس میں خالص ہندی الفاظ اور جدید اردو لفاظی کی آمیزش ہے۔ افسانہ ’’تیسرا کنارا‘‘ مدثر حسین ملک کا ایک کامیاب افسانہ ہے۔ یہ حکمتِ خداوندی سے لبریز پیالہ ہے جو لفظ بہ لفظ اللہ تعالیٰ کی حکمت کو آشکارا کرتا ہے۔ مصنف کا کہنا ہے: ’’خدا کو میزان کے دونوں پلڑے برابر ہی پسند ہیں، جبھی ابلیس کی صورت میں نفرت کا بھی جنم ہوا۔ خدا کو انسان سے محبت تھی اور ابلیس کو انسان سے نفرت۔ اور انسان ان دونوں جذبات سے ناآشنا اپنی جنت میں تھا۔ جذبات کی مثلث میں محبت اور نفرت نے تو جگہ بنالی مگر اس مثلث کا تیسرا کنارا خالی تھا۔ خدا نے اس تیسرے کنارے کےلیے ہجر کو چنا اور انسان کو جنت سے کوچ کرنے کا حکم صادر ہو گیا۔‘‘
افسانہ ’’کبھی اے حقیقتِ منتظر‘‘ اور’’خوف کے ایک پل کے نام‘‘ کو نہایت مختصراً پیش کرکے قاری کو افسانوی دنیا سے کہیں بہت دور جا کھڑا کیا ہے جو قاری کے ذوقِ طبع پر گراں گزرتا ہے۔ ’’خود فراموشی‘‘ اور ’’اعترافِ جرم‘‘ میں نرم دلوں کو مزید موم کرنے کی کامیاب کوشش کی گئی ہے جس کی تعریف ہونی چاہیے۔ یوں تو ’’فل اسٹاپ‘‘ بھی کامیاب تصنیفات ہیں جو اسی ایک نام سے مختلف چار تحاریر کتاب میں موجود ہیں جبکہ عموماً ایسا مصنف اور قارئین پسند نہیں کرتے۔ بلاشبہ مصنف ایک منجھے ہوئے افسانہ نگار ہیں جنہوں نے روز مرہ کے مسائل کو اپنے افسانوں کا موضوع بنا کر اپنے فن کو زندگی کا ترجمان بنا دیا ہے۔
ایک اہم بات جس کا ذکر ناگزیر ہے، ہر ادب پارہ اپنی مخصوص ارتقائی خوبصورتی کا خوگر ہوتا ہے۔ اور یہی مدثر حسین ملک کے ساتھ بھی ہوا ہے۔
آخرمیں گفتگو پبلی کیشنز، اسلام آبادکو دادِ تحسین کہ جنہوں نے اس خوبصورت شاہ پارے کو مزید مزین کرتے ہوئے اپنی فکری کاوش کا اظہار کیا ہے۔ سچ پوچھیے تو اس سوشل میڈیا کے دور میں بھی اگر اس کتاب کا محض سرِورق دیکھ لیا جائے تو انسان اپنے وجود کے تیسرے کنارے کی جستجو میں کھو سا جاتا ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لئے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔