- پختونخوا کابینہ؛ ایک ارب 15 کروڑ روپے کا عید پیکیج منظور
- اسلام آباد ہائیکورٹ نے پی ٹی آئی رہنما کو عمرے پرجانے کی اجازت دے دی
- وزیر اعظم نے مشترکہ مفادات کونسل کی تشکیل نو کر دی
- پنجاب گرمی کی لپیٹ میں، آج اور کل گرج چمک کیساتھ بارش کا امکان
- لاہور میں بچے کو زنجیر سے باندھ کر تشدد کرنے کی ویڈیو وائرل، ملزمان گرفتار
- پشاور؛ بس سے 2 ہزار کلو سے زیادہ مضر صحت گوشت و دیگر اشیا برآمد
- وزیراعلیٰ پنجاب نے نوازشریف کسان کارڈ کی منظوری دے دی
- بھارتی فوجی نے کلکتہ ایئرپورٹ پر خود کو گولی مار کر خودکشی کرلی
- چائلڈ میرج اور تعلیم کا حق
- بلوچستان؛ ایف آئی اے کا کریک ڈاؤن، بڑی تعداد میں جعلی ادویات برآمد
- قومی ٹیم کی کپتانی! حتمی فیصلہ آج متوقع
- پی ایس 80 دادو کے ضمنی انتخاب میں پی پی امیدوار بلامقابلہ کامیاب
- کپتان کی تبدیلی کیلئے چیئرمین پی سی بی کی زیر صدارت اہم اجلاس
- پاکستان کو کم از کم 3 سال کا نیا آئی ایم ایف پروگرام درکار ہے، وزیر خزانہ
- پاک آئرلینڈ ٹی20 سیریز؛ شیڈول کا اعلان ہوگیا
- برج خلیفہ کے رہائشیوں کیلیے سحر و افطار کے 3 مختلف اوقات
- روس کا جنگی طیارہ سمندر میں گر کر تباہ
- ہفتے میں دو بار ورزش بے خوابی کے خطرات کم کرسکتی ہے، تحقیق
- آسٹریلیا کے انوکھے دوستوں کی جوڑی ٹوٹ گئی
- ملکی وے کہکشاں کے درمیان موجود بلیک ہول کی نئی تصویر جاری
قومی اسمبلی میں ریکارڈقانون سازی،23ارکان کے لبوں پرتالے
اسلام آباد: قومی اسمبلی کی 5سالہ مدت پوری ہونے پر غیر سرکاری تنظیم فری اینڈ فیئر الیکشن نیٹ ورک (فافین) نے اپنی جائزہ رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ 5 سالہ مدت میں 23 قانون سازوں نے پارلیمانی کارروائی میں حصہ نہیں لیا۔
جمعے کو فافین کے پروجیکٹ کوآرڈی نیٹر عدنان انجم ، ڈائریکٹر پروگرامز رشید چوہدری اور دیگرنے رپورٹ پیش کرتے ہوئے کہا کہ ایوان زیریں نے قانون سازی کے ایجنڈے کے ذریعے ملک میں گورننس کے ڈھانچے کو بدل دیا جس کی بدولت صوبائی خودمختاری کو یقینی بنایا گیا، 1973کے آئین کو بحال کر دیا گیا اور خواتین کو بااختیار بنانے کے حوالے سے پیش رفت کی گئی۔ پاکستان کی پارلیمانی تاریخ میں پہلی مرتبہ اسپیکر کسی خاتون کو بنایا گیا، صدر مملکت نے لگاتار 5 سال مشترکہ اجلاس سے خطاب کیا، پارلیمانی روایات کے مطابق اپوزیشن لیڈر کو پی اے سی کا چیئرمین بنایا گیا۔
50 ریگولر سیشنز میں اسمبلی کی 521 نشستیں ہوئیں۔ 134 بل منظور کیے جن میں 116 حکومتی اور 18 نجی اراکین کے بل شامل تھے، ان میں 81 پارلیمانی ایکٹ بن گئے۔ آخری 3 سیشن میں انسداد دہشت گردی کے 4 بل منظور کیے گئے تاہم اکتوبر 2012 میں متعارف کردہ احتساب ایکٹ پاس نہ ہوسکا۔ 243 قراردادوں میں سے 85 منظور کی گئیں، ان میں خواتین کے حقوق کے متعلق 6 اور اقلیتوں کے حقوق اور توہین مذہب کے بارے میں 5، 5 قرار دادیں تھیں۔ 216 ارکان نے 16056 سوالات اٹھائے، حکومت نے 12623 سوالوں کا جواب دیا، 3357 سوال نظر انداز کر دیے گئے۔
311 ارکان نے 5099 نکتہ ہائے اعتراض پر بات کی۔543 توجہ دلائو نوٹس پیش کیے گئے جن میں 440 پر ایوان نے بحث کی۔ فافین کے اعداد وشمار کے مطابق 5 سال میں 23 قانون سازوں نے ، جن میں 18 مرد اور 5 عورتیں شامل ہیں، پارلیمانی کارروائی میں حصہ نہیں لیا۔ ایک ٹی وی کے مطابق جن ارکان نے لب کشائی نہ کی ، ان میں پیپلزپارٹی اور (ق) لیگ کے 8، 8 اور (ن) لیگ و اے این پی کے 2، 2 ارکان شامل ہیں۔ قومی اسمبلی نے 2 قائد ایوان اور 2 قائد حزب اختلاف کا انتخاب بھی کیا، 11 ارکان نے دہری شہریت پراستعفے دیے، 5 ارکان انتقال کر گئے۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔