اداروں یا افراد کا پاکستان

جاوید قاضی  جمعرات 21 دسمبر 2017
Jvqazi@gmail.com

[email protected]

عمران خان نااہل نہ ہوئے، جہانگیر ترین ہوگئے۔ کچھ یوں ہی تھا ’’قاصد کے آتے آتے خط اک اور لکھ رکھوں، میں جانتا ہوں جو وہ لکھیں گے جواب میں‘‘ نواز شریف کا اقامہ اور وہ ٹرسٹ جس کے مستفید جہانگیر ترین تھے۔ دونوں انیس بیس کے فرق کے ساتھ ایک ہی پلڑے میں تلے۔ دونوں نے اپنے اثاثوں میں جو الیکشن کمیشن کو جمع کروائے اس میں ان کا ذکر نہیں کیا۔

ان کا حلفیہ بیان جھوٹا نکلا تو پھر کاہے کے دونوں صادق اور امین۔ خان صاحب بال بال بچ گئے جمائمہ بالآخر پرانے بند بینک کے ریکارڈ تک رسائی پا سکیں اور اپنے سابقہ شوہر کی مدد کو آئیں اور اسطرح جو میچ خان صاحب نے جیتا ہے اس کا سہرا جمائمہ کے سر ہے۔ ایک طرف جمائمہ ہیں جن سے خان صاحب کی اولاد بھی ہے اور دوسری طرف ریحام خان ہیں، جس سے خان صاحب کی کوئی اولاد نہیں۔ دونوں آپ کی سابقہ بیویاں ہیں۔ راستے میں چلتے چلتے پھر ایک عائشہ گلالئی نامی خاتون بھی ان کے خلاف نکل پڑیں اور اسطرح ہمارا سفر سیاست چلتا رہا۔ کورٹ اقامہ کے آڑے آتی رہی اور اقامہ کورٹ کے آڑے آتا رہا پھر آخر میں جہانگیر ترین کے ٹرسٹ نے میاں صاحب و ہمنوا کی زبان پر مہر لگادی۔ ورنہ اگر جہانگیر ترین بھی بچ جاتے تو پھر وہ اپنے حلقہ ووٹر میں یہ کہتے کہ ’’دیکھا ہم کہتے تھے کہ ایک گہری سازش ہے ہمارے خلاف‘‘

سعد رفیق نے کہا کہ جو جہانگیر ترین کے ساتھ ہوا اس کا ان کو دکھ ہوا ہے۔ ارے بھائی حنیف عباسی صاحب آپ ہی کی پارٹی، آپ ہی نے سپریم کورٹ میں پٹیشن دائر کی، آپ ہی چاہتے تھے کہ ان کا بھی وہی حشر ہو جو ان کے لیڈر میاں صاحب کا ہوا ہے۔ اور اب جب یہ فیصلہ آیا ہے تو یہ ناخوش!!! بھلا کیا وجہ ہے جو یہ عمران خان کی وکٹ گرانا چاہتے تھے اور وہ نہ گری اور جو وکٹ گری وہ اتنی فیصلہ کن نہ تھی۔ اب کیا کریں۔ اگر کہتے ہیں کہ جہانگیر ترین کے ساتھ اچھا ہوا تو اس کا مطلب ہے کہ نواز شریف کے ساتھ بھی اچھا ہوا اور اس کے معنی یہ ہیں کہ 62 (1) (f) کا پیمانہ صحیح ہے۔ اور اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ اقامہ واقعی غلط ہے اور ان کو میاں صاحب نے disclose نہیں کیا تھا۔

اور پھر، یہ اتفاق ہی صحیح کہ حدیبیہ سے پھر فارغ ۔ ساتھ ساتھ اورنج ٹرین پر کام شروع ۔ اور پھر یوں بھی ہوا کہ بالآخر چیف جسٹس بول ہی پڑے۔ بول کیا ابل پڑے۔ بول کہ لب آزاد ہین تیرے! یوں کہیے کہ جو سیاست اقامہ پر میاں صاحب چمکانہ چاہتے تھے وہ چمکا نہ سکے یہ اور بات ہے کہ ان کا ووٹر اب بھی محفوظ ہے سوائے ان ووٹرز کے جو خادم رضوی لے گئے ۔ خادم رضوی کے خلاف میاں صاحب کے پاس بھی کیپٹن صفدر کی صورت میں ایک مزائل ہے۔ دیکھتے ہیں کہ کب تک بکرے کی ماں خیر منائے گی اور کب تک یہ High doze injection   دے کر مذہبی بیانیہ پر کام چلائیں گے۔

اسپیکر ایاز صادق سے پہلے ہم نے یہی کہا تھا کہ شاید حکومت مارچ کا مہینہ مشکل سے نکال سکے۔ لیکن اب ہم پر کچھ نئے شواہدات ظاہر ہو رہے ہیں ، وہ یہ ہیں کہ سینیٹ میں بالآخر نئے حلقہ بندیوں کے حوالے سے بل میرے اس آرٹیکل کے چھپنے تک پاس ہوچکا ہوگا۔ اور میری تحریر کے دوران یہ خبر بھی آگئی ہو گی کہ جنرل باجوہ نے سینیٹ کے بند اجلاس میں بریفنگ دی۔ یعنی سسٹم ہوا بڑا ، سینیٹ ہوئی سب سے بڑی اور ہماری عسکری قیادت ہوئی سسٹم کے تابع ۔ اور اگر یہ سب اسطرح ہی ہے تو میاں صاحب کو کچھ اچھا محسوس نہ ہوا ہوگا او ر وہ یہ باور کروائیں کہ ان کے بغیر سسٹم اور گلشن کا کاروبار نہ چلے اور اگر چلے بھی تو رک رک کر چلے۔ بقول اقبال بانو تو لاکھ چلی ری گوری تھم تھم کے۔پائل میں گیت ہیں چھم چھم کے۔۔۔

بنیادی طور پر ہماری جمہوریت اتنی گہری نہیں کہ جمہوری روایات بھی اس کا حصہ ہوں۔ وہ چلے جاتے جب پانامہ کا ہنگامہ اٹھا تھا۔ برطانیہ کے وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون استعفیٰ دے کے بیٹھ گئے محض اس بات پر کہ ان کے والد کی ایسی آف شور کمپنی تھی۔ آئس لینڈ کے وزیر اعظم کے ساتھ بھی یہی کچھ ہوا۔۔

میاں صاحب اپنے خلاف انکوائری پر اثر انداز ہو رہے تھے اور پھر اقامہ بیچ میں آگیا اور اب بھی انکوائری جاری ہے مگر وہ اس پر براہ راست اثر انداز نہیں ہوسکتے۔ انصاف کے تقاضے بڑے گہرے ہیں اور اپنا حوالہ رکھتے ہیں۔ صرف آنکھ انصاف کرنے والی ہونی چاہیے۔اسباب مقرر کرنا کبھی کبھی ثانوی ہوجاتے ہیں جس کو قانون پر Commentary  لکھنے والے Reasoning back  یا Reasoning forward   کے نام سے بیان کرتے ہیں۔

جو چیز ہم سمجھنے سے قاصر ہیں وہ یہ ہے کہ پاکستان اپنی 70 سال کی تاریخ میں پہلی بار بہت بڑے Transitional  فیز سے گذر رہا ہے۔ ہماری یاریاں امریکا کے ساتھ وہ نہیں رہیں، ہماری نئی اسٹریٹجک Alignment  چین کے ساتھ گہری ہوتی جارہی ہے۔

اور یہی وجہ ہے جو جنرل باجوہ آج سینیٹ میں بیاں کرنے آئے اور ساتھ ساتھ ہم Responsible  ریاست کی حیثیت سے اپنا مقام برقرار رکھنا چاہتے ہیں۔ اس لیے ہم یہ باور کروانا چاہتے ہیں کہ ہماری چین سے بڑھتی ہوئی دوستی ہمیں دنیا سے تعلقات رکھنے کے لیے نہیں روک رہی ۔ ہم اپنی خارجہ پالیسی کو اور بھی حساس اور سنجیدہ کرنا چاہتے ہیں انتہائی Professional  حد تک ۔ اس لیے آہستہ آہستہ خارجہ پالیسی کے حوالے سے پارلیمینٹ سے ہدایات لینے کے لیے رجوع کرنا پڑیگا۔

مشکل یہ ہے کہ سپریم کورٹ کا کوئی ترجمان نہیں ہوتا۔ اور ہونا بھی نہیں چاہیے۔ سپریم کورٹ کے پاس Contempt of court  کے حوالے سے جورسڈکشن ہے اور اس حد سے زیادہ تجاوز بھی نہیں کرنا چاہیے۔ ایک ایسے وقت جب حکمراں جماعت نے اور خود میاں صاحب نے سپریم کورٹ کو نشانہ بنایا ہوا ہے ۔ اس وقت چیف جسٹس کو ایک تقریب میں مخاطب ہوتے ہوئے ان باتوں پر تذکرہ کرنا ایک رواجی سا کام تھا اور ہمیں جو چیز سمجھ نہیں آتی وہ یہ ہے کہ جب حکمران حکومت نہ کر سکیں تو دو مطلب ہو سکتے ہیں ایک یہ کہ’’ عزیز ہم وطنو‘‘ اور دوسری یہ کہ Judicial action   ہو۔ اور Judicial action کیوں نہ ہو جب سندھ کے 90 فیصد لوگوں کو صاف پانی پینے کے لیے میسر نہیں۔ اور ایسی کئی مثالیں دی جا سکتی ہیں ۔ اور حکمران جب بہتر ہوتے ہیں تو Judicial action خود بہ خود ماند پڑ جاتا ہے۔

ہماری عدلیہ ماضی میں کیا تھی اگر اس ترتیب سے دیکھا جائے تو پھر یہ بھی بتایا جائے گا میاں صاحب ماضی میں کیا تھے اور ذوالفقار علی بھٹو کا ماضی بھی دیکھنا پڑیگا۔

یہ ملک ہمیں بڑی مشکل سے ملا ہے ہمیں اور سے اور پاکستان چاہیے۔ اور اور سے اور پاکستان کا مطلب ہے مضبوط اداروں والا پاکستان جب کہ میاں صاحب کے پاس جس پاکستان کا فریم ہے وہ افراد کا پاکستان ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔