غیر ملکی کوچ کا تجربہ ایک بار پھر ناکام

میاں اصغر سلیمی  اتوار 17 مارچ 2013
ڈیو واٹمور ہو یا جولین فائونٹین یا دنیا کا کوئی اور بڑے سے بڑا کوچ، یہ کوچز مل کر بھی پاکستانی ٹیم کا قبلہ درست نہیں کر سکتے ، فوٹو: فائل

ڈیو واٹمور ہو یا جولین فائونٹین یا دنیا کا کوئی اور بڑے سے بڑا کوچ، یہ کوچز مل کر بھی پاکستانی ٹیم کا قبلہ درست نہیں کر سکتے ، فوٹو: فائل

وہ بھی کیا دن تھے جب ہماری دادیاں ہمیں مزے مزے کے کھانے بنا کرکھلاتی تھیں۔

اس دور میں ملٹی نیشنل کمپنیوں کے بنائے ہوئے تیار شدہ مصالحے ہوتے تھے اور نہ ہی مختلف ٹی وی چینلز پرکھانا پکانے کے پروگرام بار بار نشر ہوتے تھے۔ ہماری دادی اماں جب سالن پکانے کے لئے ہنڈیا چولہے پر رکھتیں توکھانا پکانے کی بڑی بڑی کتابیں نکال کر ترکیبیں آزمانے کی بجائے مٹھی بھر کر اندازے سے نمک مرچوں کا استعمال کیا کرتی تھیں اور جب سالن تیار ہو کر دستر خوان کی زینت بنتا تواتنا مزیدار اور لذیز ہوتا کہ کھانے والا اپنی انگلیاں چاٹتا رہ جاتا۔ یہ سلسلہ ہماری دادیوں سے منتقل ہوتا ہوا ہماری مائوں تک بھی پہنچتا رہا، نہ جانے اس کے بعدکس کی نظر لگ گئی ہے کہ اندازوں سے مصالحہ جات کا استعمال کرنے کے فن کی یہ وراثت ہماری بیگمات، ہماری بہنوں اور بیٹیوں میں منتقل نہ ہو سکی۔

ہماری خواتین نوٹوں کے نوٹ لے کر بازاروں کا رخ کرتی ہیں اور شہروں میں موجود لاکھوں، کروڑوں روپے سے بنے ہوئے ڈیپارٹمنٹل اسٹورز پر جاتی ہیں اور دوسری اشیاء کے ساتھ بھاری رقوم خرچ کر کے وہاں سے مختلف کمپنیوں کے پہلے سے تیار کردہ مصالحہ جات لے کر واپس آتی ہیں، کھانا تیار کرتی ہیں لیکن اس کے باوجود کھانے میں کبھی نمک کم ہوتا ہے توکبھی مرچیں اور کبھی دوسرے لوازمات کسی چیز کی کمی یا زیادتی کا منہ چڑاتے ہیں اور ہم بے چارے شوہر خواتین کا دل رکھنے کے لئے ان کی ہاں میں ہاں ملاتے ہیں، مصلحت پسندی کے اس فارمولے پر عمل نہ کرنے والوں کا جو حال ہوتا ہے ، وہ شادی شدہ حضرات سے بہتر اور کون جان سکتا ہے۔

اسی طرح ماس کمیونی کیشن میں ماسٹر کرنے سے پہلے راقم نے گورنمنٹ کے ایک ادارے سے ٹیکسٹائل کا دو سالہ ڈپلومہ کیا، ڈگری کے حصول کے بعد مقامی ٹیکسٹائل مل میں ملازمت کا آغاز کیا اور شب و روز کی محنت کے نتیجہ میں کچھ ہی عرصہ بعد لیبارٹری کا انچارج بن گیا، رنگوں کو دیئے گئے کلر کے ساتھ میچ کرنے کے لئے ڈائنگ ماسٹر کے ساتھ سر جوڑ کر بیٹھ جاتا اور اکثر ایسا بھی ہوتا کہ ہم دونوں مل کر بھی دن بھر میں ایک بھی کلر میچ کرنے میں کامیاب نہ ہوپاتے جبکہ ہمارے بعد رات کی شفٹ میں آنے والا چٹا ان پڑھ شفٹ انچارج لیبارٹریوں کے جھنجھٹ میں پڑنے کے بجائے اندازے سے ہی مشین میں پانی اور رنگ ڈالتا اور جس کلر کو ہم پڑھے لکھے لوگ کئی گھنٹوں کی کوششوں کے باوجود تیار نہ کر پاتے تھے وہ اپنے تجربہ اور مہارت سے نہ صرف اسے تیار کر لیتا بلکہ تین، چار مزید کلرز بھی میچ کرنے میں کامیاب ہو جاتا۔

ہماری کرکٹ کی صورت حال بھی کچھ ایسی ہی ہے، ہمیں رنگ میں صحیح رنگ ملانے والے کم اور بھنگ ڈالنے والے زیادہ میسر ہیں۔ تاریخ شاہد ہے کہ پی سی بی نے جب بھی قومی ٹیم کی کوچنگ کا تاج ملکی کوچ کے سر پر سجایا تو عالمی سطح پر کامیابیاں وکامرانیاں ہمارا مقدر بنیں جبکہ گورے کوچ نے ہمیں ناکامیوں،مایوسیوں، رسوائیوں، بے بسیوں اور طعنوں کے سوا کچھ نہ دیا۔ شائقین ابھی تک کرکٹ کے وہ حسین لمحات نہیں بھولے جب عمران خان کی قیادت اور انتخاب عالم کی کوچنگ میں قومی ٹیم نے آسٹریلیا کی سرزمین پر 1992ء کا ورلڈ کپ جیت کا گوروں کا غرور خاک میں ملایا تھا۔ہماری نگاہوں میں ابھی تک وہ مناظر گھوم رہے ہیں جبکہ گرین شرٹس نے یونس خان کی کپتانی اور انتخاب عالم ہی کی کوچنگ میں 2009ء میں انگلینڈ میں ٹوئنٹی20  کے عالمی کپ کا ٹائٹل اپنے نام کر کے گوروں سے اپنی غلامی کا بدلہ لیا تھا۔

گھمنڈ، غرور، طاقت اور اندھی طاقت کے نشے میں چورقومیں یا شخصیات گمراہی کا شکار ہوتی ہے تو قدرت بھی ان کی عقلوں پر پردہ ڈال دیتی ہے، قومی ٹیم کو عالمی چیمپئن بنوانے والے انتخاب عالم کو کوچ کمیٹی کا سربراہ بنا دیا جاتا ہے تو وہ گرین شرٹس کی کامیابیوں کے امکانات اپنوں کی بجائے غیروں میں تلاش کرتا ہے، اپنوں کی تو پرواہ نہیں کرتا لیکن غیروں پر خاصا مہربان نظر آتا اوران پر نوٹوں کی بارش کرتا ہے۔

پی سی بی کی کوچ فائنڈنگ کمیٹی کے سربراہ سے بہتر کون بتا سکتا ہے کہ ٹیم کی کامیابیوں کا راز کس میں پنہاں ہے۔ اب تک چار غیر ملکی کوچز کو قومی ٹیم کی کوچنگ کرنے کا اعزاز حاصل ہے، ان میں رچرڈ پائی بس، باب وولمر، جیف لاسن اور موجودہ ڈیو واٹمور شامل ہیں۔ان میں ایک بھی گورا کوچ ایسا نہیں ہے جس نے پاکستان کو عالمی سطح پر کوئی بڑی کامیابی دلائی ہو۔ اگر غیر ملکی کوچز کے پاس ہی فتوحات کی جادو کی چھڑی ہے تو وہ اس کو گھما کر کینیا، زمبابوے، افغانستان یا متحدہ عرب امارات کو عالمی چیمپئن کیوں نہیں بنوا دیتے۔

رچرڈ پائی بس کو ایک نہیں دو بار پاکستانی ٹیم کی کوچنگ کرنے کا موقع ملا لیکن وہ ٹیم کو فتوحات کی راہوں پر گامزن کرنے کی بجائے کھلاڑیوںکو شر پسندی، اختلافات اور گروپ بندی کا سبق دے کر چلتا بنا۔ باب وولمر آئے تو قومی ٹیم ورلڈ کپ2007 کے پہلے ہی رائونڈ سے باہر ہو گئی۔ جیف لاسن بھی گرین شرٹس کو بڑی کامیابی نہ دلا سکا۔ چوتھے اور موجودہ کوچ ڈیو واٹمور نے قومی ٹیم کی کامیابیوں کو ہی بریک لگا دی، ناکامیوں کا یہ سلسلہ سری لنکا سے شروع ہو کر جنوبی افریقہ تک جا پہنچا ہے۔کیا انتخاب عالم نہیں جانتے کہ ملکی کرکٹ کاقبلہ رچرڈ پائی بس ، باب وولمر اور جیف لاسن درست نہیںکر سکے تو ڈیو واٹمور کس مرض کی دوا ہے۔

سابق ٹیسٹ کرکٹر محسن خان کے بارے میں پروپیگنڈا کیا گیا کہ وہ ڈمی کوچ تھے، تربیتی کیمپوں یا میچز کے دوران کھلاڑیوں کی راہنمائی کرنے یا ان کا حوصلہ بلند رکھنے کے لئے ان کی ٹانگوں میں مسلسل کھڑا ہونے کی سکت نہیں رہتی تھی، چلو مان لیتے ہیں وہ ڈمی کوچ تھے لیکن پھر بھی وہ امپورٹڈ کوچ سے تو کہیں بہتر تھے کیونکہ ان کی کوچنگ میں پاکستانی ٹیم کم از کم جیت تو رہی تھی، کیا محسن خان کا یہ کارنامہ کوئی بھلا سکتا ہے جب ان کی ہی کوچنگ میںمصباح الحق الیون نے متحدہ عرب امارات کے صحرائوں میں کرکٹ کی سپر طاقت انگلینڈ کو ٹیسٹ سیریز میں خاک چٹاتے ہوئے کلین سویپ کیا تھا۔

قومی ٹیم کو جب سے جنوبی افریقہ کے ہاتھوں ٹیسٹ سیریز میں شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے اس وقت سے ناقدین نے توپوں کا رخ مصباح الحق کی جانب موڑ لیا ہے ہیں۔کوئی یہ نہیں سوچتا کہ ہار کی وجہ اکیلے مصباح الحق نہیں بلکہ ہمارا سسٹم ہے۔ مصباح الحق کا جرم صرف اور صرف یہ ہے کہ اس نے جوئے، میچ فکسنگ اور سپاٹ فکسنگ کے الزامات سے چور ٹیم کو دنیا کی بہترین ٹیم بنایا اور مسلسل 6 سیریز میں کامیابی دلوائی، اسے قومی مجرم اس لئے بھی قرار دیا جانا چاہیے کیونکہ وہ جوئے اور میچ فکسنگ جیسی لعنت سے بہت دور ہے۔

اس کا قصور یہ ہے کہ وہ اشتہاری فرموں کا چہیتا نہیں، پڑھا لکھا ہے لیکن منہ پھٹ نہیں اور میڈیا کے لئے خبر نہیں بنتا۔ مصباح کا بھی وہی حشر ہونا چاہیے جو ہم اپنے قومی ہیروز کے ساتھ کرتے چلے ہیں۔ انگریزوں کا مقابلہ کرنے کی تمنا ویسٹ انڈیز کی ٹیم میں سب سے بڑی قوت متحرکہ تھی، ویون رچرڈز کے انداز میں خاص طور پر عزت نفس اور قومی وقار کی بحالی کا جذبہ بروئے کار تھا، وہ چیزیں جو استعمار اپنے غلاموں سے چھین لیتا ہے‘‘۔

ڈیو واٹمور ہو یا جولین فائونٹین یا دنیا کا کوئی اور بڑے سے بڑا کوچ، یہ کوچز مل کر بھی پاکستانی ٹیم کا قبلہ درست نہیں کر سکتے ، ہمارے اورگوروں کے کلچر، رہن سہن، سوچ اور زبان میں زمین آسمان کا فرق ہے اور سب سے بڑا اور اہم نکتہ یہ ہے کہ وہ کھلاڑیوں میں حب الوطنی کا جذبہ اجاگر ہی نہیں کر سکتا جو ملکی کوچ پیدا کر سکتا ہے۔عمران خان اپنی کتاب ’’میں اور میرا پاکستان‘‘ میں لکھتے ہیں کہ ’’1970ء اور1980 کے عشروں میں پاکستان کرکٹ ٹیم بتدریج طاقتور ہوتی گئی، ہم اپنے سابق استعماری آقائوں کے مقابل پورے قد سے کھڑے ہو سکتے تھے۔ پاکستان بھارت اور ویسٹ انڈیز ایسے ممالک جب برطانیہ کے مقابل میدان میں اترتے تو یہ غلامی کا قرض چکانے کا ایک بھی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیتے۔کرکٹ کی دنیا میں میرے 2 عزیز دوست ویسٹ انڈیز کے سرویون رچرڈ اور بھارت کے سنیل گواسکر اسی انداز میں سوچتے تھے۔‘‘

جیت کا جذبہ لاکھوں روپے ماہانہ معاوضہ لینے والے غیر ملکیوں میں نہیں بلکہ انسان کے اندر موجود ہوتا ہے۔ ریڈیم عنصر کی موجد مادام کیوری غربت کی وجہ سے گھر کی ملازمہ کے کام کاج کے دوران اپنی مالکن کے ظلم وستم کا شکار نہ ہوتی تو وہ کبھی بھی 2 بارنوبل پرائز حاصل کرنے میں کامیاب نہ ہو پاتی۔ محمد علی کلے صدی کے سب سے بڑے باکسر کبھی بھی نہ بنتے اگر وہ گوروں کے تعصب کا شکار نہ ہوتے۔

امریکی سیاہ فاموں کی آزادی کو منطقی انجام تک پہنچانے والے ڈاکٹر مارٹن لوتھر کنگ اپنے مقصد میں کبھی کامیاب نہ ہو پاتے اگرایک سفید فام ان کے کالے ہاتھوں سے بائبل لینے سے انکار نہ کرتا۔ وسیم اکرم، وقار یونس، شعیب اختر، جاوید میانداد، سرفراز نواز، عبدالقادر کبھی بھی گریٹ کرکٹرز نہ بن پاتے، اگر ان میں آگے بڑھنے اور اپنے کھیل سے دنیا بھر میں سبز ہلالی پرچم لہرانے کا جذبہ پیدا نہ ہوتا۔ گوروں کی بجائے اپنوں پر ہی انحصار کر کے ہی ہم کرکٹ سمیت دوسرے شعبوں میں اوج ثریا کی بلندیوں کو چھو سکتے ہیں۔

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔