نگران حکومتوں کے سامنے سب سے بڑا چیلنج

ایڈیٹوریل  ہفتہ 16 مارچ 2013
یہ امر خوش آئند  ہے کہ قومی اسمبلی اور چاروں صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات ایک ہی دن ہوں گے. فوٹو: فائل

یہ امر خوش آئند ہے کہ قومی اسمبلی اور چاروں صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات ایک ہی دن ہوں گے. فوٹو: فائل

موجودہ جمہوری سیٹ اپ کی آئینی مدت پوری ہو چکی ہے۔ خیبر پختونخوا میں وزیر اعلیٰ امیر حیدر ہوتی اور اپوزیشن لیڈر اکرم درانی نے باہمی مشاورت کے بعد سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس (ر) طارق پرویز کو نگران وزیر اعلیٰ کے لیے نامزد کر دیا ہے جب کہ پنجاب‘ سندھ اور بلوچستان میں نگران حکومتوں کے قیام کے لیے جمعے کو زبردست  رابطے اور سرگرمیاں جاری رہیں۔ یوں دیکھا جائے تو جلد ہی مرکز اور چاروں صوبوں میں نگران حکومتیں قائم ہو جائیں گی جس کے بعد ملک میں زور و شور سے انتخابی سرگرمیاں شروع ہو جائیں گی۔

پاکستان میں یہ پہلا موقع ہے، جب ایک  خالصتاً جمہوری حکومت نے اپنی آئینی مدت پوری کی ہے۔ گو ماضی میں ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت نے بھی 1977ء میں انتخابات کرائے تھے اور اس کے بعد جنرل پرویز مشرف کی صدارت  میں قائم ہونے والی حکومت نے بھی اپنی آئینی مدت پوری کی تھی لیکن موجودہ سیٹ اپ کے بارے میں اتفاق رائے ہے کہ یہ ایسی جمہوری حکومت ہے جس نے  اسٹیبلشمنٹ کی مدد کے بغیر اپنی آئینی مدت پوری کی۔ یوں دیکھا جائے تو موجودہ جمہوریت کے پانچ سال انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔ یہ امر بھی خوش آئند  ہے کہ قومی اسمبلی اور چاروں صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات ایک ہی دن ہوں گے۔ اس طرح  عام انتخابات کا عمل بر وقت مکمل ہو جائے گا۔

مرکزی اور نگران حکومتوں کے لیے سب سے بڑا چیلنج ملک میں امن و امان کو قائم رکھنا ہے تا کہ ملک میں منصفانہ، غیر جانبدارانہ انتخابات ہو سکیں اور ووٹر آزادی سے اپنا حق رائے دہی استعمال کر سکیں۔ اس وقت ملک میں امن و امان کے حوالے سے صورت حال تسلی بخش نہیں ہے۔ دہشت گردوں کے بارے میں واضح ہے کہ وہ نگران دور میں دہشت گردی کی وارداتیں کریں گے۔ بلوچستان میں الیکشن کمیشن کے ایک  افسر کو قتل کر کے یہ پیغا م دے دیا گیا ہے۔ بلوچستان کی صورت حال سب سے زیادہ توجہ کی طالب ہے۔ صوبائی حکومت کے لیے یہاں انتخابات کرانا یقینا کٹھن کام ہو گا۔ اسی طرح خیبر پختونخوا کی صورت حال بھی سب کے سامنے ہے۔ یہاں کے سنئیر وزیر بشیر بلور کو خود کش حملے میں شہید کیا جا چکا ہے۔

انتخابی مہم کے دوران دہشت گرد کوئی واردات کر سکتے ہیں۔ اسی طرح کراچی میں جو قتل و غارت ہو رہا ہے اسے روکنا بھی انتہائی ضروری ہے۔ یہاں بھی دہشت گرد اور جرائم پیشہ عناصر اپنا کھیل کھیلنے کی کوشش کریں گے۔ پنجاب میں صورت حال قدرے بہتر ہے تاہم لاہور میں بادامی باغ کے علاقے کی جوزف کالونی میں جو کچھ ہوا اسے بھی خطرے کی گھنٹی سمجھا جانا چاہیے۔ لہذا پنجاب کی نگران انتظامیہ کو انتہائی الرٹ رہنا ہو گا۔ پاکستان میں ایسی قوتیں موجود ہیں جو عام انتخابات رکوانا چاہتی ہیں۔ یہ قوتیں خاصے عرصے سے اپنے کام میں مصروف ہیں لیکن جمہوری قوتوں نے ان کے عزائم کو ناکام بنائے رکھا۔ یہ قوتیں اب بھی آرام سے نہیں بیٹھیں گی۔ وہ ملک میں امن و امان خراب کر کے اپنے عزائم پورے کرنے کی کوشش کریں گی۔

یہ امر اطیمنان بخش ہے کہ اس وقت جمہوری قوتیں متحد ہیں۔ ملک میں جمہوری نظام کو چلانے میں حکومتی اتحادی جماعتوں اور اپوزیشن جماعتوں کا اہم کردار ہے۔ حکومت اور عدلیہ کے مابین بعض آئینی مسائل پر جو صورت حال پیدا ہوئی تھی، اسے دیکھ کر ایسا لگتا تھا کہ جیسے جمہوریت کا بوریا بستر گول ہونے والا ہے لیکن حکومت اور اعلیٰ عدلیہ نے اپنے اپنے آئینی دائرے میں رہ کر معاملات کو چلایا۔ بہت سے بحران آئے لیکن وہ آئین کے مطابق حل کر لیے گئے۔ اس دوران ملک کی دوسری بڑی سیاسی جماعت مسلم لیگ (ن) نے بھی مثبت کردار ادا کیا۔ مسلم لیگ (ن) نے حکومت پر تنقید کرنے کا اپنا جمہوری حق بھی استعمال کیا اور اس کے ساتھ ساتھ کوئی ایسا کام نہیں کیا جس سے ٹکراؤ پیدا ہوتا۔ اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کی بحالی کا معاملہ ہو یا دیگر ایشوز پر احتجاج۔

مسلم لیگ (ن)  کی قیادت نے  جمہوری نظام کے تحفظ کو مد نظر رکھ کر احتجاج کیا۔ اسی طرح پنجاب میں پیپلز پارٹی اپوزیشن میں تھی‘ یہاں پیپلز پارٹی نے کوئی ایسا کام نہیں کیا جس کی وجہ سے مسلم لیگ (ن) کی حکومت کو پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا۔ مسلم لیگ ن کی حکومت نے پوری آزادی سے حکومت کی، اور اسے غیر ضروری مخالفت کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ مولانا فضل الرحمٰن کی جے یو آئی نے بھی مثبت کردار کا مظاہرہ کیا۔ وہ پہلے حکومت میں شامل رہی اور پھر حکومت سے الگ ہو کر اپوزیشن میں آ گئی۔ اس دوران جمعیت العلمائے اسلام نے جمہوری نظام کے تحفظ کو اولیت دی اور غیر جمہوری قوتوں کو ناکام بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔ متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کا کردار بھی سراہے جانے کے قابل ہے۔

ایم کیو ایم نے پانچ برس بڑے صبر و تحمل سے گزارے۔ وہ حکومت کے ساتھ بھی رہی اور عوامی مفادات کے معاملات پر اس کی مخالفت بھی کرتی رہی۔ کراچی میں خونریزی کے معاملات پر متحدہ انتہائی مشکل میں رہی ہے۔ کئی بار ایسا لگا کہ شاید جمہوری حکومت ختم ہو جائے گی لیکن متحدہ نے دانش مندی اور سیاسی بصیرت کا مظاہرہ کرتے ہوئے جمہوری نظام کو گرنے سے بچایا۔ یوں دیکھا جائے تو موجودہ جمہوری نظام کو چلانے کا کریڈٹ کسی ایک جماعت کو نہیں بلکہ پارلیمان میں موجود تمام سیاسی جماعتوں کو جاتا ہے۔ یہی نہیں تحریک انصاف اور جماعت اسلامی جو پارلیمان میں موجود نہیں تھیں‘ انھوں نے بھی جمہوریت کے معاملے پر کوئی ایسا کردار ادا نہیں کیا جسے تنقید کا نشانہ بنایا جا سکے۔

ان دونوں جماعتوں نے ملک بھر میں جلسے کیے اور جلوس نکالے، حکومت پر زبردست تنقید کی لیکن گھیراؤ جلاؤ سے گریز کیا۔ یوں ملک کی سب سیاسی جماعتیں اس کریڈٹ کی مستحق ہیں کہ انھوں نے جمہوریت کو نقصان پہنچانے کے ہر عمل کی مخالفت کی۔ یہی وجہ ہے کہ جمہوری حکومت اپنی آئینی مدت پوری کر گئی ہے اور قوم اگلی جمہوری حکومت کے لیے اپنا ووٹ استعمال کرے گی۔ یہ مرحلہ یقینی طور پر پوری قوم کا امتحان ہے۔ غیر جمہوری قوتیں، کسی مرحلے پر بھی اپنا کام کر سکتی ہیں، نگران حکومتوں کو اپنی تمام تر توجہ امن و امان کے قیام پر مرکوز کرنی چاہیے تا کہ جمہوری عمل پر امن انداز میں جاری رہ سکے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔