ڈرون حملوں کے بارے میں اقوام متحدہ کا انکشاف

ایڈیٹوریل  اتوار 17 مارچ 2013
 دہشت گردوں کے نیٹ ورک توڑنا امریکا ہی نہیں بلکہ دنیا کے ہر مہذب ملک کا فرض ہے۔ فوٹو رائٹرز

دہشت گردوں کے نیٹ ورک توڑنا امریکا ہی نہیں بلکہ دنیا کے ہر مہذب ملک کا فرض ہے۔ فوٹو رائٹرز

ڈرون حملوں کے خلاف پاکستان کا یہ اصولی موقف رہا ہے کہ یہ حملے اس کی سالمیت کے خلاف ہیں اور ان حملوں کے نتیجے میں بے گناہ شہریوں کی بڑی تعداد جاں بحق ہورہی ہے، پاکستان اپنے اس مؤقف پر اب بھی قائم ہے۔ اسی مؤقف کی تائید ڈرون حملوں میں ہلاکتوں کی تحقیق کرنے والی اقوام متحدہ کی ٹیم کے سربراہ نے بھی کی۔ اخباری اطلاعات کے مطابق بین ایمرسن نے ڈرون حملوں کو پاکستانی خود مختاری کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے کہا کہ وقت آگیا ہے عالمی برادری پاکستان کے خدشات پر توجہ دے، بغیر اجازت کسی ریاست میں طاقت کا استعمال کرنا اس کی سالمیت اور خودمختاری کی خلاف ورزی ہے۔

کہتے ہیں کہ بالآخر فتح سچ کی ہوتی ہے۔ اقوام متحدہ کے نمائندے کے یہ الفاظ پاکستانی موقف پر مہر تصدیق ثبت کرتے ہیں۔ نائن الیون کے بعد پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ میں فرنٹ لائن اسٹیٹ کا کردار ادا کرتے ہوئے 45 ہزارسے زائد قیمتی انسانی جانوں کی قربانی دی ہے، اور اربوں روپے کا مالی نقصان بھی برداشت کیا ہے جس کی وجہ سے پاکستانی معیشت کی حالت انتہائی دگرگوں ہوچکی ہے ۔ ڈرون حملوں کے بارے میں امریکا میں بھی رائے عامہ امریکی انتظامیہ کے حق میں نہیں ہے کیونکہ ان حملوں کے نتیجے میں بے گناہ شہریوں کی ہلاکت بہت بڑا انسانی المیہ ہے۔

میڈیا میں ایسی اطلاعات بھی شایع ہوئیں جن میں کہا گیا کہ ڈرون حملے پاکستان خود کررہا ہے یا اس کی مرضی سے ہورہے ہیں حالانکہ یہ ٹیکنالوجی امریکا نے پاکستان کو سرے سے فراہم ہی نہیں کی ہے، یوں پاکستان ڈرون حملے کیسے کرسکتا ہے اور نہ ہی اس کی اجازت دے سکتا ہے ۔ انسانی حقوق اور انسداد دہشت گردی پر اقوام متحدہ کے نمائندے کے تین روزہ خفیہ دورے کے دوران تحقیق سے یہ بات ثابت ہوئی کہ ان حملوں میں چار سو بے گناہ شہری مارے گئے۔ ٹیم نے ڈرون حملوں پر تحقیقات مکمل کرلی ہیں اور یہ رپورٹ وہ اقوام متحدہ میں پیش کرے گی۔ اقوام متحدہ کی تحقیقاتی ٹیم اب یمن، صومالیہ، افغانستان اور فلسطین میں ہونے والے ڈرون حملوں میں بے گناہ شہریوں کی اموات کے بارے میں ثبوت اکٹھے کررہی ہے۔ ڈرون حملوں کے حوالے سے صدر اوباما اور ان کی انتظامیہ پر بھی خاصا دباؤ موجود ہے۔

بلاشبہ دہشت گردی پوری دنیا کے لیے خطرہ ہے۔ دہشت گردوں کے نیٹ ورک توڑنا امریکا ہی نہیں بلکہ دنیا کے ہر مہذب ملک کا فرض ہے۔ جہاں تک افغانستان اور پاکستان کے قبائلی علاقوں میں طالبان اور القاعدہ کے لوگوں کی موجودگی کا تعلق ہے تو حقیقت یہ ہے کہ یہاں پاکستان‘ امریکا اور نیٹو فورسز اپنا کام کر رہے ہیں۔ پاکستان کے قبائلی علاقوں میں ڈرون حملے اس لیے ناجائز ہیں کہ یہ ایک ریاست کے اقتدار اعلیٰ کی خلاف ورزی ہے۔ پاکستان دہشت گردوں کے خلاف برسرپیکار ہے۔ پاکستان کے قبائلی علاقوں میں اگر کوئی دہشت گرد موجود ہے تو ان کے خلاف کارروائی کرنا پاکستانی فورسز کا کام ہے۔ افغانستان میں موجود ایساف فورسز کو کوئی اطلاع ملتی ہے تو انھیں اس حوالے سے پاکستان کو اعتماد میں لینا چاہیے۔ جب اطلاع پاکستان کو مل جائے تو پاکستانی فورسز مطلوب افراد کے ٹھکانوں پر کارروائی کرے۔

اس طریقے سے دہشت گردی کے خلاف جنگ زیادہ کارگر ثابت ہو سکتی ہے اور دہشت گردوں کا صفایا کرنا ممکن ہو سکتا ہے۔ ڈرون حملوں کا دوسرا پہلو بے گناہ مقامی افراد کی اموات ہیں۔ اس وجہ سے حکومت پاکستان پر عوام کے دباؤ میں اضافہ ہوتا ہے۔ یوں پاکستان اور امریکا کے مابین تناؤ کی کیفیت بھی پیدا ہو جاتی ہے۔ امریکی انتظامیہ کو ان حقائق کا یقینا علم ہے۔ اب ہونا تو یہ چاہیے کہ اقوام متحدہ کے نمائندوں کی رپورٹ کے بعد امریکی انتظامیہ ڈرون حملوں کے بارے میں اپنی نظرثانی کرے اور کوئی ایسا طریقہ وضع کیا جائے جس سے دہشت گردی کے خلاف جنگ زیادہ نتیجہ خیز ثابت ہو سکے۔ اس کے لیے بہتر طریقہ یہی ہے کہ پاکستان کے اقتدار اعلیٰ کا احترام کیا جائے اور قبائلی علاقوں میں کارروائی کے لیے پاکستان کو مطلع کیا جائے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔