شیخ الاسلام کے لیے چیلنج

اسد اللہ غالب  اتوار 17 مارچ 2013
ghalib1947@gmail.com

[email protected]

آج سے نیا مرحلہ شروع ہو رہا ہے۔ڈاکٹر طاہر القادری نے دسمبر میں لاہور کے جلسے کا اعلان کیا تھا تو ان کے سامنے ایک واضح نعرہ تھا: سیاست نہیں، ریاست بچائو۔آج راولپنڈی کے جلسے کی تھیم بھی یہی ہے۔ڈاکٹر صاحب کے پاس جو اسٹریٹ پاور ہے، اس سے کام لے کر وہ ریاست کو بچانے میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں ۔ ڈاکٹر صاحب کے سرفروش اور جانثار صرف ایک اشارے کے منتظر ہیں۔ اب یہ ڈاکٹر صاحب پہ منحصر ہے کہ وہ اشارہ کیا دیتے ہیں ،کب دیتے ہیں۔

اس وقت مک مکا سسٹم کا گٹھ جوڑ اندھوں کو بھی نظر آرہا ہے،ایک پارٹی نے اپنی باری لے لی ، دوسری نے باری لینے کے لیے بظاہر شفاف انتظام کر لیا ہے، وہ مشرف، زرداری اور چوہدری کے ہر اس ساتھی کو ٹکٹ کا جھانسہ دے کر ساتھ ملا رہی ہے جو پہلے بھی ہر الیکشن میں جیتتے رہے اور آئندہ بھی بظاہر انھیں کوئی شکست نہیں دے سکتا۔اگلے ا الیکشن میں یہ سب جیت گئے تو اس الیکشن پر کوئی انگلی اٹھانے کی جرات نہیں کر سکتا، اس سے زیادہ شفاف الیکشن تو انیس سوستر میں بھی نہیں ہوا تھا۔مگر ملکی تاریخ کا پہلا شفاف ترین الیکشن آدھا ملک ہڑپ کر گیا ، قائد اعظم کی نظریاتی ریاست دو لخت ہو گئی، مسلم لیگ کی بنیاد رکھنے اورمینار پاکستان پرقرارداد آزادی پیش کرنے والوں نے اپنا راستہ الگ کر لیا اور آج وہ اس قدر طاقتور اور منہ زور ہیں کہ پاکستان کے نام لیوائوںکو پھانسی کی سزائیں سنا رہے ہیں۔

یہ ہے وہ پھل جو پاکستان کے تاریخی آزاد ، شفاف الیکشن نے ہماری جھولی میں ڈالا۔کیا باقی ماندہ پاکستان اس طرح کے سنگین نتیجے کا متحمل ہو سکتا ہے۔بلوچ نیشنل آرمی نے اعلان کر دیا ہے کہ وہ اپنے صوبے میں الیکشن نہیں ہونے دے گی، طالبان سرے سے الیکشن سسٹم کے خلاف ہیں۔مگر عدلیہ اور فوج اور سیاستدان اور میڈیا ہر قیمت پر الیکشن منعقد کرانا چاہتے ہیں۔الیکشن ہونے چاہئیں، آئین میں یہی پابندی ہے مگر آئین میں الیکشن لڑنے والوں پر کئی ایک پابندیا ں ہیں جنھیں قبول کرنے کے لیے کوئی تیار نہیں۔باسٹھ تریسٹھ اسی آئین کا حصہ ہے، اسے یہ کہہ کر پائوں کی ٹھوکر پر نہیں رکھا جا سکتا کہ یہ آرٹیکل ایک فوجی آمر جنرل ضیا الحق نے آئین میں ڈال دیئے تھے۔

ضرور ڈالے تھے، مگر اب تو اس آئین کو جنرل ضیا ہی نہیں، جنرل مشرف کے گندسے بھی صاف کیا جا چکا ہے اور جمہوری دور میں ڈالے گئے گند کو بھی نکال باہر کیا گیا ہے، اب تو دعویٰ یہ کیا گیا ہے کہ انیس سو تہتر کے آئین کو اس کی روح کے مطابق بحال کر دیا گیا ہے اور پارلیمنٹ نے یہ کام مکمل اتفاق رائے سے کیا ، کسی نے باسٹھ تریسٹھ کو آئین سے نکالنے یا انھیںمعطل کرنے کی بات تک نہ کی، تو اب ان پر کیا اعتراض، یہ ہڈی ایسی ہے جو نہ نگلی جا سکتی ہے ، نہ اگلی جا سکتی ہے۔اس چھلنی سے بچنے کے لیے الیکشن کمیشن کئی تدابیر تجویز کر چکا ہے لیکن یاد رکھئے ، آئین کو دھوکا دیا جا سکتاہے ، قوم کی آنکھوں میں دھول نہیں ڈالی جا سکتی۔

قوم لٹیروں کو پہچانتی ہے، رشوت خوروں کو جانتی ہے،قرضے ہڑپ کرنے والوں سے بخوبی واقف ہے اور بنو امیہ اور بنو عباس جیسی موروثی بادشاہت کی خرابیوں سے آگاہ ہے جن کے نتیجے میں ہلاکو اور چنگیز نے سروں کے میناروںپر اپنا تخت سجایا۔سروں کی فصل توپہلے آزاد اور منصفانہ الیکشن کے نتیجے میں بنگلہ دیش میں بھی کاٹی گئی۔ہمارے ہاں اکثر کہا جاتا ہے کہ نہ ٹیکنو کریٹ کو قبول کیا جائے گا ، نہ بنگلہ دیش ماڈل مسلط ہونے دیا جائے گا ۔ ذرا دیکھ لیجیے کہ نگران حکومتوں کے لیے جتنے نام تجویز کیے جا رہے ہیں وہ یا تو ٹیکنو کریٹ ہیں یا بنگلہ دیش ماڈل کی طرز پر ریٹائرڈ عدلیہ سے تعلق رکھتے ہیں۔خیبر پختون خواہ میں تو سابق جج صاحب کو نامزد کربھی دیا گیا ہے۔

ہمارے نعرے اور عزائم دکھانے کے اور ہیں اور عمل کے اور ہیں۔یہی وہ خرابیاں تھیں جن کا ازالہ کرنے کے لیے ڈاکٹرطاہرا لقادری سپریم کورٹ گئے تھے مگر ان کی وفاداری کا سوال اٹھا کراصل رٹ پر بحث کا موقع ہی نہ آنے دیا گیا۔اب ہمارے ہاں الیکشن کا جو نظام ہے ، وہ چوں چوں کا مربہ ہے، ایک طرف چیف الیکشن کمشنر، سپریم کورٹ کے احکامات کے تحت نئی حلقہ بندیوں سے انکاری ہیں، مگر دوسری طرف نئے فارم کے مسئلے پر سپریم کورٹ ان کی پشت پر کھڑی ہے، اس فارم کی کڑی شرائط سے بچنے کے لیے چور دروازے بھی رکھ دیئے گئے ہیں ، یعنی اگر کسی نے ٹیکس چوری یا بل نادہندگی پر کسی عدالت سے اسٹے لے رکھا ہے تو وہ الیکشن لڑ سکے گا۔

پاکستان میں اسٹے لینا کونسا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے،دو ہزار آٹھ کے بعد کے اسٹے اب بھی قائم ہیں مگر اسمبلیاں ختم ہو چکی ہیں۔اسی اسٹے نظام پر تو قبضہ مافیا کا استحصال جاری رہتاہے، اسی اسٹے کے ذریعے ہی تو یتیموں کی جائیدادیں ہضم کی جاتی ہیں۔اور اوور سیز پاکستانیوں کی وفاداری تو اب مشکوک قراردے دی گئی ہے مگر معاشرہ تو پہلے ہی اوور سیز پاکستانیوں کے مال و دولت کو ہڑپ کر رہا ہے۔میں ان کالموں میںمعروف صحافی سید شبیر شاہ اور سید سرور شاہ کے ایک عزیز سید طارق شاہ کا اکثر ذکر کرتا ہوں، وہ آٹھ ماہ سے کام کاج چھوڑ کر نیویارک سے لاہور میں مقیم ہیں اور بورڈ آف ریوینیو کے چکر لگاتے ان کی جوتیاں گھس چکی ہیں، وہاں سے ہر چکر پر انھیں نئی گولی دے دی جاتی ہے، کتنے ہی طارق شاہ بیرون ملک جانے کے گناہ میں اپنی قیمتی جائیدادوں سے محروم ہو چکے ہیں۔

ستر لاکھ پاکستانی اور ان کے متعلقین مل کر کروڑوں کی تعداد میں ہیں، جو خوار پھرتے ہیں ، کیاڈاکٹر طاہر القادری بھی اسی انجام پر قناعت کر جائیں گے۔ میرے خیال میں،اول تو انھیں پاکستان کے مجموعی مفاد کا تحفظ کرنا چاہیے ورنہ کم از کم وہ ستر لاکھ پاکستانیوں کی مشکوک وفاداری کے داغ کو تو دھونے کی کوشش ضرور کریں۔ڈاکٹر صاحب کے پاس عقیدت مندوں کی جو تعداد ہے،اس کے بل بوتے پر ڈاکٹرصاحب ہمت کریں تو سونامی کی طاقت بھی ان کی پشت پر کھڑی ہو سکتی ہے، میں جانتا ہوں کہ ڈاکٹر صاحب اور سونامی کے پیچھے توانا جذبوں سے لبریز نوجوان نسل ہے جو تن من دھن کی قربانی دینے کے عزم سے سرشار ہے۔

اگر ڈاکٹر صاحب بھی راولپنڈی کے جلسے میں ایک مردود نظام کے تحت الیکشن میں آنے کا اعلان کردیںتو مجھے سخت صدمہ ہو گا، صدمہ تو انقلاب فرانس کی ناکامی پر بھی بہت سے لوگوں کو ہوا تھا، صدمہ تو بغداد کے نوجوانوں کو بھی پہنچا ہو گا جب وسط ایشیا کے خونی لشکروں نے اسلامی سلطنت کو تہس نہس کردیا تھا،قرطبہ، اشبیلیہ اور غرناطہ کے نوجوان بھی صدمے سے ضرور دوچار ہوئے ہوں گے جب ان کی سرزمین سے مسلمانوںکا نام و نشان مٹا دیا گیا تھا۔مگر مجھے پھر بھی ڈاکٹر صاحب سے امید ہے کہ وہ کسی بھی وقتی منفعت پر انقلاب کے نعرے سے دست بردار نہیں ہوں گے، اس مکروہ اسٹیٹس کو، کا حصہ بننے سے گریز کریں گے، وقتی نقصان برداشت کر لیں گے لیکن ملک و قوم کے دائمی اور مستقل مفادکا تحفظ کریں گے۔

اس وقت جس طرح کے نام نہاد الیکشن ہونے جارہے ہیں،وہ اس ریاست کے لیے اسی طرح خطرناک نتائج کے حامل ہیں جس طرح انیس سوستر میں ان سے واسطہ پڑا تھا۔ڈاکٹر صاحب نے ظلم اور استحصال کا شکار میرے جیسے لاکھوں نہیں ،کروڑوں لوگوں کے دلوں میں امید کی ایک کرن روشن کی ہے تو ان کا فرض ہے کہ وہ لوٹ کھسوٹ کے نظام کے سامنے دیوار بن جائیں۔آج راولپنڈی میں ان کا جلسہ آنے والے زمانوں کا تعین کرے گا۔کیا یہ زمانے انھی کی دسترس میں ہوں گے جو باسٹھ تریسٹھ کو چکر دے کر باسٹھ تریسٹھ برس سے قوم کاخون چوس رہے ہیں، یا راج کرے گی خلق خدا جو میں بھی ہوں اور تم بھی ہو۔ کیا وہ بھی بہتی گنگامیں اشنان کرنے لگ جائیں گے یا ایک مصلح، ایک ریفارمر، ایک انقلابی اور ایک فائٹرکا کردار ادا کریں گے۔یہ ہے وہ ملین ڈالر سوال جس کا جواب ڈاکٹر صاحب کو آج پنڈی کے جلسے میں دینا ہوگا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔