میرے پیارے شہر کے مرثیے…

شیریں حیدر  اتوار 17 مارچ 2013
Shireenhaider65@hotmail.com

[email protected]

’’میں پہلے امریکن اور پھر برٹش ائیر لائن میں ائیر ہوسٹس تھی، میری پیدائش بھی برطانیہ کی ہے اور پھر میرے والد وطن کی محبت میں ملک میں لوٹ آئے … جب ہماری کراچی کی پرواز میں ڈیوٹی لگتی تو میری خوشی دیدنی ہوتی تھی، مگر میں نے محسوس کیا کہ میر ے ساتھ کی باقی لڑکیاں بھی کراچی کی پرواز کی ڈیوٹی پر انتہائی خوش ہوتیں۔ میرے لیے تو اپنے والدین سے ملنا ایک خوشی کا احساس لاتا تھا اور میری ساتھی لڑکیوں کو کس بات کی خوشی ہوتی تھی؟

میں نے ایک بار اپنی ایک برطانوی ساتھی سے پوچھا تو وہ کہنے لگی… ’’کراچی جانا ہم سب کا خواب ہوتا ہے پیاری لڑکی، کراچی روشنیوں اور رونقوں کا شہر ہے… کراچی زندگی کا شہر ہے، کراچی پیار کرنے والوں کا شہر ہے…‘‘ انھوں نے اپنی عینک اتار کر آنسو پونچھے… ’’میرے والدین نے میری شادی کراچی میں کر دی تو میری ساتھی لڑکیاں رشک کرنے لگیں کہ اب ائیر لائن کراچی کی ہر پرواز پر میری ڈیوٹی کی درخواست منظور کر لیا کرے گی کیونکہ میرے پاس ایک وجہ تھی! میں نے وقت کے ساتھ  اپنی اس ملازمت کو نبھانا مشکل سمجھا تو اپنی قومی ائیر لائن میں گراؤنڈ ڈیوٹی پر آ گئی اور کراچی میں بسیرا کر لیا۔ خوابوں کا شہر میرا مسکن بن گیا تھا۔

میرے شوہر کا انتقال ہوا تو ان کا سارا کاروبار میرے بیٹوں نے سنبھال لیا، بیٹیاں اپنے اپنے گھروں کی ہو گئیں، کراچی کے چپے چپے میں میرا کنبہ پھیل گیا، میرے چار بچے، ان کے جیون ساتھی، ان کے بچے، میرے سمدھیانے، میرے بہن بھائیوں کے خاندان… چالیس برس کے بعد میں نے اس گھر کو مجبوراً بلکہ اپنے بچوں کی دھمکیوں کے باعث چھوڑا اور اب یہاں ٹھکانہ ڈھونڈ رہے ہیں،‘‘ انھوں نے پھر عینک اتاری، اپنی آنکھ سے آنسو نفاست سے صاف کیے  اور اسی ٹشو پیپر کے دوسرے کونے سے اپنی عینک صاف کر کے اسے دوبارہ ناک کی پھنک پر جمایا، ’’جانتی ہو بیٹا… کراچی اب اندھیروں کا، اداسی کا، موت کا اور نفرت کرنیوالوں کا شہر بن گیا ہے… اب تو کسی کو کراچی جانے کا ’’پروانہ‘‘ ملتا ہے تو اس کے گھر پر سوگ طاری ہو جاتا ہو گا، کسی ائیر لائن کی ائیر ہوسٹس تو کیا، اب وہاں کسی بین الاقوامی ائیر لائن کا جہاز بھی نہیں آتا، ماسوا ایک دو کے … اب وہاں کوئی گھر سے باہر نکلتے وقت پر یقین نہیں ہوتا کہ وہ لوٹ کر گھر بھی آئے گا…

میرے بیٹے لاکھوں میں کھیلتے ہیں مگر سکون نام کو نہیں… ایک بیٹے کا گیارہ سال کا بیٹا اغوا ہوا اور تاوان دے کر جس روز اسے واپس کیا گیا اس روز دوسرے بیٹے کا اغوا ہو گیا، تاوان نہ دو تو بوری بند لاشیں ملتی ہیں۔ جوان لڑکیوں کو گھروں سے باہر بھجوانا مشکل ہو گیا ہے، گھر سے باہر نکلنا تو بیماریء دل کا باعث بنتا ہی ہے، گھر کے اندر بھی سکون نہیں کہ جانے کب کیا ہو جائے۔

بیٹوں کے کاروبار اچھے خاصے تھے مگر بھتہ مافیا نے ان کو برباد کرنے کا تہیہ کر رکھا ہے، اونے پونے اپنے گھر اور کاروبار بیچ کر میرے بیٹوں نے پنجاب کا رخ کیا ہے، یہاں پر سیٹ ہونے میں انھیں تو کچھ وقت لگے گا اور اللہ کوئی نہ کوئی بہتر اسباب پیدا کرے گا مگر میرا کیا ہو گا، میرے دل کا کیا ہو گا جس میں ابھی تک وہی کراچی شہر بستا ہے، میری نسل کے لوگوں کے لیے تو یقین کرنا ممکن ہی نہیں کہ جس شہر کی خوبصورتی کا ایک عالم معترف تھا، اب اس شہر پر مرثیے لکھے جاتے ہیں… نوحے کہے جاتے ہیں، کیا یہ اسی کراچی کے بارے میں ہے جو کہ ترقی کے بام عروج پر تھا، ہو کیا گیا ہے میرے شہر کو؟ یہ علم و ہنر کا گہوراہ تھا، تجارت اور کاروبار کا شہر تھا۔

سیر و تفریح کا مرکز تھا، خریداری کا شہر تھا… اور اب … اب یہاں صرف لہو ہے، دھماکے ہیں، قتل ہیں، وارداتیں ہیں، بھتہ اور اغوا ہیں اور اس شہر کے ہر باسی کے ساتھ موت ہمسفر ہوتی ہے، اگلے لمحے اسے دبوچنے کو تیار…‘‘ میرے سامنے بیٹھی ہوئی وہ ساٹھ کی دہائی کی خاتون، پر وقار اور اب بھی دلنشیں… ہم دونوں ایک بینک میں اپنی باری کی منتظر بیٹھی تھیں، کھانے کا وقفہ تھا اس لیے ہمیں ملاقات اور بات چیت کا طویل وقت مل گیا تھا۔ اس وقت تو میں نے اس بات کو اتنی اہمیت نہ دی مگر رات سونے سے پہلے اس ملاقات کی یاد آئی اور سونا مشکل ہو گیا۔

رات بھر نیند بھی ٹوٹی پھوٹی آئی اور دماغ کو اس بات کا جواب بھی نہ مل رہا تھا کہ ایسا کیوں ہو رہا ہے، کون کر رہا ہے اور اس سے کس کو کیا حاصل ہو رہا ہے؟یہ ایک خاندان کی کہانی، ایک عورت کا نوحہ تھا، اس وقت ملک کے چپے چپے میں ایسی داستانیں اور ایسی نظمیں بھری پڑی ہیں… چند نظمیں آپ کے مطالعہ کے لیے بھی پیش ہیں!! ان نظموں کو مختلف شاعروں سے منسوب کیا گیا ہے مگر اس بات کی صداقت ثابت نہ ہونے کے باعث میں انھیں بے نام ہی لکھ رہی ہوں!

اس دیس میں لگتا ہے عدالت نہیں ہوتی

جس دیس میں انساں کی حفاظت نہیں ہوتی

………

حادثے سے بڑا سانحہ یہ ہوا

لوگ ٹھہرے نہیں حادثہ دیکھ کر

………

اے میرے شہر تجھ پہ موت طاری ہے

تیرے پھولوں میں ہے خون کا رنگ، لہو کی بو!

یہاں مائیں اولاد جن کر پچھتاتی ہیں کہ اسے

جوان ہو کر قاتل بننا ہے یا مقتول…

اسے اس کے ہاتھوں پر کسی بے گناہ کا خون دیکھنا ہے

یا اس کے جوان قتل پہ بال کھول کر بین کرنا ہے؟

ہوا میں بارود کی بو!!! فضا میں خوف کے بادل

ویرانی ہے تجھ میں صحراؤں کی سی!!

سمندر بھی لہو پی پی کر مانند عفریت پیاسا ہے

جانے اسے اور کتنا لہو پینا ہے…

ایسی لسانیت سے تو بے زباں اچھے

جس کے بوتے پر بھائی بھائی کے مقابل ہے

بھائی ہی بھائی کا قاتل ہے…

میرے پیارے شہر!!! کیا سارا شہر ہی پاگل ہے؟

………

فلک ہے حیراں، زمیں دنگ ہے…

میرے شہر میں یہ کیسی جنگ ہے؟؟

ہیں محو حیرت یہاں کے باسی،ہیں کون حق پر،کون باغی

عجیب منظر،عجیب الجھن،ہے کون اپنا، کون دشمن

برستی ہر سو لہو کی بارش،ہے کوئی فتنہ یا کوئی سازش کہیں

میزائل برس رہے ہیں، کہیں پہ انسان بم بنے ہوئے ہیں

کہیں مکین و مکاں پہ حملے،کہیں ہیں ضد پہ جلوس و جلسے

بدن فضا میں بکھر رہے ہیں،پلوں میں کنبے اجڑ رہے ہیں

یہ آہ وزاری،یہ سوگواری،ہر اک چہرے پہ موت طاری

لٹی محبت، لٹا سکوں ہے‘ ہمارے ہاتھوں ہمارا خوں ہے

نہ ایسے غیروں کی بات مانو، خدارا سمجھو، خدارا جانو!!!

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔