سیاسی جماعتوں کی ذیلی تنظیمیں اور ان کا کردار

ڈاکٹر نوید اقبال انصاری  ہفتہ 23 دسمبر 2017
apro_ku@yahoo.com

[email protected]

جس طرح ملکی سطح پر مختلف جماعتیں عوام کی خدمت کا دم بھرتی ہیں اور ان کے مسائل کے حل کرنے کا دعویٰ کرتی ہیں، ویسے ہی ان کی ذیلی تنظیمیں بھی دعویٰ کرتی نظر آتی ہیں، خواہ یہ تنظیمیں طلبہ کے پلیٹ فارم سے تعلق رکھتی ہوں یا محنت کشوں کے مختلف اداروں سے تعلق رکھتی ہوں۔ ایک اہم سوال یہ ہے کہ کیا یہ تنظیمیں واقعی ایمانداری اور فرض شناسی سے عوام کی خدمت کرتی ہیں؟ اس سوال کا جواب بڑا تلخ ہے۔ راقم نے اس سلسلے میں جب پاکستان کے محنت کشوں کے سب سے بڑے ادارے اسٹیل ملز اور پاکستان کی سب سے بڑی جامعہ کے ملازمین سے حالات معلوم کیے تو نہایت افسوسناک صورتحال سامنے آئی۔

پاکستان اسٹیل ملز کے ایک ملازم کا کہنا تھا کہ ایک طویل عرصے سے انھیں وقت پر تنخواہیں نہیں مل رہی ہیں، چار چار ماہ بعد جاکر کر ایک آدھ تنخواہ دی جاتی ہے۔ برسوں بیت گئے تنخواہوں میں اضافے کے بجائے مختلف حربوں سے انتظامیہ تنخواہوں میں کمی کرتی جارہی ہے، حالانکہ ہر سال بجٹ کے موقع پر سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافے کا اعلان کیا جاتا ہے، میڈیکل وغیرہ کی سہولتیں بھی ایک عرصے سے ختم ہوچکی ہیں، ریٹائرڈ ہونے والوں کو ان کے واجبات نہیں مل رہے ہیں اور اس تمام تر تماشے پر ملازمین کی تمام ہی یونین خاموش تماشائی کا کردار ادا کررہی ہیں۔ یہاں کی منتخب یونین صوبائی حکومت کی سیاسی جماعت کی ذیلی تنظیم سمجھی جاتی ہے، اس کے باوجود تنخواہوں کی ادائیگی جیسے بنیادی اور اہم مسئلے حل نہیں ہو رہے ہیں۔ کہنے کو اس شہر کراچی میں انسانی حقوق کی تنظیمیں بھی کام کر رہی ہیں مگر کسی کو بھی ہمارے بنیادی حقوق کی پامالی نظر نہیں آتی۔

پاکستان اسٹیل ملز کے ایک اور ملازم کا شکوہ ہے کہ ان کے ووٹوں سے منتخب ہونے والے لوگ ملازمین کے مسائل پر بات کرنے کے بجائے اپنے ہی جائز و ناجائز کام کروانے کے چکر میں پڑے رہتے ہیں اور اس کا ثبوت ان کا معیار زندگی اور ٹھاٹ باٹ ہیں جنھیں دیکھ کر ملازمین سخت مایوسی اور ذہنی دباؤ کا شکار ہوتے ہیں۔ ان ملازم کا کہنا تھا کہ اگر ان کے منتخب نمائندوں کی آمدنی اور اخراجات کا آڈٹ کیا جائے تو دودھ کا دودھ، پانی کا پانی ہوجائے گا۔

اسی تناظر میں جب راقم نے کراچی شہر میں واقع پاکستان کی سب سے بڑی جامعہ کے ایک سینئر ملازم سے بات کی تو ان کا بھی یہی کہنا تھا کہ ان کے ادارے میں بھی ملازمین کی ایسوسی ایشنز کا کچھ ایسا ہی حال ہے، بہت سے عہدیدار اپنے اثر ورسوخ کی بنا پر معمولی گریڈ سے ترقی کرتے ہوئے اٹھارہ گریڈ تک بہت ہی مختصر مدت میں پہنچ گئے، جب کہ عام ملازمین کا پروموشن جو کہ ان کا قانونی حق ہوتا ہے آسانی سے نہیں ملتا، بہت سے ملازمین ریٹائرمنٹ کی عمر کو پہنچ کر بھی ترقی کے صرف خواب ہی دیکھتے رہتے ہیں۔ ایک ملازم کا تو کہنا تھا کہ یہ عہدیدار ہی ملازمین کے جائز کام کواندرون خانہ رکوا تے ہیں، جب کہ ظاہری طور پر دکھاتے ہیں کہ وہ ان کے مفاد ہی کے لیے کام کر رہے ہیں۔

طلبہ یونینز کے حوالے سے ایک استاد کا موقف تھا کہ ان کے پاس تنظیموں کے نمائندے عام طلبا کے مسائل کے حل کے لیے کم ہی آتے ہیں، البتہ ادھر ادھر کے دھندوں کے لیے زیادہ چکر لگاتے ہیں۔ غرض جامعات میں بھی تنظیموں کا حال خدمت کے حوالے سے اچھا نہیں ہے، خواہ یہ طلبا کی ہوں یا ملازمین کی۔

پاکستان اسٹیل ملز کے ایک ملاز م کی تجویز کی طرح سے کئی اور لوگوں نے بھی خیال ظاہر کیا ہے کہ اگر مختلف اداروں میں جیتنے والی یونینز کے منتخب نمائندوں کی آمدنی اور اخراجات کا آڈٹ کیا جائے تو دودھ کا دودھ، پانی کا پانی ہوجائے گا۔ یہ بڑی اہم تجویز ہے۔ تمام اداروں میں جہاں جہاں ملازمین کی مختلف ایسوسی ایشنز یا یونینز وغیرہ کام کرتی ہیں خواہ وہ سیاسی تنظیموں کی ذیلی جماعتوں کی حیثیت رکھتی ہوں یا نہ رکھتی ہوں، ان سے تعلق رکھنے والے تمام نمائندوں کے احتساب کا ایک کڑا میکنزم ہونا چاہیے، مثلاً یہ کہ وہ ہر سال کتنا ٹیکس دیتے ہیں، ان کی آمدن کے ذرائع کیا کیا ہیں، اور اثاثے کیا کچھ ہیں۔

اسی طرح جو لوگ انتخابی عمل میں حصہ لینے کے خواہش مند ہوں ان کے لیے لازم ہو کہ وہ اپنے انتخابی منشور کے ساتھ اپنی ملازمت کی چیدہ چیدہ تفصیل بھی ملازمین کی آگاہی کے لیے شائع کریں، مثلاً یہ کہ ان کا پہلا اپائنٹمنٹ (تقرر) کس عہدے پر اور کب ہوا؟ اور اس کے بعد کب کب اور کتنے پروموشن (ترقیاں) ملے۔ اپائنٹمنٹ کے وقت ان کے پاس کتنی گاڑیاں اور ذاتی گھر تھے اور اس وقت کتنے ہیں؟

یہ عمل ادارے میں ہر الیکشن کے موقعے پر ہونا چاہیے۔ اس کے علاوہ منتخب رکن کی رکنیت کی مدت کے دوران پروموشن (ترقی) پر بھی پابندی ہونی چاہیے تاکہ حریص، لالچی اور مفاد پرست لوگ منتخب ہوکر ملازمین اور ادارے کا استحصال نہ کرسکیں۔ کسی بھی منتخب رکن کی زندگی آئینہ کی طرح شفاف ہونی چاہیے اور عام لوگوں کو اس کا پوری طرح علم ہونا چاہیے اور یہ عمل ضروری اس لیے بھی ہے کہ کسی کی زندگی کا اصل رخ دیکھ کر ہی ایک ملازم بہتر فیصلہ کرسکتا ہے کہ وہ کس کو ووٹ دے اور کس کو نہ دے۔ حقائق چھپانا ایک ایسا عمل ہے کہ جس سے بدعنوانی، کرپشن اور دیگر برائیوں کو پنپنے کا خوب موقع ملتا ہے، حقائق سامنے ہوں اور کچھ بھی چھپانے کے راستے بند ہوں تو پھر کسی بھی فرد کی ہمت نہیں ہوتی کہ وہ کرپشن یا غلط کام کرے۔

ملک میں سیاسی جماعتوں کی کارکردگی پر اکثر سوال اٹھائے جاتے ہیں اور ان کی کرپشن کے چرچے بھی بڑھ چڑھ کر ہوتے ہیں، انھیں عدالتوں کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے، اس کے باوجود بہتری کے لیے حکمران جماعتیں کچھ نہ کچھ کرتی نظر آتی ہیں، لیکن ان ہی جماعتوں کی ذیلی جماعتوں کی جانب سے مختلف اداروں میں محنت کشوں اور ملازمین کے حقوق کا جو استحصال کیا جاتا ہے اس پر کسی کی نظر نہیں جاتی، عموماً ذرائع ابلاغ میں بھی یہ معاملات کم ہی نظر آتے ہیں، مثلاً پاکستان اسٹیل ملز کا مسئلہ ایک بہت بڑا مسئلہ ہے جس کو ذرائع ابلاغ میں ضرور نمایاں جگہ ملنی چاہیے مگر افسوس ایسا نہیں ہورہا ہے۔

اس مسئلے پر ذرائع ابلاغ کے اداروں اور نمائندوں کو حکومت سے بھی سوالات کرنا چاہئیں اور وہاں کے منتخب نمائندوں (سی بی اے) سے بھی سوالات کرنے چاہیے تھے کہ وہ ان ملازمین (جن سے ووٹ لیے تھے) کے مسائل حل کرنے کے لیے کیا اقدامات کررہے ہیں؟ یا خود بدعنوانی اور اقرباپروری وغیرہ میں کس حد تک ملوث ہیں؟ اور منشور میں کیے گئے وعدوں کو کہاں تک وفا کررہے ہیں؟ غرض ان کی جانب سے ہر قسم کی غفلت، لاپرواہی پر بھی نظر رکھنی چاہیے۔

عموماً اداروں میں ان تنظیموں کا غلط کردار خاص کر بدعنوانی کے باعث پورے کے پورے ادارے ہی زمین بوس کردینے کا باعث بن جاتا ہے۔ اداروں کی کارکردگی بھی خراب ہوجاتی ہے، جس کی ایک عمومی بڑی وجہ یہ ہے کہ کسی بھی ادارے میں موجود ان تنظیموں کے دباؤ کی وجہ سے غلط اور نااہل لوگوں کو نہ صرف بھرتی تک کرلیا جاتا ہے بلکہ اہم عہدوں تک ترقیاں بھی دے دی جاتی ہیں، یوں ایسے نااہل لوگوں کی غلط پالیسوں کے باعث ایک جانب اداروں کو نقصان پہنچتا ہے تو دوسری جانب ایماندار اور محنتی اور اہل ملازمین میں بددلی پھیلتی ہے، جس سے ان کی صلاحیتیں بھی متاثر ہوتی ہیں، نیز جو ایماندار اور اہل ملازمین ادارے کے لیے کچھ کرنا چاہتے ہیں وہ اعلیٰ عہدوں پر فائز نااہل ملازمین کے فیصلوں کی وجہ سے کوئی کردار بھی ادا نہیں کر سکتے۔

بہرکیف یہ ایک اہم ترین مسئلہ ہے جس پر توجہ دینے کی اشد ضرورت ہے، نہ صرف حکومت کو بلکہ ان سیاسی جماعتوں کو بھی جن کی ذیلی جماعتیں مختلف اداروں میں قائم ہیں اور جن کا دعویٰ بھی عوامی خدمت کا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔