25 برس میں کیا بدلا؟

زاہدہ حنا  اتوار 24 دسمبر 2017
zahedahina@gmail.com

[email protected]

یہ تحریر 24 دسمبر 2017ء کو شائع ہوگی۔ اس وقت ملک کے جو حالات ہیں وہ مضطرب رکھتے ہیں اور ذہن میں سوالات اٹھاتے ہیں۔ کل بانی پاکستان کا جنم دن ہے۔ اس موقع پر مجھے اپنی 25 برس پرانی ایک تحریر یاد آرہی ہے۔ یہ وہ وقت تھا جب ہندوستان میں بابری مسجد کو بلوائیوں نے گرادیا تھا اور پاکستان میں چند مندر اور چرچ ہمارے بلوائیوں نے گرادیے یا جلادیے تھے۔اس موقع پر میں نے اپنی ایک تحریر میں یہ سوال اٹھایا تھا کہ جس پاکستان میں ہم رہتے ہیں، کیا یہ وہی ملک ہے جس کا نقشہ بانی پاکستان اپنی تحریروں اور تقریروں میں کھینچتے رہے تھے؟ چوتھائی صدی پہلے میں نے لکھا تھا:

’’انھوں نے تحریک پاکستان کے دوران بار بار یہ بات کہی تھی کہ پاکستان ایک ایسی ریاست ہوگا جہاں کاروبار حکومت جدید مغربی اصولوں کے تحت چلایا جائے گا۔ انھوں نے یہ بات زور دے کر کہی تھی کہ وہ کسی تھیوکریسی کی نہیں ایک سیکولر ڈیموکریٹک مملکت کی بنیاد رکھ رہے ہیں۔ ان کی تقریروں، بیانات اور ان کے خطوط کی روشنی میں جب میں آج کے پاکستان کو پہچاننے کی کوشش کرتی ہوں تو اسے پہچان نہیں پاتی۔

آج جس فرقہ پرستی، تعصب اور تنگ نظری کی فضا میں ہم سانس لے رہے ہیں، کیا قائداعظم اسی فضا کو یہاں پروان چڑھانا چاہتے تھے؟ بیسویں صدی کے نصف آخر میں کیا ایسی ہی بنیاد پرست اور تنگ دل و تنگ نظر سماج کو دنیا کے نقشے پر ابھارنے کے لیے انھوں نے اپنی زندگی کی آخری سانسیں صرف کردی تھیں؟ اس ملک کی اقلیتیں جو قومی دھارے سے کاٹ کر دوسرے بلکہ تیسرے درجے کا شہری بنادی گئی ہیں، جن کے انتخابات جداگانہ کردیے گئے ہیں، جن کی عبادت گاہوں کو اپنے غم و غصے یا تعصبات کا نشانہ بنانا ہمارا روز کا معمول بن گیا ہے، ملازمتوں میں جن کے ساتھ امتیاز برتا جاتا ہے، جن کی جان و مال اور کاروبار ہمارے جنونیوں کے ہاتھوں محفوظ نہیں اور سماجی طور پر جن سے اچھوتوں کا سا سلوک کیا جاتا ہے، تو کیا قیام پاکستان کے وقت ان اقلیتوں کو قائداعظم نے اسی پاکستان کے خواب دکھائے تھے؟

1992ء میں کھڑے ہوکر دیکھیں تو اس میں کوئی شبہ نہیں رہتا کہ پاکستان جن اصولوں پر وجود میں آیا تھا ان سے انحراف تو اسی وقت شروع ہوگیا تھا، جب قرارداد مقاصد منظور ہوئی اور اس کے بعد 1956ء کے پہلے آئین کے آرٹیکل 32 کی رو سے صدر پاکستان کا عہدہ صرف ایک مذہب سے تعلق رکھنے والے پاکستانی شہریوں کے لیے مخصوص کردیا گیا تھا اور اسی وقت سے صنفی عدم مساوات کا آغاز بھی ہوگیا تھا، کیونکہ اس عہدے پر کوئی پاکستانی عورت فائز نہیں ہوسکتی۔

گزشتہ چالیس برسوں پر نظر ڈالی جائے تو اس تلخ حقیقت کا اعتراف کرنا پڑتا ہے کہ آج پاکستان میں اقلیتوں اور عورتوں کی صورتحال جس شرمناک مرحلے میں داخل ہو چکی ہے، اس کی بنیادی ذمے داری اس ملک کے جمہوریت پسند، روشن خیال اور انسان دوست سیاستدانوں، دانشوروں، ادیبوں، عدلیہ کے معزز اراکین، صحافیوں، وکیلوں اور سماج کے دوسرے اہم عناصر پر عائد ہوتی ہے جنھوں نے پسپائی کے اس سفر میں کوئی مزاحمت نہیں کی۔

ہم سے بڑا منافق کون ہوگا کہ ہم نام صبح و شام قائداعظم کا لیتے ہیں اور ان ہی کے اصولوں کو قدموں تلے روندتے ہیں۔ انھوں نے ہمیشہ آئینی اور جمہوری اصولوں کو ہر بات پر فوقیت دی۔ سیاست میں کسی بھی مرحلے پر عوام کی حمایت حاصل کرنے کے لیے انھوں نے نہ مذہبی نعرے لگائے اور نہ مذہبی ریاست کے قیام کا اعلان کیا۔ 11 اگست 1947ء کو پاکستان کی دستور ساز اسمبلی کے اجلاس میں انھوں نے جو تقریر کی تھی، وہ ہم سب کو ازبر ہے۔یہ بھی قائداعظم تھے جنھوں نے فروری 1948ء میں امریکی عوام کے نام اپنی نشری تقریر میں کہا تھا کہ: ’’پاکستان ایک ایسی مذہبی مملکت نہیں ہوگی جس میں مذہبی پیشوا مامور من ان اللہ کے طور پر حکومت کریں۔ ہمارے یہاں بہت سے غیر مسلم ہیں۔ ہندو، عیسائی اور پارسی، لیکن وہ سب پاکستانی ہیں۔ وہ بھی تمام دوسرے شہریوں کی طرح یکساں حقوق اور مراعات سے بہرہ ور ہوں گے اور پاکستان کے معاملات میں کما حقہ اپنا کردار ادا کریں گے‘‘۔

ہم دیکھتے ہیں کہ ان کی موت کے فوراً بعد ان کے بیانات، اقلیتوں سے ان کے وعدے، جمہوریت اور سیکولر مملکت کی تعمیر پر ان کے اصرار کو پس پشت ڈال دیا گیا اور آہستہ آہستہ یہاں رجعت پرست اور تنگ نظر مذہبی عناصر عروج حاصل کرنے لگے۔

جنوری 1948ء میں جب کراچی شہر کا سکون ہندوؤں کی املاک لوٹ کر اور ان کی جانیں لے کر تہہ و بالا کرنے کی کوشش کی گئی تو قائداعظم آگ بگولہ ہوگئے تھے اور انھوں نے سختی سے اس بات کا حکم دیا تھا کہ ہندوؤں کی جان و مال کو نقصان پہچانے والے افراد کو دیکھتے ہی گولی مار دی جائے۔ چنانچہ وہ فرقہ وارانہ فسادات جو تیزی سے اٹھے تھے، چند گھنٹوں کے اندر بلبلے کی طرح بیٹھ گئے۔ مذہبی تعصب و فرقہ واریت اور روشن خیالی کے درمیان آخری لڑائی مرحوم خواجہ ناظم الدین نے لاہور میں لڑی جب وہاں احمدیوں کے خلاف فسادات پھوٹ پڑے تھے۔ خواجہ صاحب نے بھی ان فسادات کو بری طرح کچلا تھا اور فوراً ہی ان پر قابو پالیا گیا تھا۔

ایک وہ پاکستان تھا اور ایک یہ پاکستان ہے کہ احمدیوں کے خلاف فسادات ہوتے ہیں۔ ان کے افراد زندہ جلا دیے جاتے ہیں اور مملکت انھیں کوئی تحفظ فراہم نہیں کرتی، اسی وضع کے سلوک کا شکار عیسائی ہوتے رہتے ہیں اور ابھی چند دنوں پہلے بابری مسجد کے قابل مذہب اور افسوس ناک واقعے کو بہانہ بناکر جس طور پر یہاں مندروں کی بے حرمتی کی گئی، غریب و نادار ہندوؤں کے گھر لوٹے گئے، انھیں زندہ جلا کر ہلاک کیا گیا، ان کی خواتین کے ساتھ زیادتی کی گئی، یہ تمام معاملات اس قدر شرمناک ہیں کہ ان کی مذمت کے لیے ڈھونڈے سے لفظ نہیں ملتے۔

سوچنے کی بات ہے کہ وہ سرزمین جس پر ہم سانس لیتے ہیں وہ قائداعظم کا پاکستان کیوں کر ہوسکتی ہے جب اس کے وفاقی وزیر کدال سنبھال کر مندروں کو گرانے کی مہم شروع کردیں اور آج یہ بات کس طرح تسلیم کی جاسکتی ہے کہ یہ قائداعظم کا ہی پاکستان ہے جس میں مندروں کو گرانے کے لیے لاہور کی بلدیہ اپنے بلڈوزر فراہم کرتی ہے۔

ہم نے صرف یہی نہیں کیا کہ اپنی اقلیتوں کے حقوق کی پاسداری نہیں کی، ان سے کیے ہوئے وعدے وفا نہیں کیے، ہم نے تو نئی اقلیتیں بھی وضع کیں۔ جنرل ضیاء الحق نے عوام کو تقسیم در تقسیم کرنے کی خاطر جداگانہ انتخابات کا شوشہ چھوڑا، اس وقت بھی اس پیمان کی شدید خلاف ورزی ہوئی جو قائد اعظم نے اقلیتوں سے کیا تھا اور جس کی رو سے کسی بھی مسلمان پاکستانی کی طرح وہ بھی مساوی شہری حقوق رکھتے ہیں۔ یہ سب کچھ اس لیے ہوا کہ پاکستان سیاستدانوں، دانشوروں اور سماج کے دیگر اہم عناصر نے اقلیتوں کے حقوق کی اس پامالی کے خلاف آواز بلند نہیں کی۔

ہمارے یہاں مذہب کے نام پر اقلیتوں اور وسیع المشرب یا روشن خیال افراد کے خلاف جس شدو مد سے نفرت کی مہم چلائی جارہی ہے، اس میں وہ لوگ بہ طور خاص گردن زدنی قرار پاتے ہیں جو اس نفرت انگیز مہم کے خلاف آواز اٹھائیں۔ ایسے افراد کی آواز کا گلا گھوٹنے، انھیں ملحدو بے دین قرار دینے اور دھمکانے کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔ گزشتہ چند ہفتوں کے دوران اختر حمید خان پذیرائی کمیٹی اور اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے بننے والی ایکشن کمیٹی کے جلسوں میں مجھے اپنے خیالات کے اظہار کا موقع ملا تو مجھے اندازہ ہوا کہ ہمارے یہاں آزادی کے ساتھ اظہار رائے کرنا تقریباً ناممکن ہوتا جا رہا ہے۔

شومئی قسمت کہ ان دو جلسوں کے فوراً بعد بی بی سی ہندی سروس سے اقلیتوں کے مسئلے پر میرا ایک انٹرویو نشر ہوا۔ ان تینوں مواقع پر میری رائے کچھ لوگوں کو اس قدر ناگوار گزری کہ انھوں نے مجھے فون کیے، انتہائی توہین آمیز گفتگو کی اورلگی لپٹی رکھے بغیر مجھے یہ بھی بتا دیا گیا کہ اگر میں نے اپنا قبلہ درست نہ کیا تو میرا دماغ درست کردیا جائے گا۔ ان ذاتی تجربات اور اپنے ایسے دوسرے کئی افراد کے تجربات کو سنتی ہوں تو یہ سوال بار بار ذہن میں ڈنک مارتا ہے کہ جب فرقہ پرستوں اور تنگ نظروں کا ہمارے ساتھ یہ رویہ ہے اور ہم خود کو غیر محفوظ پاتے ہیں تو پھر یہاں زندگی بسر کرنے والی اقلیتیں کس خوف و ہراس کا شکار ہوں گی‘‘۔

یہ لکھت 25 برس پرانی ہے۔ ربع صدی کی اس مدت میں ہم نے اخلاقی زوال کی ڈھلان پر جس تیزی سے سفر کیا، وہ ناقابلِ یقین ہے۔ اپنی اقلیتوں کے خون میں بھیگے ہوئے لاشوں کو دیکھتے ہوئے شرم آتی ہے۔ میں نہیں جانتی کہ 2018ء ہمارے لیے کیا لے کر آرہا ہے؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔