اپنے ہی نام

ذیشان الحسن عثمانی  منگل 26 دسمبر 2017
کاش میں انسان بن گیا ہوتا تو آج ملک و معاشرے کی ترقی و سُدھار میں کوئی تو کام کررہا ہوتا۔ (فوٹو: فائل)

کاش میں انسان بن گیا ہوتا تو آج ملک و معاشرے کی ترقی و سُدھار میں کوئی تو کام کررہا ہوتا۔ (فوٹو: فائل)

سال 2017 کا اختتام ہے اور 2018 شروع ہونے والا ہے۔ اس سال نے انسانوں کو انسانیت سے بہت دور کردیا۔ سوچا کہ نوحہ لکھوں یروشلم پر ظالموں کے ظلم کی حجت کا اور عالمِ اسلام کی بے بسی اور کسمپرسی کا۔ پھر سوچا کہ بربریت کی داستان رقم کردوں جو کچھ کہ میانمار میں روہنگیا مسلمانوں پر گزر گئی۔ پھر سوچا کہ اربابِ اختیار کی قلم کے ذریعے کھال کھینچوں کہ جہاں ذاتی اختیارات، اَنا اور غصہ خدا کی تقدیر کو چیلنج کریں وہاں سکون کے سوتے نہیں پھوٹتے۔ پھر سوچا کہ ملکی درسگاہوں اور ان میں پروان چڑھنے والی نسل کا سِیاپا لکھوں۔ اشفاق احمد صاحب کہتے تھے کہ درسگاہ میں ’’س‘‘ اِضافی ہے، یہ تو ’’درگاہ‘‘ ہوتی ہے۔

ایک کے بعد ایک شخص، کاروبار، ملک، ادارہ اور نظریہ تنقید کی زد پر آتا چلا گیا مگر میں رک گیا؛ اور سوچا کہ کیوں نہ اپنے آپ پر ہی مرثیہ لکھ دوں؟ آدمی اپنی ذات کا بہترین شاہد اور بدترین ناقد ہوتا ہے۔

جتنی تنقید ہم ملک پر کرتے ہیں، اس کا سوواں حصہ بھی اپنے آپ پر کرلیں تو ملک کی تقدیر بدل جائے۔

تو آج کا یہ مضمون میرے اپنے ہی نام ہے۔

کاش میں انسان بن گیا ہوتا تو آج ملک و معاشرے کی ترقی و سُدھار میں کوئی تو کام کررہا ہوتا۔

موٹی ویشنل اسپیکنگ کا سارا بھوت میرے ایک استاد نے ایک جملے میں اُتار دیا: ’’صرف خُدا کی ذات واجب الوجود ہے۔ اس کے علاوہ ہر شئے ممکن الوجود ہے اور ہر ممکن الوجود معدوم الوجود ہے۔‘‘

اور یہاں میں نے اپنی ذات کو ہی مثال بنا بنا کر پیش کرنا شروع کر دیا۔ میرا وژن، میرا کام، میرے پروجیکٹس، میرا ناول، میرے بچے، میرا لکھنا، میرا پڑھنا، میرا بولنا…

جس شخص کو دیکھ کر خُدا نہ یاد آئے وہ اِس قابل ہی کہاں ہوتا ہے کہ اُسے فَالو کیا جائے۔ آدمی کی زندگی کا قیمتی ترین اثاثہ اس کا عقیدہ ہے اور اس کے بعد اس کا وقت۔ اللہ سے معافی چاہتا ہوں کہ میں نے پتا نہیں کیا کچھ لکھ لکھ کر لوگوں کا وقت برباد کیا۔ دنیا سے گھبرا کر جو لوگ فیس بک اور ٹوئٹر پر پہنچے کہ شاید جِی ہلکا ہو، میں نے انہیں وہاں بھی جا لیا۔

سچ بول بول کر احساسِ برتری کا وہ جال بُنا کہ سارے بے زبانوں کا دَم گھٹ گیا۔ سچ کی بہت سی قسمیں ہیں، ان میں سے ایک پاکستانی سچ ہے۔ آپ بھرے مجمعے میں مولوی صاحب سے ٹوپی اور پائنچوں کا حکم اس لئے نہیں پوچھتے کہ آپ کو معلوم نہیں۔ آپ نے تو پہلے ہی ٹوپی پہن کر، پنڈلیوں تک شلواریں چڑھا رکھی ہیں۔ آپ اس لئے پوچھتے ہیں کہ ہر بغیر ٹوپی والے شخص کی تذلیل ہو۔ وہ چھوٹا ہو جائے اور آپ کی برتری کا ثبوت مہیا ہو۔

آپ درسگاہوں سے کانفرنسز تک، مسجدوں سے لے کر بازاروں تک چلے جائیں، ہر شخص آپ کو ’’سچ‘‘ ہی بولتا ملے گا۔ یاد رکھنے کی بات ہے کہ یہ سچ شرک ہے۔ ہم اپنی اَنا کو روز بھرتے ہیں۔ انا کھاتے ہیں، انا لکھتے ہیں، انا پڑھتے ہیں، انا جیتے ہیں، انا مرتے ہیں۔ ’’مئے‘‘ کا نشہ ایک رات میں اتر جاتا ہے لیکن ’’میں‘‘ کا نشہ زندگی بھر نہیں اُترتا۔

اَنا کے غلاموں کے اس ملک میں کوئی تو ہو جو دل لکھے۔ دل میں تو خُدا رہتا ہے اور اُسی کا حق ہے کہ اسے لکھا جائے، بولا جائے، پڑھا جائے، اسی کے نام پر جیا جائے اور مرا جائے۔

ہم بیرونِ ملک سے پڑھ کر آنے والے لوگ پتا نہیں اپنے عقیدے کی چادر میں کتنے ہی شگاف کر لاتے ہیں۔ اخلاق کہیں سے سیکھ لئے تو نظریات کسی اور سے مستعارلے لئے۔ کوئی کام کتنا ہی اچھا ہو، مگر ہم تب تک نہیں کرتے جب تک ہمارا نام اس سے جڑا ہوا نہ ہو۔

وطن کی محبت؟ سب بکواس۔ یہ تو شرمندگی و پشیمانی کا وہ جرمانہ ہے جو ہم صرف لفاظی سے اُتارتے رہتے ہیں۔ ایچ ایل میںکن اٹھارویں صدی کا ایک بڑا فلسفی تھا۔ وہ کہتا تھا کہ جس ملک میں ہر شخص کے پاس اوریجنل آئیڈیا ہو، وہ چل نہیں سکتا۔ یہ لیڈرشپ کا بھوت لگتا ہے مر کر ہی جان چھوڑے گا۔ جو شخص مرنے کے قابل نہ ہو وہ جینے کے قابل کیونکر ہوا؟

چونکہ آپ سب قارئین میری ’’میں‘‘ کے چشم دید گواہ ہیں اسی لئے آپ سب کے سامنے اعترافِ جرم کر رہا ہوں اور دست بستہ حق تعالیٰ شانَہُ سے دعا کرتا ہوں کہ اے اللہ! مجھے مجھ سے بچا لے۔

’’میں تھک گیا ہوں اپنی بڑائی کے تذکرے کر کرکے۔ اب چاہتا ہوں کہ تیری بات کروں۔ تو قبول کرلے۔

’’مجھے شرک سے بچا، مجھے ظلم سے بچا۔ مجھے کفر سے، نفاق سے اور اَنا سے بچا۔ میں نے زندگی میں کوئی ایسا کام نہیں کیا کہ تیری رحمت کو متوجہ کرسکوں۔ ہاں گناہوں کا اور غفلت کا وہ شور ڈالا کہ صبح و شام تیرے عذاب کو دعوت دی۔ تیری رحمت سے پورا یقین ہے کہ جب تو مجھے اتنی بُری حالت میں دیکھے تو تُو بےنیاز ہے اور مجھے بخش دے گا۔

’’میرے اللہ مجھے حضوری دے۔ دیکھ نیا سال لگنے والا ہے، 40 سال برباد کرکے یہاں تک پہنچا ہوں۔ اے وقت کے مالک اللہ، میرا وقت بدل دے۔

’’اے صاحبِ قلم، اے صاحبِ سوال، اے لوح کے مالک، اے تقدیر کے لکھنے والے مجھے تقدیر اور وقت کے شر سے بچا۔

’’جہاں تیری زمین پر پھل دار درخت ہیں، وہیں میں سوکھا اور بوسیدہ بیج۔ تو ہرا بھرا کر دے۔ برکت دے میری زندگی اور موت میں۔

’’تجھے اُس عشق کا واسطہ جو ہجر و وصال سے بڑھ کر ہے۔ تجھے اس رحمت کا واسطہ جو گناہ گاروں کےلیے خاص ہے۔ پچھلے بخش دے اور اس نئے سال میں اپنا بنا لے۔‘‘

تیری رہ گزر میں ہوں خیمہ زن، ہے بدن پہ ہجر کا پیرہن
جو گزر گئی سو گزر گئی، میری باقی عمر سنوار دے

آپ سب کو نیا سال مبارک!

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لئے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

ڈاکٹر ذیشان الحسن عثمانی

ذیشان الحسن عثمانی

ڈاکٹر ذیشان الحسن عثمانی فل برائٹ فیلو اور آئزن ہاور فیلو ہیں۔ ان کی تصانیف http://gufhtugu.com/authors/zeeshan-ul-hassan-usmani/ سے حاصل کی جاسکتی ہیں۔ وہ کمپیوٹر سائنس، مصنوعی ذہانت، ڈیٹا سائنس اور معاشرتی موضوعات پر باقاعدگی سے لکھتے ہیں۔ آج کل برکلے کیلی فورنیا، امریکہ میں ایک فرم میں چیف ٹیکنالوجی آفیسر ہیں۔ آپ ان سے [email protected] پر رابطہ کر سکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔