شہید سب انسپکٹر رحیم بخش مری کا آخری انٹرویو

ببرک کارمل جمالی  منگل 26 دسمبر 2017
رحیم بخش مری ابتدائی طور پر علم و قلم کے شعبے سے وابستہ رہنے کے بعد پولیس میں بھرتی ہوگئے۔ (تصاویر: ریحان علی)

رحیم بخش مری ابتدائی طور پر علم و قلم کے شعبے سے وابستہ رہنے کے بعد پولیس میں بھرتی ہوگئے۔ (تصاویر: ریحان علی)

دسمبر کا مہینہ اور آخری عشرے کی 22 تاریخ، ایس ایچ او رحیم بخش مری گشت پر تین پولیس اہلکاروں کے ساتھ نکلے اور دہشت گردوں سے مقابلہ کرتے ہوئے شہید ہوگئے۔ شہادت کے چند ہی گھنٹوں میں پولیس اور اے ٹی ایف کے بہادر جوانوں نے ان کے قاتلوں کو بھی جہنم واصل کردیا۔

یہ واقعہ تحصیل گنداخہ پولیس کو مطلوب اشتہاری ملزم کی گرفتاری کےلیے چھاپے کے دوران فائرنگ کے تبادلے میں پیش آیا۔ جوابی فائرنگ میں اشتہاری ملزم ذوالفقار عرف ذلفی اور چھوٹو مارا گیا۔ مقتول قتل، اغواء اور دیگر سنگین جرائم میں ملوث تھا۔ یاد رہے کہ حکومت نے ذوالفقار کے سر کی قیمت 5 لاکھ روپے مقرر کر رکھی تھی۔

(نوٹ: رحیم بخش مری کا یہ آخری انٹرویو ہے جو شہادت سے ایک ہفتہ قبل ان سے لیا گیا تھا۔ رحیم بخش مری اب ہم میں نہیں رہے۔ اللہ تعالیٰ انہیں جنت میں جگہ دے اور لواحقین کو صبر جمیل عطا فرمائے، آمین۔)

سوال: آپ کب پولیس میں بھرتی ہوئے؟

جواب: 16 اکتوبر 2008 کو پولیس فورس جوائن کی جبکہ 30 مئی 2017 کو گنداخہ تھانے کا ایس ایچ او بنا۔

سوال: بلوچستان پولیس کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟

جواب: بلوچستان پولیس جن کٹھن حالات میں اپنے عوام اور ملک کی خدمت میں شب و روز محنت کررہی ہے وہ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ ہم پولیس والے اپنے پیاروں کو چھوڑ کر دن رات عوام کے تحفظ میں لگے رہتے ہیں، کبھی ہم گھر زندہ واپس لوٹ جاتے ہیں تو کبھی ہماری لاش گھر لوٹائی جاتی ہے۔ پھر بھی اقتدار پرست صرف منہ سے مذمت کے الفاظ ادا کرتے ہیں اور کچھ مراعات کا اعلان بھی کرتے ہیں جو ان کے لواحقین کےلیے ناکافی ہوتی ہیں جبکہ ان کا حصول انتہائی مشکل ہوتا ہے۔

سوال: کیا بلوچستان پولیس کو دوسرے صوبوں جتنی مراعات ملتی ہیں؟

جواب: بالکل نہیں! کاش بلوچستان پولیس کو دیگر صوبوں کی طرح اسکیل، اپ گریڈیشن اور مراعات دی جائیں تو یہ بہترین اقدام ہوگا۔ بلوچستان کے ایک پولیس مین کی تنخواہ بڑی مشکل سے بیس سے چالیس ہزار کے درمیان ہوتی ہے لیکن دیگر صوبوں کی پولیس کی تنخواہ اس سے کہیں زیادہ ہے جو نامناسب رویہ ہے۔ پھر بھی مجھے آج بے حد خوشی ہو رہی ہے کہ بلوچستان پولیس کے بہادر جوان محنت، لگن اور بہادری کے ساتھ جرائم کے خاتمے کےلیے کام کرتے ہیں۔ خدا مجھ سمیت میرے تمام سپاہیوں کو اپنی حفظ و امان میں رکھے۔

سوال: لوگوں کی اکثریت پولیس والوں کو منفی نگاہ سے دیکھتی ہے، اس بارے میں آپ کا کیا کہنا ہے؟

جواب: یہ بات سچ ہے کہ بہت سے لوگ پولیس کو منفی طور پر دیکھتے ہیں۔ کبھی انہیں مثبت طرز پر بھی سوچیے، کبھی تعصب کی عینک اتار کر بھی دیکھیے کہ ہم لوگ جو وطن پر قربان ہوتے ہیں، ہم بھی کسی کے پیارے ہوتے ہیں۔ عوام کو چاہیے کہ پولیس والوں کو بھی عزت کی نگاہ سے دیکھے کیونکہ پانچوں انگلیاں برابر نہیں ہوتیں۔

سوال: گنداخہ میں پورے ضلع سے زیادہ جرائم ہورہے ہیں، آپ ان کے خاتمے کےلیے کیا کر رہے ہیں؟

جواب: گنداخہ میں جرائم پیشہ عناصر بہت زیادہ ہیں، ان سب کو کنٹرول کرنا مشکل ضرور ہے مگر ناممکن نہیں۔ یہاں جرائم اس لیے زیادہ ہیں کیونکہ سندھ کے جرائم پیشہ افراد بھی یہاں آکر وارداتیں کرتے ہیں۔ گنداخہ میں جرائم پیشہ افراد کے خلاف کاروائی تیز کردی گئی ہے۔ ہم نے علاقے کو پرامن بنانے کا عزم کر رکھا ہے۔ عوام کو بھی چاہیے کہ وہ پولیس کے ساتھ تعاون کریں اور مشکوک افراد کی فوری اطلاع دیں تاکہ ان کے خلاف فوری کارروائی عمل میں لائی جائے۔

سوال: آپ کی پسندیدہ غذا کیا ہے؟

جواب: بلوچی بسری اور سرسوں کا ساگ بہت پسند ہے لیکن جو بھی چیز مل جائے، کھالیتا ہوں۔

سوال: پسندیدہ کتاب کونسی ہے؟

جواب: قرآن مجید پسندیدہ کتاب ہے۔

سوال: کیا یہاں سیاسی جماعتوں کی مداخلت ہوتی ہے؟

جواب: جی بالکل، میں اس کو ختم کرنے کی کوشش میں ہوں۔ سیاسی لوگوں کو چاہیے کہ وہ مجرموں کی حمایت نہ کریں۔ اگر ایسا ہوجائے تو پورا جعفرآباد پر امن ہوجائے گا۔

سوال: آپ کو کیسا پولیس اہلکار زیادہ پسند ہے؟

جواب: جو سپاہی ایمانداری کے ساتھ پیشہ ورانہ فرائض انجام دیتا ہے، وہ مجھے سب سے زیادہ پسند ہے۔

سوال: کیا پولیس اہلکاروں میں بھی کچھ کالی بھیڑیں موجود ہیں؟

جواب: جی بالکل، ہر محکمے کی طرح پولیس میں بھی چند کالی بھیڑیں موجود ہیں؛ لیکن سارے پولیس والے ایک جیسے نہیں ہوتے۔

سوال: دنیا کا سب سے اچھا کام جس پر آپ کو فخر ہو؟

جواب: گنداخہ پولیس تھانے کے احاطے میں موجود مسجد کی تعمیر کرنا میرے لیے بہترین اور سب سے اچھا کام ہے۔

سوال: آپ ایک لکھاری سے پولیس آفیسر بنے، کیا اب دوبارہ ادب کی دنیا میں واپس آنا پسند کریں گے؟

جواب: میں آج بھی اہل قلم کی عزت کرتا ہوں اور ہمیشہ کرتا رہوں گا۔ لکھنے کا شوق اب بھی بہت ہے مگر وقت نہ ہونے کی وجہ سے نہیں لکھ پاتا۔

سوال: آپ کی زندگی کا مشکل ترین کیس کونسا ہے؟

جواب: گزشتہ دنوں جن لڑکوں کو میرے تھانے کی حدود میں قتل کیا گیا، وہ ایک مشکل کیس ہے۔ ان کے ورثا ابھی تک نہیں آئے ہیں۔

سوال: پولیس تھانے کی حالت زار تشویشناک ہے یا پھر قابلِ قبول ہے؟

جواب: دوسرے تھانوں کی نسبت ہمارے تھانے کی حالت اچھی ہے۔ ہاں البتہ 2010 کے سیلاب نے تھانے کا برا حال کیا ہے۔ اس معاملے پر ڈی پی او سے بھی بات کروں گا۔

سوال: گنداخہ کے عوام کے دل میں اتنی جلدی جگہ بنانے میں کیسے کامیاب ہوئے؟

جواب: (ہنستے ہوئے) تحصیل گنداخہ میں سات ماہ کی مختصر مدت میں نوگو ایریا کو میں نے مکمل ختم کر دیا ہے۔ اب ان سڑکوں گلیوں پر عوام پرامن طریقے سے سفر کرتے ہیں، اس لیےعوام کے دلوں میں جگہ بن سکی۔

 

سوال: ایرانی پیٹرول پکڑنے والا مسئلہ کیسے حل کیا؟

جواب: کچھ رقم اپنی جیب سے خرچ کرکے گاڑی پر عدالت تک پیٹرول لے کر گیا، تب جا کر ایرانی پیٹرول کا مسئلہ حل ہوا۔ مگر عدلیہ کی جانب سے چھوٹے موٹے ایشوز پر ہمیں بار بار طلب کیا جاتا جس سے پریشانی بھی ہوتی ہے اور دل بھی دُکھتا ہے۔

سوال: پنجاب پولیس کی وردی بدلنے سے کچھ فرق پڑا ہے؟

جواب: پولیس کا نظام اس کی وردی کا رنگ بدلنے سے نہیں بلکہ قوانین بنانے اور ان پر عمل درآمد سے تبدیل ہوتا ہے۔ جب کہ ہم نے پولیس اور شہریوں کے درمیان فاصلوں کو کم کرکے دوستانہ ماحول پیدا کرنے کی کوشش کی ہے تاکہ باہمی تعاون سے جرائم کی شرح کم سے کم ہونے کے ساتھ ان کا جڑ سے خاتمہ بھی کرسکیں۔

سوال: بلوچستان پولیس کی قربانیوں پر آپ کیا کہیں گے؟

جواب: بلوچستان پولیس کی تاریخ قربانیوں سے بھری پڑی ہے۔ بلوچستان پولیس نے ہمیشہ عوام کے جان ومال کے تحفظ اور اپنے فرائض کی انجام دہی میں ہراول دستے کا کردار ادا کیا ہے۔ بلوچستان پولیس جن کٹھن حالات میں اپنے پیاروں کو چھوڑ کر عوام کی خدمت  و حفاظت میں مصروف عمل ہے، وہ کسی سے ڈھکی چھپی بات نہیں۔

سوال: کیا آپ پولیس کے قوانین سے متفق ہیں؟

جواب: افسوس کی بات ہے کہ آج بھی برطانوی دور کے پولیس قوانین نافذ ہیں۔ ہم 21ویں صدی میں رہ رہے ہیں، برطانوی قانون 1843ء میں بنا تھا۔ اب حالات اور مجرمانہ طور طریقے تبدیل ہو چکے ہیں اس لیے نئے قوانین بننے چاہئیں۔ البتہ چند سال سے NTS ٹیسٹ کے ذریعے ہونے والی بھرتیوں کی وجہ سے پولیس میں پڑھے لکھے نوجوان شامل ہوئے، اس سے پولیس فورس مزید مضبوط ہوگئی ہے۔

سوال: بلوچستان پولیس کے کتنے اہلکاروں نے اب تک شہادت کا رتبہ پایا، کچھ معلومات دیجیے۔

جواب: بلوچستان پولیس کے ریکارڈ کے مطابق رواں سال بلوچستان میں چار خودکش دھماکے ہوئے جن میں 41 پولیس اہلکار شہید ہوئے، جب کہ درجنوں پولیس اہلکار زخمی بھی ہوئے ہیں۔ 1979ء سے اب تک بلوچستان پولیس کے 868 اہلکار اپنے فرائض کی انجام دہی کے دوران شہادت کا رتبہ حاصل کرچکے ہیں۔ ان میں تین ڈی آئی جی، ایک ایس ایس پی، دو ایس پی، اٹھارہ ڈی ایس پی اور 24 انسپکٹرز شامل ہیں۔ گزشتہ پانچ سال بلوچستان پولیس کے جوانوں پر بہت بھاری گزرے ہیں جن میں 564 اہلکاروں نے شہادت پائی ہے۔ لیکن پھر بھی چند لوگوں کی وجہ سے بلوچستان پولیس پر انگلیاں ضرور اٹھتی ہیں۔ پولیس والے بھی انسان ہوتے ہیں، چند اہلکاروں کی وجہ سے پوری پولیس فورس کو بدنام کرنا زیادتی ہے۔

سوال: حکومت سے کچھ مطالبات کرنا چاہیں گے؟

جواب: حکومت پاکستان سے گزارش ہے کہ وہ بلوچستان پولیس کو درپیش تمام مسائل حل کرنے کے فوری اقدامات کرے۔ انہیں دیگر صوبوں کے برابر مراعات دی جائیں، پولیس افسران و اہلکاروں کو جدید ساز و سامان اور اچھی تربیت دی جائے تاکہ بلوچستان پولیس مضبوط سے مضبوط تر ہوسکے۔

سوال: شہادت پانے والے پولیس اہلکاروں کے بارے میں آپ کے کیا تاثرات ہیں؟

جواب: پولیس کو سب سے زیادہ مظلوم طبقہ سمجھتا ہوں۔ اچھے برے لوگ ہر شعبے میں ہوتے ہیں لیکن ہماری اولین کوشش ہے کہ برے لوگوں کو بھی سیدھی راہ پر لائیں۔ جس کسمپرسی میں پولیس والے زندگی گزارتے ہیں، وہ کسی سے ڈھکی چھپی بات نہیں۔ جن مشکل ترین حالات میں بلوچستان پولیس اپنے فرائض انجام دیتی ہے مجھے اس کا مکمل ادراک ہے، اس لیے مجھے ہمیشہ پولیس سے ہمدردی رہی ہے اور میں بھر پور انداز میں پولیس کا دفاع بھی کرتا ہوں۔

سوال: کوئٹہ دھماکوں میں شہید پولیس اہلکاروں کے بارے میں کیا کہیں گے؟

جواب: اس وقت بلوچستان پولیس حالتِ جنگ میں ہے، ہمارے حوصلے بلند ہیں۔ ہمیں اپنے فرائض کی انجام دہی سے کوئی نہیں روک سکتا۔ عوام کے تحفظ اور امن و امان کی بہتری کےلیے بہت سی قربانیاں دی ہیں اور آئندہ بھی اپنے فرائض کی انجام دہی اسی تسلسل اور ذمہ داری سے ادا کرتے رہیں گے۔

سوال: امن وامان کی فضا برقرار رکھنے کےلیے جرائم پیشہ عناصر کے خلاف کتنے کریک ڈاون کرچکے ہیں؟

جواب: اب تک مختلف کارروائیوں کے دوران ایک اشتہاری، 16 روپوش، 19 مفرور ملزمان گرفتار جبکہ 4 کارروائیوں میں ناجائزہ اسلحہ برآمد کیا گیا۔

سوال: آپ کے تبادلے سے متعلق خبر اوستہ محمد کے ایک صحافی نے دی، کیا آپ اس پر ہتک عزت کا دعویٰ کریں گے؟

جواب: (ہنستے ہوئے) نہیں جی میں اہل قلم کی عزت کرتا ہوں اس لیے انہیں کچھ نہیں کہوں گا۔ ویسے بھی مجھے گنداخہ کے عوام نے بہت عزت دی ہے۔

سوال: اوستہ محمد کے ایس ایچ او کو معطل کر دیا گیا ہے، اس بارے میں آپ کا خیال ہے؟

جواب: اس ایس ایچ او کو پھنسایا گیا ہے جو دکھ کی بات ہے۔

آخری سوال ہو جائے؟

جواب: چھوڑیئے، اب مزید رہنے دیجیے۔ کافی سوالات ہوچکے۔ اب نماز کا وقت ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

 اگر آپ بھی ہمارے لئے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔
ببرک کارمل جمالی

ببرک کارمل جمالی

بلاگر بین الاقوامی تعلقات میں ماسٹرز کرچکے ہیں جبکہ بلوچستان کے مسائل پر دس سال سے باقاعدہ لکھ رہے ہیں۔ پاکستان کے مختلف اخبارات میں آپ کے کالم اور بلاگ شائع ہوتے رہتے ہیں۔ ان سے [email protected] پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔