بی جے پی کے راج میں

شکیل فاروقی  منگل 26 دسمبر 2017
S_afarooqi@yahoo.com

[email protected]

بھارت کی ریاست اتر پردیش المعروف یوپی کے ضلع مظفر نگر اور اس کے ایک مردم خیز قصبہ شاملی میں ہونے والے مسلم کش فسادات کو ایک دو برس نہیں بلکہ چار سال ہوچکے ہیں۔ اگست 2013 میں کھیلی گئی خون کی ہولی میں 60 سے زائد مسلمان شہید ہوئے تھے اور 150 دیہات کے 10 ہزار سے زائد مسلمان خاندان اپنے گھروں کو چھوڑ کر ریلیف کیمپوں میں پناہ لینے پر مجبور ہوگئے تھے۔

تین دن تک جاری رہنے والے ان فسادات کے نتیجے میں 50 ہزار مظلوم مسلمان اپنے گھروں سے اجڑ گئے تھے، جو آج تک اپنے گھروں کو واپس نہیں جاسکے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل انڈیا کی ایک رپورٹ کے مطابق ان اجڑے ہوئے مسلمانوں کے بہت سارے خاندان ابھی تک عارضی طور پر بنائی گئی کالونیوں میں زندگی کی سزا کاٹنے پر مجبور ہیں۔ ان کے کم از کم 200 خاندان ایسے ہیں جنھیں معاوضے کی وہ رقم بھی ابھی تک نہیں ملی جس کی ادائیگی کا وعدہ اتر پردیش سرکار نے ان سے کیا تھا۔ اس چشم کشا رپورٹ سے صرف ان فساد زدگان کی حالتِ زار ہی نہیں بلکہ سرکار کی بے حسی کا بھی اندازہ ہوتا ہے۔

جس وقت ان فسادات کے شعلے بھڑکے تھے، اس وقت اتر پردیش میں سماج وادی پارٹی کی حکومت تھی۔ اس وقت حکومت نے اعلان کیا تھا کہ 150 میں سے 9 متاثرہ گاؤں کے 1800 متاثرہ خاندانوں کو 5 لاکھ روپے معاوضہ دیا جائے گا۔ اس کے علاوہ ان خاندانوں کو جن کے یہاں اموات ہوئی تھیں 3 لاکھ روپے، شدید زخمی ہونے والوں کو 50 ہزار روپے اور جنھیں کم چوٹیں آئی تھیں انھیں 20 ہزار روپے دینے کا اعلان کیا گیا تھا۔

بھارتی سپریم کورٹ نے اس صورتحال کا سخت نوٹس لیا اور حکومت سے ان متاثرین کی فوری امداد کا مطالبہ بھی کیا، لیکن اتر پردیش سرکار پر اس ڈانٹ پھٹکار کا الٹا اثر ہوا، جس کے نتیجے میں انتظامیہ نے ریلیف کیمپوں کو اجاڑ پھینکا۔ بے چارے متاثرین دسمبر کی شدید ٹھنڈ میں کھلے آسمان کے نیچے آگئے۔ اس آڑے وقت میں بعض مسلم تنظیموں اور حقوق انسانی کے اداروں نے آگے بڑھ کر ان بے بسوں کی مدد کی اور مظفر نگر میں 28 اور شاملی میں ان بے گھر افراد کے لیے 38 عارضی کالونیاں بنوائیں۔ ایمنسٹی کی رپورٹ میں ایسی کئی کہانیاں شامل ہیں جن کے مطابق یہ حقیقت منظر عام پر آئی ہے کہ رشوت خور سرکاری اہل کاروں نے رشوت نہ ملنے کی وجہ سے معاوضے کی ادائیگی نہیں کی۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل انڈیا کی پروگرام ڈائریکٹر اسمتا باسو کا کہنا ہے کہ ریاستی حکومت نے سب سے پہلے تو فسادات کے متاثرین کو اپنے گاؤں واپس جانے میں مدد کے لیے سیکیورٹی فراہم نہیں کی۔

اس کے بعد مکمل اور مناسب معاوضہ ادا نہ کرکے انھیں مزید مایوس اور پریشان کردیا۔ ایمنسٹی کی رپورٹ سے یہ بھی معلوم ہوا کہ مظفر نگر کی تقریباً 82 فیصد عارضی کالونیوں اور قصبہ شاملی کی 97 فیصد کالونیوں میں متاثرین کے لیے پینے کا صاف پانی تک میسر نہیں ہے۔ اس کے علاوہ مظفر نگر کی 61 فیصد اور شاملی کی 70 فیصد کالونیوں میں گندے پانی کی نکاسی کی کوئی سہولت موجود نہیں ہے، جس کی وجہ سے متاثرین کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اور انتظامیہ نے اس انسانیت سوز صورتحال کی جانب سے اپنی آنکھیں بند کر رکھی ہیں۔ بہت سی کالونیوں میں تو بیت الخلا تک کی سہولت دستیاب نہ ہونے کی وجہ سے بے چاری خواتین کو رات کے وقت گروپ بناکر کالونیوں سے باہر جاکر حاجت سے فارغ ہونا پڑتا ہے۔

یہ ہے اس دیس کی حالت زار جس کے پردھان منتری کا نعرہ ہے ’’سب کا ساتھ، سب کا وکاس‘‘ یعنی سب کی ترقی۔ یاد رہے کہ ہندوستان میں مسلمانوں کی مجموعی تعداد 18 کروڑ سے زائد ہے اور وہ کل آبادی کا تقریباً 25 فیصد ہیں۔ درحقیقت وہ ملک کی سب سے بڑی اقلیت کہلانے کے بجائے دوسری بڑی اکثریت ہیں، لیکن اس کے باوجود سب سے زیادہ ابتر حالت انھی کی ہے، جس کی وجہ ان کے ساتھ ہونے والا امتیازی سلوک ہے۔ اس کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ فوج جیسے اہم قومی ادارے میں ان کی نمایندگی صفر کے برابر ہے، جب کہ دیگر سرکاری اور نیم سرکاری اداروں میں ان کا داخلہ عملاً ممنوع ہے۔

وہ مسلمان جو کبھی اثاثہ ہوا کرتے تھے انھیں اب ایک بوجھ قرار دیا جارہا ہے۔ یہ گمراہی پھیلانے والا طبقہ فرقہ پرستوں کا ہے، جسے دلتوں کی طرح مسلمان بھی ایک آنکھ نہیں بھاتے۔ اس طبقے کی مجبوری یہ ہے کہ وہ مسلمانوں کی اتنی بڑی آبادی کو نہ تو زندہ درگور کرسکتا ہے اور نہ ہی ملک بدر کرسکتا ہے۔ اس لیے اس طبقے کی کوشش یہی ہے کہ انھیں چوتھے درجے کا شہری بناکر رکھ دے اور ترقی کے تمام دروازے ان پر بند کردے اور ان کے تمام حقوق ان سے چھین لے۔ بدقسمتی سے اس وقت ہندوستان کی باگ ڈور اس فرقہ پرست طبقے کے ہاتھوں میں ہے۔

یہ مسلمان ہی ہیں جنھوں نے ہندوستان کو ایک عظیم تاریخی اور ثقافتی ورثہ سے مالا مال کیا ہے، جس میں تاج محل سرفہرست ہے۔ جولائی 2016 میں بھارت کے مرکزی وزیر ثقافت مہیش شرما نے ایک سوال کے جواب میں پارلیمان کے ایوان زیریں لوک سبھا کو بتایا تھا کہ تاج محل پر ٹکٹ کے ذریعے حکومت نے گزشتہ تین برس میں 75.9 کروڑ روپے کمائے تھے، جب کہ اس کی دیکھ بھال پر صرف 11 کروڑ روپے خرچ ہوئے تھے۔ ذرا اندازہ لگائیے کہ ہندوستان کی آزادی کے بعد سے اب تک تاج محل سے کتنی آمدنی ہوئی ہوگی۔ دیگر مسلم تاریخی عمارتوں سے حاصل ہونے والی آمدنی اس کے علاوہ ہے۔

اپنے دور اقتدار میں ہندوستان کے مسلم حکمرانوں نے ایسے بہت سے کارہائے نمایاں انجام دیے جو آج تک کارآمد اور نفع بخش ثابت ہورہے ہیں۔ فنون لطیفہ کی جو قلمی اور رنگا رنگی بھی ان ہی کی مرہون منت ہے۔ اب بھی کئی پیشے ایسے ہیں جن میں مسلمان ہی یکتا اور منفرد ہیں اور ان کا کوئی ہمسر اور ثانی نہیں ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ مسلمانوں کے ہندوستان پر بے شمار احسانات ہیں۔ اگر مسلم ممالک ہندوستان سے اپنے تجارتی تعلقات ختم کردیں اور اپنے ہندو ملازمین کو محض مذہبی منافرت کی بنیاد پر ملک بدر کردیں تو ہندوستان کی تجارت اور معیشت کا بھٹہ ہی بیٹھ جائے۔ کاش ہندو قوم کے پجاریوں اور پرچارکوں کو اس حقیقت کا بھی احساس ہوجائے۔ کاش مسلم ممالک کے سربراہان ہندوستان کے حکمرانوں کو یہ باور کرادیں۔

مودی حکومت خواہ کتنے بھی جھوٹے دعوے کیوں نہ کرے مگر یہ حقیقت ناقابل تردید ہے کہ بھارت کی اقلیتوں کی بے چینی اور پریشانی میں ہر آنے والے دن کے ساتھ اضافہ پر اضافہ ہورہا ہے اور ان پر عدم تحفظ کا احساس مسلسل تیزی کے ساتھ بڑھ رہا ہے۔ چنانچہ بھارت کے زیر تسلط گوا کے ایک چرچ نے بھارت کی موجودہ بی جے پی سرکار کا موازنہ جرمنی کی ماضی کی نازی حکومت سے کیا ہے۔ چرچ کے زیر اہتمام شایع ہونے والے ایک میگزین میں بھارت کے موجودہ حالات پر کیے گئے تبصرے میں کہا گیا ہے کہ ’’ملک میں آئینی ہولوکاسٹ جیسی صورتحال ہے‘‘۔

برسبیل تذکرہ عرض ہے کہ بھارت کی ریاست مدھیہ پردیش کے ضلع ساگر میں اعلیٰ ذات کے ہندوؤں نے ایک دلت خاتون کی ناک صرف اسی لیے کاٹ دی کہ اس نے ان کے یہاں مزدوری کرنے سے انکار کردیا تھا۔ ستم بالائے ستم یہ کہ ظالموں نے اس بے چاری کے شوہر کو بھی بری طرح مارا پیٹا اور پولیس چپ سادھے بیٹھی رہی۔ ادھر بہار کے ضلع چمپارن میں گائے کا گوشت کھانے کی افواہ پر بی جے پی اور آر ایس ایس کے غنڈوں نے سات مسلمانوں کی بری طرح پٹائی کی اور پولیس نے مظلوموں کی دادرسی کرنے کے بجائے الٹا ان بے چاروں کے خلاف ہی کیس درج کرلیا۔ گویا الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے۔

مویشیوں کے تاجر مسلمانوں کو تو گؤ رکھشا کے نام پر چن چن کر تشدد کا نشانہ بنایا جارہا ہے، جہاں فرقہ پرست ہجوم ان پر مظالم کے پہاڑ توڑ رہے ہیں۔ دیدہ دلیری کی انتہا یہ ہے کہ اس قسم کے واقعات کی ویڈیوز بناکر کھلے عام دکھائی جارہی ہیں۔ ہندوستان کے مسلمانوں کی شہریت بھی اب خطرے میں پڑچکی ہے۔ ریاست آسام کے نوے ہزار مسلمانوں کو غیر قانونی مہاجرین قرار دے کر طرح طرح سے ہراساں و پریشاں کیا جارہا ہے اور ان کے خلاف جھوٹے مقدمات تیار کیے جارہے ہیں۔

اس جرم میں پکڑے جانے والے زیادہ تر بے قصور مسلمانوں کا تعلق غریب مزدور طبقے سے ہے، جن کے پاس اپنے قانونی دفاع کے لیے مطلوبہ وسائل بھی نہیں ہیں، اور اس لیے یہ بے چارے ظالم انتظامیہ کے آگے بالکل بے بس اور لاچار ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ فوج کی 30 سالہ ملازمت سے ریٹائر ہونے والے ایک مسلمان سرکاری ملازم کو بھی جھوٹے الزام لگاکر پھنسالیا گیا ہے۔ بی جے پی کی حکمرانی میں خوف و ہراس کا عالم یہ ہے کہ برقع پوش مسلم خواتین اور باریش مسلمان ریل گاڑی میں سفر کرتے ہوئے ڈرتے ہیں اور خود کو قطعی غیر محفوظ محسوس کرتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔