دہشت گرد ذاکر نائیک

ڈاکٹر یونس حسنی  منگل 26 دسمبر 2017

ڈاکٹر ذاکر نائیک ہمارے عہد کی ایک نابغہ روزگار شخصیت ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو علم، ذہانت، استدلال اور حافظہ کی غیر معمولی صلاحیت عطا فرمائی ہیں۔ وہ نہ صرف قرآن مجید کی زندہ انسائیکلو پیڈیا ہیں بلکہ پرانے اور جدید عہد نامہ پر بھی یکساں عبور رکھتے ہیں۔

یہی نہیں اس زمانے میں جب کہ سنسکرت ایک مردہ زبان بن چکی ہے اور خود بھارت میں ہی چند پنڈت ان اشلوکوں سے واقف ہیں جو شادی بیاہ، گیان دھیان اور دیگر مذہبی تقریبات کے موقع پر پڑھے جاتے ہیں، ڈاکٹر ذاکر نائیک چترویدی ہیں۔ یعنی چاروں ویدوں سے واقف اور اس کے ایک ایک اشلوک کے حوالے اسی طرح دے سکتے ہیں جیسے وہ صحف سماوی کی آیات کے حوالے دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ تبلیغ اسلام کے لیے تقابل ادیان سے مدد لیتے ہیں۔

انھوں نے جنوبی ہندوستان، خصوصاً مرہٹواڑے سے اسلام کی تبلیغ کی ابتدا کی اور دھیرے دھیرے ان کی دعوت نہ صرف سارے ہندوستان بلکہ دنیا بھر میں پھیلنے لگی۔

تبلیغ کا طریقہ جو انھوں نے اختیار کیا اجتماعات سے خطاب تھا۔ اسلام کی حقانیت کو وہ دوسرے مذاہب کی بنیادی کتب سے بھی ثابت کرتے تھے۔ انھیں جس طرح قرآن مجید کی سورتوں اور آیات کے نمبر یاد تھے اسی طرح پرانے عہد نامے کی آیات بھی ازبر تھیں۔ وہ خدا کی وحدانیت کو ویدوں سے بھی ثابت کرتے، اس طرح بارہا انھیں مذہبی مناظروں سے بھی گزرنا پڑا اور وہ دلائل سے اسلام کی حقانیت ثابت کرتے رہے۔

رفتہ رفتہ ان کے یہ جلسے اتنے بڑے بڑے ہونے لگے کہ جنھیں دیکھ کر تعجب ہی کیا جاسکتا تھا۔ ان ہی جلسوں میں ان کے خطابات سے متاثر ہوکر سیکڑوں افراد نے اسلام قبول کیا۔ اور بس اسلام کی یہی تبلیغ ہندوستانی حکمرانوں کے گلے کی ہڈی بن گئی۔ ذاکر نائیک نے ایک ٹی وی اسٹیشن قائم کرلیا، جو پیس ٹی وی کہلاتا ہے اور جس کی نشریات ہندوستان کو چھوڑ کر دنیا بھر کے ملکوں میں دیکھی اور دکھائی جاتی ہیں۔

لیکن ہندوستان کے سیکولر حکمرانوں کو بے ضرر تبلیغ کا یہ انداز بھی خوش نہ آیا اور انھوں نے ڈاکٹر ذاکر نائیک کی تقاریر پر پابندی عائد کیں، حالانکہ سیکولر ہندوستان میں ہر مذہب کو تبلیغ کا پورا حق ہے اور دستور اس کی ضمانت دیتا ہے۔ ان کا ٹی وی اسٹیشن بند کردیا گیا، ان پر دہشت گردی اور فرقہ وارانہ منافرت کے الزامات لگائے گئے۔

بھارت میں جب ان کا رہنا مشکل ہوگیا تو انھوں نے ملائیشیا کا رخ لیا۔ مگر بھارت اب فرقہ وارانہ دہشت گردی کے الزامات کے ساتھ وہاں بھی براجمان ہوگیا۔ ملائیشیا میں الحمدﷲ اسلام کا اچھا خاصا اثر ہے اور وہ بخوبی جانتے تھے کہ ذاکر نائیک جو کچھ کہہ اور کررہے ہیں اس میں نہ فرقہ وارانہ منافرت ہے، نہ دہشت گردی، وہ سیدھی سادی تعلیم ہے، اللہ کے بندوں کو اللہ کی بندگی میں لانے کی، چنانچہ ملائیشین حکومت نے انھیں ملائیشیا میں مستقل قیام کی اجازت بھی دی اور اپنا مہمان بنالیا۔

بھارت کو شاید امریکا کی نقل کرنے کی عادت پڑگئی ہے۔ وہ اس کے قدم بقدم چلنے کی کوشش کرتا ہے۔ امریکا نے ہم پر ڈرون حملے کیے اور جدید سیاسی اصطلاح میں سرجیکل اسٹرائیک کیے تو بھارت کو بھی شوق ہوا کہ ہم پر سرجیکل اسٹرائیک کرے۔ تاحال تو وہ اس میں کامیاب نہ ہوسکا اور انشااللہ نہ ہوسکے گا، البتہ کوا ہنس کی چال چلنے کے چکر میں اپنی چال بھی بھول گیا۔

اب امریکی نقالی کی دوسری بھونڈی کوشش ذاکر نائیک کی ملائیشیا سے بے دخلی بلکہ بھارت کو حوالگی ہے۔ ماضی میں جب افغانستان کی طالبان حکومت نے القاعدہ کی قیادت کو اپنے یہاں پناہ دی تو امریکا نے ان کو افغانستان سے نکالنے کا مطالبہ کیا۔ افغانی اپنی صدیوں پرانی روایات رکھتے ہیں اور بہادر اور نڈر قوم ہیں، انھوں نے اپنے مہمانوں کو نکالنے یا حوالہ کرنے سے انکار کیا، چنانچہ امریکا نے افغانستان پر حملہ کردیا اور ہمیں دھمکاکر چپ چاپ بیٹھے رہنے کا حکم دیا، جس کی ہم نے بلا چوں و چرا تعمیل کی اور ان کا ہر حکم بجا لانے میں اپنی عافیت سمجھی۔

اب بھارت ملائیشیا سے ایک ایسے شخص کی حوالگی کا مطالبہ کررہاہے جس کا قصور یہ ہے کہ وہ جس دین کو برحق سمجھتا ہے لوگوں کو اس کی طرف دعوت دیتا ہے۔ اب کیا اگر ملائیشیا نے ذاکر نائیک کو بھارت کے حوالے نہ کیا تو بھارت بھی ملائیشیا کی اینٹ سے اینٹ بجا دے گا۔ ’’اے خیال است و محال است و جنوں‘‘۔

اس معاملے کا ایک پہلو اور بھی غور طلب ہے جو دوسرے بہت سے معاملات میں بھی واضح ہوچکا ہے کہ آخر انسانی حقوق کی تنظیمیں اور سیکولر ملکوں کی پالیسی کے مدارج حلقے کیوں نہیں کہتے کہ ذاکر نائیک نے سرے سے کوئی گناہ ہی نہیں کیا تو اسے بے گناہی کی سزا کیوں۔

لیکن اس سے بھی زیادہ افسوس ناک مسلم ممالک کا رویہ ہے کسی ایک مسلم ملک نے بھی سرکاری طور پر ملائیشیا کی حکومت کی پیٹھ نہیں تھپتھپائی۔ کسی اسلامی ملک نے بھارت کے اس متعصبانہ رویہ کے خلاف صدائے احتجاج بلند نہیں کی۔ بعض ملکوں میں البتہ نحیف و نزار آوازیں ضرور اٹھیں جن کا کوئی اثر کسی پر کبھی نہیں ہوتا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔